غزوہ بنی قریظہ

بنی قریظہ مدینہ میں یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور بنو قریظہ کے درمیان ایک صلح نامہ پر دستخط ہو چکے تھے۔ لیکن غزوہ خندق میں انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام ہو گئی۔ غزوہ خندق کے شروع میں یہودی قریظہ الگ تھے لیکن حیی بن اخطب سردار بنو نظیر نے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی پوری کوشش کی یہاں تک کہ وہ خود کعب بن اسد سردارِ بنی قریظہ کے پاس گیا اور مسلمانوں کے خلاف احزاب میں شرکت کے لئے اصرار کرتا رہا، بالآخر یہودیوں نے اپنی قدیم فطرت کے عین مطابق دغا کی اور مسلمانوں پر حملہ کے لیے تیار ہو گئے۔

جب یہ خبر حضور ﷺ کو ملی تو آپ ﷺ نے سعد بن معاذ ،سعد بن عبادہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کو تحقیق کے لیے روانہ فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اگر یہ خبر صحیح نکلے تو وہاں سے واپس آکر اس خبر کو ایسے مبہم الفاظ میں بیان کرنا کہ لوگ سمجھ نہ سکیں اور اگر غلط ہو تو پھر علی الاعلان بیان کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ حضرات کعب بن اسد کے پاس گئے اور اس کو معاہدہ یاد دلایا تو کعب نے کہا کیسا معاہدہ اور کون محمد ﴿ ﷺ﴾ میرا ان سے کوئی معاہدہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو ان کی غدّاری اور بد عہدی سے صدمہ ہوا اور بالآخر یہی بد عہدی بنو قریظہ کی بربادی اور ہلاکت کا سبب بنی۔

رسول اللہ ﷺ غزوۂ خندق سے صبح کی نماز کے بعد واپس ہوئے آپ(ص) نے اور تمام مسلمانوں نے ہتھیار کھول دیئے۔ جب ظہر کا وقت قریب آیا تو جبرئیل امین ایک خچر پر سوار عمامہ باندھے ہوئے تشریف لائے اور نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہوئے۔ کیا آپ نے ہتھیار اُتار دیئے ہیں، آپ نے فرمایا ہاں۔ جبرئیل امین نے کہا فرشتوں نے ابھی ہتھیار نہیں کھولے اور نہ وہ واپس ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بنی قریظہ کی طرف جانے کا حکم دیا ہے اور میں خود بھی بنی قریظہ کی طرف جا رہا ہوں۔ حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ اللہ عز وجل نے جب احزاب کو شکست دی تو بنی قریظہ قلعوں میں گھس گئے۔ جب جبرئیل امین فرشتوں کی جماعت کے ساتھ بنی قریظہ کی طرف روانہ ہوئے تو کوچہ بنی غنم تمام گردوغبار سے بھر گیا۔ حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ وہ غبار کہ جو حضرت جبرئیل کی سواری سے کوچہ بنی غنم میں اُٹھا تھا وہ اب تک میری نظروں میں ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اعلان کرنے کے لئے ایک منادی بھیج دیا جس نے رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم لوگوں کو سنایا ’’کہ کوئی آدمی عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک کہ بنو قریظہ میں نہ پہنچ جائے‘‘۔راستہ میں جب نماز عصر کا وقت آیا تو اختلاف ہوا بعض، نے کہا کہ ہم تو بنی قریظہ ہی پہنچ کر نماز پڑھیں گے، بعض نے کہا ہم نماز پڑھ لیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کا یہ مقصد نہ تھا ﴿کہ نماز ہی قضا کر دی جائے بلکہ مقصد جلدی پہنچنا تھا﴾۔ رسول کریم ﷺ کو جب صحابہ کرام (رض) کے اس اختلافِ عمل کی خبر دی گئی تو آپ(ص) نے دونوں فریق میں سے کسی کے لئے اظہارِ ناراضی نہیں فرمایا بلکہ دونوں کی تصویب فرمائی۔ اس سے علما امت نے یہ اصول اخذ کیا کہ علمائے مجتہدین جو حقیقۃً مجتہد ہوں اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کے اقوال اگر مختلف ہوں تو ان میں سے کسی کو گناہ اور منکر نہیں کہا جا سکتا، دونوں فریقوں کے لئے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

بنو قریظہ سے جہاد کے لئے نکلنے کے وقت رسول اللہ ﷺ نے جھنڈا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمایا۔ یہ ۳۲ ذی القعدہ ۵ ھ ÷ بدھ کے دن کا واقعہ ہے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تین ہزار صحابہ کرام(رض) تھے اور لشکر میں چھتیس گھوڑے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے آنے کی خبر سن کر بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے اسلامی لشکر نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ اکیس روز تک جاری رہا جس سے عاجز ہو کر انہوں نے وطن چھوڑ کر ملک شام چلے جانے کی درخواست کی آپ(ص) نے ان کی شرارتوں کے پیش نظر اس کو قبول نہیں فرمایا۔ مزید جب صحابہ کرام (رض) جب وہاں پہنچے تو یہود نے آنحضرت ﷺ کو کھلم کھلا گالیاں دیں ﴿جو ایک مستقل اور ناقابل معافی جرم ہے﴾۔

بنو قریظہ کا سردار کعب جس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، اپنی قوم کو جمع کر کے حالات کی نزاکت بیان کرتے ہوئے تین صورتیں عمل کی پیش کیں:

اول یہ کہ تم سب کے سب اسلام قبول کر لو اور محمد ﴿ﷺ﴾ کے تابع ہوجاؤ، کیونکہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم سب لوگ جانتے ہو کہ وہ حق پر ہیں، اور تمہاری کتاب تورات میں ان کی پیشین گوئی موجود ہے، جو تم پڑھتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کر لیا تو دنیا میں اپنی جان و مال اور اولاد کو محفوظ کر لو گے، اور آخرت بھی درست ہو جائے گی۔

دوسری صورت یہ ہے کہ تم اپنی اولاد اور عورتوں کو پہلے خود اپنے ہاتھ سے قتل کر دو اور پھر پوری طاقت سے مقابلہ کرو اگر تم ناکام رہے تو بچوں اور عورتوں کا کوئی غم نہ ہوگا اور اگر کامیاب ہوگئے تو عورتیں بہت ہیں ان سے بچے بھی پیدا ہو جائیں گے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ یوم السبت ﴿ہفتہ کے دن﴾ تم مسلمانوں پر یکبارگی حملہ کردو، کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں یوم السبت میں قتال حرام ہے، اس لئے وہ ہماری طرف سے اس دن میں بے فکر ہوں گے۔ ہم ناگہانی طور پر حملہ کریں تو ممکن ہے کامیاب ہو جائیں۔

کعب کی یہ تقریر سن کر قوم کے لوگوں نے جواب دیا کہ پہلی بات یعنی مسلمان ہو جانا تو ہم ہرگز قبول نہ کریں گے، کیونکہ ہم تورات کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو نہ مانیں گے۔ رہی دوسری بات تو بلاوجہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرکے زندگی کا لطف کیا ہے۔ باقی تیسری بات خود حکم تورات اور ہمارے مذہب کے خلاف ہے، یہ بھی ہم نہیں کر سکتے۔

حضرت ابو لبابہ (رض) بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ سے بنی قریظہ کے حلیفانہ تعلقات تھے اس لئے ان کو یہ امید ہوئی کہ شاید اس آڑے وقت میں وقت میں ہماری کوئی مدد کر سکیں اس بنا پر بنو قریظہ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ابو لبابہ(رض) کو ہمارے پاس بھیج دیں تاکہ ہم ان سے مشورہ کریں آپ نے ابو لبابہ(رض) کو اجازت دی۔ ابو لبابہ(رض) کو دیکھ کر سب جمع ہوگئے، بچے اور عورتیں ان کو دیکھ کر رونے لگے یہ دیکھ کر ابو لبابہ(رض) کا دل بھر آیا۔ بنو قریظہ نے جب اُن سے دریافت کیا کہ کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے حکم کو منظور کرلیں اور آپ کے فیصلے پر راضی ہو جائیں۔ ابو لبابہ(رض) نے کہا بہتر ہے لیکن حلق کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ذبح کئے جاؤ گے، رسول اللہ ﷺ کا ارادہ تمہارے قتل کا ہے۔ ابو لبابہ اپنی جگہ سے ہٹے نہ تھے کہ فوراً متنبہ ہوئے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کا راز فاش کر دیا گویااللہ عزو جل اور اُس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔ جب وہاں سے واپس ہوئے تو اس درجہ ندامت سوار ہوئی کہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں لوٹنے کی بجائے سیدھے مسجد نبوی میں پہنچے اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا اور قسم کھائی کہ جب تک اللہ عزو جل میری توبہ قبول نہ فرمائے گا اسی طرح بندھا رہوں گا چاہے اسی حالت میں موت آجائے۔ چنانچہ سات روز مکمل اسی طرح بندھے کھڑے رہے اور ان کی بیوی اور لڑکی نگہداشت کرتی تھیں، کھانے پینے کے پاس نہ جاتے تھے یہاں تک کہ غشی طاری ہو جاتی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ اگر وہ اول ہی میری پاس آجاتے تو میں ان کے لئے استغفار کرتا اور توبہ قبول ہوجاتی اب جب کہ وہ یہ کام کر گزرے تو اب قبولیت توبہ نازل ہونے کا انتظار ہی کرنا ہے۔ چنانچہ سات روز کے بعد آخر شب میں آپ(ص) پر یہ آیتیں ان کی توبہ قبول ہونے کے متعلق نازل ہوئیں:

وَ اٰ خَرُوْنَ ا عْتَرَ فُوْ ا بِذُ نُوْ بِھِمْ خَلَطُوْ ا عَمَلًا صَا لِحًا وَّ اٰ خَرَ سَیِّئًا ط عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْ ر،ُ رَّ حِیْم،ُ ہ ﴿توبہ:۲۰۱﴾

ترجمہ: اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا ﴿صاف﴾ اقرار کرتے ہیں انہوں نے اچھے برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ اللہ ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

بعض حضرات نے ان کو خوشخبری سنائی اور کھولنا چاہا مگر انہوں نے کہا کہ جب تک خود آنحضرت ﷺ مجھے نہ کھولیں گے میں کھلنا پسند نہ کروں گا۔ چنانچہ جب آپ(ص) صبح کی نماز کے وقت مسجد میں تشریف لائے تو اپنے دستِ مبارک سے ان کو کھولا۔

دوسری طرف بنو قریظہ مجبور ہر کر اس پر آمادہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور آپ اُن کے بارے میں جو فیصلہ فرما دیں اس پر راضی ہو جائیں۔ انصاری صحابہ کرام میں جو لوگ قبیلہ اوس سے متعلق تھے ان کے اور بنو قریظہ کے درمیان قدیم زمانے میں معاہدہ رہا تھا تو اوسی صحابہ کرام نے آنحضرت سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ میں ان کا معاملہ تمہارے ہی ایک سردار کے سپرد کر دوں۔ یہ لوگ اس پر راضی ہوگئے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارے سردار سعد بن معاذ ہیں، اس کا فیصلہ میں ان کے سپرد کرتا ہوں، اس پر سب لوگ راضی ہو گئے۔

حضرت سعد بن معاذ(رض) کو واقعہ خندق میں تیر کا زخم شدید پہنچا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تیمارداری کے لئے مسجد کے احاطہ میں ایک خیمہ لگوا کر اس میں ٹھہرا دیا تھا۔ ان کے بلانے کے لئے آدمی بھیجا، حمار پر سوار ہو کر تشریف لائے جب آپ(ص) کے قریب پہنچے تو یہ فرمایا:
’’اپنے سردار کی تعظیم کے لئے اُٹھو‘‘

جب اتار کر بٹھا دیے گئے تو آپ(ص) نے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں نے اپنا فیصلہ تمہارے سپرد کیا ہے۔ حضرت سعد(رض) نے کہا میں ان کی بابت یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑنے والے یعنی مرد قتل کئے جائیں اور عورتیں اور بچے اسیر کر کے لونڈی غلام بنا لئے جائیں اور اُن کا تمام مال و اسباب مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے۔ آپ(ص) نے ارشاد فرمایا بیشک تو نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا۔

بعد ازاں حضرت سعد(رض) نے یہ دعا مانگی : اے اللہ تجھ کو خوب معلوم ہے کہ مجھ کو اس سے زیادہ کوئی محبوب چیز نہیں کہ اس قوم سے جہاد کروں جس قوم نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور حرم سے نکالا۔ اے اللہ میں گمان کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے اور ان کے مابین لڑائی کو ختم کر دیا ہے۔ پس اگر قریش سے ابھی لڑنا باقی ہے تو مجھ کو زندہ رکھ تاکہ تیری راہ میں اُن سے جہاد کروں اور اگر تو نے لڑائی کو ختم کر دیا ہے تو اس زخم کو جاری کردے اور اسی کو میری شہادت کا ذریعہ بنا دے۔ دعا کا ختم ہونا تھا کہ زخم جاری ہوگیا اور اسی میں وفات پائی۔ انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون۔

حضرت جابر(رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سعد بن معاذ کی موت سے عرش ہل گیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آسمان کے تمام دروازے ان کے لئے کھول دئیے گئے اور آسمانوں کے فرشتے ان کی روح کے چڑھنے سے مسرور ہوئے۔ اور ستر ہزار فرشتے ان کے جنازہ میں شریک ہوئے جو اس سے قبل کبھی آسمان سے نازل نہ ہوئے تھے۔

تمام بنی قریظہ گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے اور ایک انصاری عورت کے مکان میں ان کو قید رکھا گیا اور بازار میں ان کے لئے خندقیں کھدوائی گئیں بعد ازاں دو دو چار چار کو اس مکان سے نکلوایا جاتا اور ان خندقوں میں ان کی گردنیں ماری جاتیں۔ حیی بن اخطب اور سردار بنی قریظہ کعب بن اسد کی بھی گردن ماری گئی۔ حیی بن اخطب ﴿جس کے کہنے سے کعب بن اسد سردار بنی قریظہ نے رسول اللہ ﷺ سے بد عہدی کی اور معاہدہ توڑا﴾ جب آپ کے سامنے لایا گیا تو آپ(ص) کی طرف دیکھ کر کہا کہ واللہ میں اپنے نفس کو آپ کی دشمنی کے بارے میں ملامت نہیں کرتا لیکن حق یہ ہے کہ خدا جس کی مدد نہ کرے اس کا کوئی مددگار نہیں پھر لوگوں کی طرف دیکھا اے لوگو کچھ مضائقہ نہیں اللہ نے بنی اسرائیل کے لئے جو سزا مقدر کی تھی اور جو مصیبت ان کے لئے لکھ دی تھی وہ پوری ہوئی یہ دیکھ کر حیی بیٹھ گیا اور اس کی گردن ماری گئی۔ عورتوں میں سوائے ایک عورت کے کوئی عورت قتل نہیں کی گئی جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے کوٹھے سے چکی کا پاٹ گرایا تھا جس سے حضرت خلاد بن سوید(رض) شہید ہوئے۔

ترمذی، نسائی، ابن حبان میں حضرت جابر(رض) سے صحیح اسناد سے مروی ہے کہ ان کی تعداد چار سو تھی بعض روایات میں یہ تعداد چھ سو یا سات سو بھی آئی ہے۔ بنی قریظہ کے قیدیوں کو فروخت کرنے کے لئے نجد اور شام کی طرف بھیجا گیا اور ان کی قیمت سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گئے اور جو مال و اسباب بنی قریظہ سے غنیمت میں ملا تھا وہ مسلمانوں پر تقسیم کیا گیا۔
بنی قریظہ کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں:

وَ اَنْزَ لَ الَّذِ یْنَ ظَا ھَرُ وْ ھُمْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ صَیَا صِیْھِمْ وَ قَذَ فَ فِیْ قُلُوْ بِہِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْ نَ وَتاْ سِرُوْنَ فَرِیْقًا ہ وَ اَوْ رَ ثَکُمْ اَرْ ضَھُمْ وَ دِیَا رَ ھُمْ وَ اَمْوَا لَہُمْ وَ اَرْ ضًا لَّمْ تَطئَُوْ ھَا ط وَ کَا نَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِ یْرً ا ہ ع ﴿سورۃ احزاب: ۶۲، ۷۲﴾

ترجمہ: اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے اُن کی مدد کی تھی اُن کو اُن کے قلعوں سے اُتار دیا اور اُن کے دلوں میں دہشت ڈال دی۔ تو کتنوں کو تم قتل کر دیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے اور اُن کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنا دیا۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

یہ مبارک غزوہ جہاں مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے وہاں یہودیوں کی مکاریوں اور دغا بازیوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے اور اُن کی اسلام دشمنی پر سے پردہ اُٹھاتا ہے جو اُس وقت سے جاری ہے جب سے اسلام شروع ہوا اور آج بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قرآن کریم کی آیات اور حضور اکرم ﷺ کی سنت طیبہ نہ صرف یہودیوں کی اس اسلام دشمنی کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ ان کے تدارک کا طریقہ بھی بتاتی ہے۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 198484 views A Simple Person, Nothing Special.. View More