سرکاری ہسپتا لوں میں موت ،ذمہ دار کون ؟

 یہ کیا ہو رہا ہے پاکستان میں ؟
کبھی ینگ ڈاکٹر ز کی ہٹرتال تو کبھی ڈینٹل ہسپتال کی طرف سے کام نہ کرنے کا فیصلہ آجا تا ہے ۔
کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ڈاکٹرز کی ہڑتال سے کیا کیا نقصا نا ت ہو تے ہیں۔
کتنی جانیں چلی جا تی ہیں؟
کوئی باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتا ہے تو کوئی ماں کھو دیتا ہے ۔کسی کی زندگی ویران ہو جاتی ہے تو کوئی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان ہا ر بیٹھتا ہے ۔کوئی ماں اپنے بچے کو سینے سے لگا ئے ڈاکٹر کی منتیں کر تی دہا ئی دیتی نظر آتی ہے تو کسی ماں کی گود میں اس کا لال آخری ہچکی لے کر ہمیشہ کے لیے آ نکھیں بند کر لیتا ہے ۔
آخر کب تک یہ ہو تا رہے گا اور کیو ں ؟
ذیا دتی کس کی ہے حکمرانوں کی یا جن کو ہم اپنا مسیحا ء سمجھتے ہیں اختیا رات کا نا جا ئز استعما ل ہے یا گردنیں اقتدار کے سر پے سے اکڑی ہو ئی ہیں ۔
کون سچا ہے کون جھوٹا ؟
حکمران یا ڈاکٹرزمگر سو چنے کی بات تو یہ ہے کہ سرکا ری ہسپتا لوں میں علاج معا لجہ کے لیے صرف وہ لوگ جاتے ہیں جن کے پاس پرائیو ٹ کلینکوں ،بڑے بڑ ے ناموں والے ہسپتا لوں میں بیٹھے دولت کی ہو س میں مبتلا ڈاکترز کی لمبی لمبی فیسیں ادا کرنے کی سکت نہیں ہو تی اور نہ ہی ان بے بس اور مجبور لو گوں کے پاس بڑ ی بڑی لیبا رٹر یوں سے ٹیسٹ کروانے کے لیے حرام کی کما ئی ہوتی ہے امیر ہو یا غریب رشتہ سب کا مقدس ، اہم اور جذباتی ہو تا ہے مگر فر ق صرف یہ ہو تا ہے کو ئی مقدروں کا مارا ،غر بت کے تھپڑ کھا تا ،رزق حلا ل کی جستجو میں مارا مارا اپنے پیا رے کو لے کر کسی بڑے نام والے ہسپتال کی پرچی لینے کی بھی ہمت نہیں رکھتا تو کسی کو خداوند کریم اس قدر نواز دیتا ہے کہ دولت کے ڈھیر کی آڑ لے کر سرکاری ہسپتالوں میں جا نا اپنی تو ہین سمجھتے ہیں مگر غربت ک چکی میں پسنے والوں ،سرکاری ہسپتالوں میں اپنے پیا روں کو لے کر جانے والوں سے کسی کو غرض نہیں ہوتی اوپر سے ڈاکٹر ز کی ہڑ تال اور مفا دات کی جنگ میں ہنستے بستے گھر اجڑتے دکھا ئی دیتے ہیں ۔ وہ کن کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں ،کہاں فریا د لے کر جا ئیں ،کس کو اپنوں سے بیچھڑ نے کا درد سنا ئیں ؟

ایک ایسا ہی نو جوان جسے اپنی ما ں سے بہت پیا ر تھا جس کی صبح اس کی ماں کی آواز سے ہو تی تھی اور شام ماں کے پیار سے ہو تی تھی جو غربت کی چا در او ڑھے سب میں خو شیاں تقسم کرنے کے لیئے مسکرا تا پھرتا اور لو گوں کو ہنسا تا پھرتا تھا آج بڑے دنوں بعد اس نو جوان کو دیکھا تو اس کے چہر ے سے مسکرا ہٹ غا ئب تھی ۔الجھے بال ،چاک گریبان آنکھوں میں سپنوں کی بجا ئے آنسوں لئے میر ے سا منے کھڑا تھا اس حا لت کے بارے پو چھنے پر وہ نوجوان جو سب کو ہمت کرنے کا درس دیتا تھا آج پھٹ پڑ ا اور اس کے آنسوؤں کا روکا طوفان یوں چلا کہ لگتا تھا بہت کچھ بہا لے جا ئے گا معلو م پڑا کہ اس کی ماں جو اس کی زندگی تھی جو اس کی رہنما ء تھی جو اس کی ہمت اور حو صلہ تھی ایک روز بیمار ہو گئی اس کے مقا می شہر کے ڈاکڑز نے چیک اپ کیا دوائی دی آرام نہ آیا تو ماں کی محبت اور اس کی بگڑ تی حا لت کو دیکھ کر پریشان غریب نو جوا ن سرکاری ہسپتا ل لے گیا مگر چھو ٹے شہروں میں جس طرح کی سرکاری ہسپتا لوں میں سہو لیا ت مہیا کی جاتی ہیں اس طرح کی سہو لیا ت ہو نے کی بنا پر سرکاری ہسپتال کے سرجن چیک اپ اور ٹیسٹ کروانے کے بعد حکم صا در فرما یا کہ مر یضہ کے پتہ میں پتھری ہے جو خوراک کی نا لی میں جا چکی ہے پتھری خود بھی نکل سکتی ہے اور نہیں بھی اس لیے فوری آپریشن ضروری ہے اور ۂاں کو ئی سہو لت نہیں لہذا جناح ہسپتا ل لا ہور لے جاو باپ کی شفقت سے مر حوم ماں کی تقلیف کو دیکھتے ہو ئے بیچھر نے کے اندیشے کے پیش نظر فوری اپنی ماں کو لے کر لا ہر جنا ح ہسپتال چلا گیا جہاں داخل کروانے کے بعد معلو م ہوا کے ڈاکٹر ز آج ہڑ تال کر یں گے مجبور بے بس نو جوان پر یہ خبر بجلی بن کے گری پروفیسر کی منت سما جت کرتا دو ڑتا بھا گتا نو جوان ایک سے دوسرے ڈاکٹرز کی طرف جا تا مگر ہڑتال پر ہو نے کی وجہ سے چیک نہ کر رہے تھے ۔عوام کو موت کے سپرد کرنے اورغریبوں کو اپنوں سے دور کرنے کے لیے ہسپتا ل انتظا میہ ٹر ینگ کر نے والے ڈاکٹر ز کو ہسپتالوں میں داخل مریضو ں پر تجر بے کر نے کا کھلم کھلا مو قع فراہم کیا جا رہا تھا ۔ایک روز،دو روز ،چار روز مگر ہڑتا ل تھی کہ ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی تھی ہر منٹ بعد کو ئی نہ کو ئی ایمبو لینس حا دشے کا شکار خو ن میں لت پت لو گو ں کو چھو ڑ کر جا رہی تھیں جن کو تھو ڑی سی تو جہ زند گی دے سکتی تھی کو ئی خا ندا نی د شمنی کی بھنٹ چڑھ کر زند گی اور موت سے لڑتا ہسپتا ل آرہا تھا تو کئی ضیعف العمر خواتین و مرد زند گی اور مو ت لڑ تے داخل ہو رہے تھے مگر انکی ٹر یٹمنٹ کر نے والے سب کچھ دیکھتے ہو ئے بھی پتھر بنے اپنے مفا دات کو حا صل کر نے کی جنگ میں کئی لو گوں کی زند گیو ں سے روزا نہ کھیل رہے تھے کئی ایسی ما ئیں تڑ پتی ایک منزل سے دوسری منزل ایک کمر ے سے دوسرے کمرے ،ایک آفس سے دسرے آفس ننگے پا ؤں دوڑتی اور اپنے معصوم بچوں کی زند گی کے لیے دو پٹے پھلا ئے بھیک ما نگتی ہو ئی ڈاکٹروں کے قدموں میں گر تی دکھا ئی دیتی تھیں مگر مسیحا کے روپ میں پتھر دل ڈاکٹرز نہ کسی مجبور کو دیکھ پا رہے تھے نہ کوئی فریاد سن رہے تھے ۔تیسر ے یا چو تھے روز کو ئی نہ کو ئی پرو فیسر آتا اور آپریشن کر نے کا دلا سہ دے کر چلا جا تا ہر روز کے ٹسٹ میں نو جوان بیس دنوں میں سوا لاکھ کے قر یب لیبا رٹری والوں کو دے چکا تھا ۔گھر میں جو تھا سب بکتا جا رہا تھا ماں بچ جا ئے چند منٹ کا آپریشن کر نے والا کو ئی نہ تھا ہڑ تا ل بڑ ھتی گئی شہباز شریف نے مطا لبات تسلیم کیے نہ ڈاکٹر ز نے ہڑ تال ختم کی ،آخر ایک رات نو جوان کی ماں زند گی سے لڑ تے لڑے ،ٹرینگ حا صل کر نے والے ڈاکٹرز کے تجر بوں کی بھینٹ چڑھ کر خا لق حقیقی سے جا ملی اس طرح ان گز رے دنوں میں نو جوان سینکٹروں افراد کو روتے دیکھا جینکو فوری ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی مگر مسیحا ء ہی میسر نہ تھے جن کا ہر منٹ خدمت بن جا تا ہے وہ نو جوان آج مجھے زندگی سے بیزار ڈاکٹرز کیلیے دل میں نفرت اور حکمرانوں کے لیے بد د عا ئیں لیے نظر آیا۔
حکمرانوں،،اس کے بہتے آنسووں کا جواب تم دو گے یا ڈاکٹرز اس نو جوان کی ماں سمیت سینکٹروں بے یا رو مدد گار ہسپتال میں مر جا نے والوں کا زمہ دار کون ؟
ایسے کئی نو جوانوں کے سروں سے سا یہ اور ماں چھین لینے والے ظا لم اور پتھر دل ڈاکٹرز خدا کی عدالت میں کیا جواب دو گے ؟
اگر ڈاکٹرز جیسے مقدس پیشے سے وا بستہ لوگ یو ں ہی ہڑتا لیں کر تے رہے اور حکمران بے حسی سے ان کا تما شا دیکھتے رہے تو کیا ہو گا ؟
کیا یوں ہی ہر گھر میں مو ت با نٹی جا تی رہے گی ؟
کیا یو ں ہی زندگی کی آس لے کر آنے والوں کو موت ملتی رہے گی ؟
کیا یو ں ہی میر ے ملک کے نو جوان آنکھوں میں سپنوں کی جگہ آنسو بھرے دل میں نفرت کی آگ جلا کے ٹو ٹتے رہیں گے ؟

خدا رہ وقت کے حکمرانوں :یہ تاج و تخت کبھی کسی کا نہیں ہوا بڑے بڑے نام مٹی مٹی میں مل گئے مگر زندہ رہا تو اچھا کام اور عوام کے لیے اٹھا ئے کئے اقدا مات کے علاوہ عدل و انصا ف ،اس لیے ڈاکٹرز خصو صا سرکا ری ہسپتا لوں کے لیے ایسی پا لیسی بنا جاؤ اور اقدا مات کر جاؤ کبھی ہڑ تال نہ ہو اور غریب اپنے پیا روں سے بیچھٹر کر زندگی بھر حکمرانوں اور ڈاکٹر ز کے لیئے دل میں نفرت کا طو فان لیے نہ ہرپل جیئے اور مرے ۔۔۔
Rana Zafar Iqbal
About the Author: Rana Zafar Iqbal Read More Articles by Rana Zafar Iqbal: 3 Articles with 2415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.