کراچی:جرائم میں کمی کا دعویٰ....حقائق کیا ہیں؟

دو کروڑ سے زاید آبادی رکھنے والا کراچی وطن عزیز کی تجارتی شہ رگ ہے۔ پاکستان کی بیشتر کمپنیوں کے صدر دفاتر اسی شہر میں واقع ہیں۔ تیس ہزار سے زاید چھوٹے بڑے صنعتی ادارے اسی شہر میں کام کررہے ہیں۔ پاکستان کی 25 فیصد سے زاید معاشی سرگرمیاں اسی نگر میں جنم لیتی ہیں۔ شہر کی صنعت وتجارت سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہر روز 50 تا 60 ارب روپے مالیت کی معاشی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ کئی سالوں سے بھتا خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم سمیت مختلف جرائم کی شرح بڑھنے لگی۔ روزانہ کی بنیاد پر پندرہ سے بیس شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے لگے۔ بھتا نہ دینے پر کئی صنعت کارو تاجر قتل ہوئے تو متعدد صنعت کار اور تاجر پنجاب یا بیرون ملک چلے گئے۔ کراچی کی معیشت کے متاثر ہونے سے پورا ملک متاثر ہوا۔ شہریوں اور تاجروں کی جانب سے کراچی میں آپریشن کا مطالبہ بڑھنے لگا۔ اہل کراچی کے پر زور مطالبے پر 5 ستمبر 2013ءکو نوازشریف حکومت نے شہر میں نیا عسکری آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی۔ آپریشن انجام دینے کی ذمے داری سندھ رینجرز کو سونپی گئی۔ کراچی پولیس اور وفاقی و صوبائی انٹیلی جنس ادارے رینجرز کے معاون قرار پائے۔ رینجرز نے آپریشن انتہائی کامیابی کے ساتھ جاری رکھا، جس سے شہر بڑے جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور شہر میں کافی حد تک امن قائم ہوا ہے۔ دوسری جانب تاجر برادری شہر میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے کراچی میں ایک بار پھر جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں سرگرم ماہر اور منجھے ہوئے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تمام تکنیکی وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ بھتے کے لیے سیلولر فون سے دی جانے والی دھمکیوں کی شکایات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سی پی ایل سی جیسے اہم اور تکنیکی وسائل سے آراستہ ادارے کی تباہی سے تاجر پریشان اور مجرم سرگرم ہوگئے ہیں۔ عتیق میر کا کہنا تھا کہ سی پی ایل سی میں نااہل چیف کی تقرری جرائم پیشہ عناصر کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے، فوری تبدیل نہ کیا گیا تو احتجاجی ریلی اور گورنر ہاﺅس پر دھرنا دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی آپریشن نے شہر میں کافی حد تک امن قائم ہوا ہے اور رینجرز کی کارروائیوں سے ٹارگٹ کلنگ جیسے بڑے جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اسٹریٹ کرائمز میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ گزشتہ سال بھی جرائم پیشہ عناصر نے ہتھیار نہ ڈالے اور ان کی سرگرمیاں مسلسل جاری رہیں، جس کے نتیجے میں شہری اربوں روپے مالیت کی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیا سے محروم ہوگئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ شہر میں دہشتگردی، قتل، اغوا برائے تاوان، کار اسنیچنگ اور ڈکیتیوں سمیت سنگین جرائم کم ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز کراچی پولیس نے سالانہ رپورٹ 2015تیار کر کے اعلی حکام کو ارسال کی ہے، جس کے مطابق کراچی میں 2015ءکے دوران 874 قتل، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ 153 افراد بنے، جبکہ دہشتگردی کی 32 وار داتیں ہوئیں۔ ایک برس کے دوران قتل کی وارداتوں میں 68، ٹارگٹ کلنگ میں 26 اور دہشتگردی میں 82 فیصد سے زاید کمی واقع ہوئی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی تعداد 57 فیصد سے زاید کمی کے ساتھ 36 رہی، جبکہ بھتہ خوری کی 210 وارداتوں ہوئیں، جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں60 فیصد سے زاید کمی ہوئی۔ کراچی پولیس کی رپورٹ کے مطابق ڈکیتی کی وارداتوں میں 27 فیصد سے زاید کمی ہوئی اور گزشتہ برس صرف 766 وارداتیں ہوئیں۔ 2015ءمیں گاڑیاں چھینے جانے کا گراف 70 فیصد سے زاید گرا اور صرف 329 گاڑیاں چھینی گئیں، گاڑیوں کے چوری ہونے کی شرح میں بھی 53 فیصد سے زاید کمی ہوئی اور 1775چوری کی گئیں۔ موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 45 فیصد سے زاید کمی ہوئی، تاہم چوری کی شرح 5 فیصد سے زاید بڑھ گئی۔ لیکن غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق کراچی میں سال گزشتہ 38 ہزار سے زاید موبائل فونز چوری اور چھینے گئے، جبکہ دو ہزار سے زاید کاروں اور 20 ہزار سے زاید موٹر سائیکلوں سے محروم ہونے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے مطابق سال گزشتہ جنوری میں 2280 موبائل فون چھینے گئے اور 1561 فونز چوری ہوئے۔ فروری میں 1787 موبائل فون چھینے گئے اور 1282 چوری ہوئے۔ مارچ میں 1914 موبائل فون چھینے گئے اور 1551 چوری ہوئے۔ اپریل میں 1782 موبائل فونز چھینے گئے اور 1523 چوروں کے ہاتھ لگے۔ مئی میں ڈاکو 1655 موبائل فون لے اڑے، جبکہ 1615 چوری ہوئے۔ جون میں 1324 موبائل فون چھینے گئے اور 1293 چوری ہوئے۔ جولائی میں 1804 موبائل فونز چھینے گئے اور 1377 چوری ہوئے۔ اگست میں 1723 موبائل فونز چھینے گئے اور 1651 چوری کرلیے گئے۔ ستمبر میں 3108 موبائل فون پر چور اور ڈاکو ہاتھ صاف کر گئے۔ اکتوبر میں 1719 موبائل فون شہریوں سے چھن گئے، جبکہ 1492 چوری ہوئے۔ نومبر میں 1885 موبائل فونز چھینے گئے اور 1607 چوری ہوئے۔ نومبر میں شہریوں کو دو ہزار موبائل فونز سے محروم کر دیا گیا۔ سال کے آخری مہینے دسمبر میں بھی موبائل فون لفٹرز نے 2000 سے زائد موبائل فونز سے شہریوں کو محروم کر دیا گیا۔ یہ اعدادو شمار وہ ہیں جن کی شہریوں نے رپورٹ درج کرائی۔ سی پی ایل سی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ واقعات اس سے زیادہ ہیں، کیوں کہ شہریوں کی اکثریت رپورٹ درج نہیں کراتی، صرف سم بند کرادیتی ہے۔

اسی طرح رپورٹ کے مطابق سال گزشتہ شہری دو ہزار سے زاید کاروں اور 20 ہزار سے زاید موٹر سائیکلوں سے محروم ہوگئے۔ ادارہ سی پی ایل سی اور اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اعدادو شمار کے مطابق جنوری میں 1557 موٹر سائیکلیں اور 132 گاڑیاں چھینی یا چوری کی گئیں۔ فروری میں 1568 موٹر سائیکلیں اور 220 کاریں، مارچ میں 1676 موٹر سائیکلیں اور 187 گاڑیاں، اپریل میں 1612 موٹر سائیکلیں اور 186 گاڑیاں، مئی میں 1671 موٹر سائیکلوں اور 191گاڑیاں، جون میں 1613 موٹر سائیکلیں اور 184 گاڑیاں، جولائی میں 1949 موٹر سائیکلیں اور 183 گاڑیاں، اگست میں 1999 موٹر سائیکلیں اور 137 گاڑیاں، ستمبر میں 1798 موٹر سائیکلیں اور 159 گاڑیاں، اکتوبر میں 1703 موٹر سائیکلیں اور 103 گاڑیاں، نومبر میں 1808 موٹر سائیکلیں اور 163 گاڑیاں چوری یا چھینی گئیں۔ سال کے آخری مہینے دسمبر میں سو سے زاید بڑی گاڑیاں اور ایک ہزار سے زاید موٹر سائیکلیں چوری یا چھینی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق سال گزشتہ شہر کے مختلف علاقوں میں 12 بینک ڈکیتیوں کی وارداتیں ہوئیں، جہاں سے ملزمان کروڑوں روپے لوٹ کر فرار ہوگئے، جبکہ دو جیولرز کی دکانیں لوٹے جانے کے ساتھ ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ سے بھی لاکھوں روپے نقدی لوٹ لی گئی۔ سال گزشتہ کی پہلی بینک ڈکیتی 27 فروری کو تیموریہ کے علاقے بینک الحبیب بینک، دوسری بینک ڈکیتی میں 7 اپریل کو نارتھ ناظم آباد میں مائیکرو فنانس بینک،تیسری ڈکیتی9 اپریل کو بلوچ کالونی میں واقع سمٹ بینک، چوتھی بینک ڈکیتی 15 اپریل کو عوامی کالونی کے علاقے میں واقع حبیب بینک،پانچویں بینک ڈکیتی 15 مئی کو لانڈھی میں بینک الحبیب، چھٹی بینک ڈکیتی 25 مئی کو گلشن اقبال میں واقع میزان بینک، ساتویں بینک ڈکیتی 7 جولائی کو سچل کے علاقے میں واقع الفیصل بینک، آٹھویں بینک ڈکیتی 18 اگست کو گلشن اقبال بلاک 13ڈی میں قائم سونیری بینک، نویں بینک ڈکیتی دو ستمبر کو الفلاح، دسویں بینک ڈکیتی 22 ستمبر کو مدینہ کالونی میں واقع سمٹ بینک، گیارہویں بینک ڈکیتی 15اکتوبر کو لانڈھی میں واقع میزان بینک اور بارہویں بینک ڈکیتی 15 نومبر کو اتحاد ٹاو ¿ن میں ہوئی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال بھی کراچی میں جرائم پر قابو نہ پایا جانا شہریوں کے لیے انتہائی پریشان کن امر ہے۔ رینجرز نے بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے، جس کی بدولت شہر میں قتل و غارت گری کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن پولیس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، کیونکہ اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانا پولیس کی ذمہ داری تھی، لیکن ان واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکا اور سال گزشتہ بھی جرائم پیشہ عناصر آزادی کے ساتھ شہریوں کو لوٹتے رہے۔ بڑے جرائم پر قابو پانے میں تو رینجرز کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے، اگر پولیس اسٹریٹ کرائمز پر بھی قابو نہیں پاسکتی تو پھر شہر میں پولیس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں جرائم پر قابو پانے کے لیے شہر میں اسلحے کی روک تھام ضروری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں پندرہ سے بیس لاکھ چھوٹے بڑے ہتھیار موجود ہیں۔ اسلحے کا یہ انبار پچھلے 35 برس کے دوران ہی وجود میں آیا۔ اس اسلحے نے شہر میں سیاسی ،جرائم پیشہ اور مذہبی نوعیت کے مسلح گینگ تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اگر اسلحے پر قابو نہیں پایا جاتا تو شہر میں امن قائم ہونا مشکل ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 640080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.