یہ منہ اور مسور کی دال

کہتے ہیں جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی اور لاہور میں بادشاہ رنجیت سنگھ کو اقبال نصیب ہوا تو دہلی کے دربار سے وابستہ کئی ماہرین فن نے اپنی قسمت آزمانے کیلئے دربار لاہور کا رخ کیا۔ انہی لوگوں میں ایک نامی گرامی باورچی بھی تھا جس کے کھانوں کی لذت دور دور تک مشہور تھی۔ شب دیگ، قورمہ اور بریانی تو ویسے ہی دہلی والوں کا سرمایہ افتخار ہیں لیکن اس شاہی باورچی کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی مسور کی دال بہت لذیذ ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ بریانی قورمہ پکانے والے تو ہزاروں مل جاتے ہیں لیکن ایسا باکمال شخص جو دال کھلا کر لوگوں کو انگلیاں چاٹنے پر مجبور کردے، آٹے میں نمک کے برار ہوتے ہیں۔

بہرحال یہ شخص سفر کرتا، منزل پر منزلیں طے کرتا لاہور پہنچا۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں شرف باریابی حاصل ہوا اور پہلے ہی دن جب آزمائشی طور پر مسور کی دال بارہ کھڑے مصالحوں کے ساتھ پکائی تو وزارت داخلہ یعنی ملکہ معظمہ کی طرف سے فرمان جاری ہوگیا کہ آئندہ سے یہی شخص شاہی باورچی ہوگا اور مزید یہ کہ تاحکم ثانی روزانہ دال ہی پکے گی۔

دربار لاہور کو دہلی کے چٹخارے ایسے راس آئے کہ پورے ہفتے مسلسل دال مسور ہی کھاتے رہے۔ ہفتے بعد جب بادشاہ سلامت کے سامنے باورچی خانہ کا بجٹ پیش ہوا تو وہ غصے سے لال پیلے، کالے، نیلے ہوگئے۔ باورچی کی طلبی ہوئی اور سوال یہ تھا کہ پہلے ہمارے باورچی خانے میں گوشت پکتا تھا مگر خرچہ اس سے کم تھا اب کے پورے ہفتے دال پکی ہے اور بجٹ آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے۔ باورچی بے چارے کیلئے یہ صورتحال بالکل نئی تھی، آج تک اس نے کھانے پکائے تھے تو کبھی اس سے کسی نے حساب کتاب نہیں مانگا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے سمجھایا کہ جناب جب دال کو ڈھنگ سے پکایا جائے گا تو مصالحہ جات ڈالے جائیں گے تو خرچہ تو آئے گا۔ مگر رنجیت سنگھ جیسے ’’معقول‘‘ شخص کی تسلی ہونی تھی نہ ہوئی۔ باورچی فوراً برطرف کردیا گیا۔ سو وہ کسی اور دربار میں قسمت آزمائی کیلئے دوبارہ سفر پر روانہ ہوگیا۔

اگلے ہی وقت جب ملکہ معظمہ کے سامنے دال مسور کے بجائے وہی گھسے پٹے قسم کے کھانے آئے اور سخت احتجاج ہوا اور اعلان ہوگیا کہ جب تک وہی باورچی دال مسور نہیں پکائے گا بھوک ہڑتال رہے گی۔ رنجیت سنگھ نے پہلے تو معاہدے کی بہت کوششیں کیں لیکن مجبور ہوکر اپنے سپاہی دوڑائے کہ اس باورچی کو جہاں کہیں پائیں پکڑ کر واپس لے آئیں۔ سیالکوٹ کے قریب کسی مقام پر یہ باورچی سفر کر رہا تھا کہ اچانک چاروں طرف سے اسے شاہ سواروں نے گھیر لیا، اس نے پوچھا تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟ جواب ملا کہ دربار لاہور سے تمہاری طلبی کا پروانہ لے کر آئے ہیں۔ بادشاہ رنجیت سنگھ تمہیں بلاتے ہیں۔ ایسے خسیس بادشاہ کا نام سن کر باورچی کے منہ پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے جواب میں یہ تاریخی جملہ کہا: ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘

بتایا جاتا ہے کہ اس باورچی نے اپنے پیشے کے تقدس کی خاطر جان کی بازی ہار دی مگر دربار واپس نہیں گیا اور شاہی باورچی خانے میں پھر کبھی دال مسور نہیں پکی۔

کہتے کہتے یہ بات کافی لمبی ہوگئی، پتہ نہیں اس کے کتنے حصے درست ہیں اور کتنے گڑبڑ، لیکن فی الحال ہم ایک اور بات کہنا چاہتے ہیں اور وہ بھی صرف ہوائی اور فضائی ، کیونکہ اس کی بھی کوئی معتبر سند . اور حوالہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔

ایک قومی اخبار نے اندرونی صفحات پر یہ دلچسپ خبر شائع کی ہے کہ ’’ افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی نے طالبان تحریک میں شمولیت کی دھمکی دیدی ‘‘ ۔ جناب کرزئی جو کچھ ہیں اور جیسے کچھ ہیں ‘ اس کو بیان کرنے کیلئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ۔ موصوف پہلے پہل تو کھانسنے سے پہلے بھی امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے اجازت لیتے تھے۔ ان کو اپنی حفاظت کیلئے بھی افغان فورسز پر اعتماد نہیں تھا ‘ چنانچہ انہوں نے اس بے کار کام کیلئے امریکہ کی ایک نجی سیکورٹی کمپنی کی خدمات بھاری معاوضہ دے کر حاصل کی ہوئی تھیں ۔ آج طالبان نے افغانستان میں پوری دنیا کے کفر کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے بلکہ چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا ہے۔ تو کرزئی صاحب بھی اپنوں کو نخرے دکھانے لگے ہیں ۔

کرزئی کو وہ سہانے دن کیسے بھول گئے جب طالبان کی لاشوں سے گزر کر انہوں نے امریکی چھتری تلے صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔ تب یہ حضرت خود تو دل و جان سے صلیبیوں کا کلمہ پڑھتے تھے ‘ دنیا بھر کے دیگر مسلمانوں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے کہ ’’امریکہ کو مانو ‘ امریکہ کی مانو اور امریکہ سے مانگو ‘‘۔ بد قسمتی سے اُن دنوں ہمارے ہاں بھی ایک باوردی کرزئی مسند ِ اقتدار پر براجمان تھا اور اُس نے ہی سب سے پہلے کرزئی کا مذہب قبول کیا تھا ۔

اس خبر کی مزید تفصیل پڑھیں تو آپ کو اردو کا یہ محاورہ ضرور یاد آجائے گا کہ ’’ بی مینڈ کی ‘ کو بھی زکام ہو گیا ہے ‘‘ ۔ اخبار کے مطابق افغان صدر نے پورے تین دنوں میں دوسری مرتبہ مغربی ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر ان ممالک نے میرے معاملات میں دخل اندازی بند نہ کی تو طالبان کی مزاحمتی تحریک جائز بن جائے گی۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے یہ بات اتوار کو ساٹھ سے ستّر اراکین پارلیمنٹ کے سامنے کہی اور انہی نا قابل اعتبار لوگوں میں سے دو نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’ بہادری کی یہ داستان‘‘ پوری دنیا کو بتا دی۔

اگر میں کوئی ناول نگار ہوتا تو آج کے کالم کا عنوان یہ ہوتا ’’ ٹارزن کی دھمکی‘‘ بے شمار مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگین کرنے والے اس ٹارزن کو معلوم ہونا چاہیے کہ اُس کے دیس کے طالبان اب جرأت و استقامت، آزادی و بہادری اورعزم و وفا کی وہ داستانیں رقم کر چکے ہیں جن پر تاریخ کو صدیوں فخر رہے گا اور خود جناب ٹارزن کو محترم عرفان صدیقی صاحب کے الفاظ میں ’’ تاریخ اپنے کوڑے دان میں رکھنا بھی پسند نہیں کرے گی ‘‘۔

پاکستانی با وردی کرزئی صاحب بھی آج کل نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں ۔ اللہ کرے کہ جلد ہمارے ’’ ٹارزن کی واپسی ہو تو اس کو پتہ چلے کہ آٹے دال کا بھاؤ کیا ہے اور چنے کتنے کے سیر ملتے ہیں ۔ بس ایسے ہی لوگوں کی ایسی ویسی باتیں پڑھ کر ہی زبان سے بلا اختیار نکلا’’ یہ منہ اور مسور کی دال ‘‘ پھر یہ مسئلہ صرف ان دو کا نہیں بلکہ اکثر مسلمان حکمرانوں کا ہے ۔

یہ شاہ فہد کی جوانی کی بات ہے جب وہ نئے نئے ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ بنے تو انہوں نے بھی عرب حکمرانوں کے دستور کے مطابق دو تین گرما گرم قسم کے بیانات اسرائیل کے خلاف جاری کردئیے اور مکمل طور پر فلسطینیوں کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کیا۔ ادھر مسئلہ یہ تھا کہ تبوک وغیرہ کے علاقے چونکہ اسرائیل سے قریب تر ہیں اس لیے وہاں اسرائیلی ٹیلی ویژن کی نشریات صاف دکھائی دیتی ہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن نے مسلسل شاہ فہد کی وہ فلمیں دکھانا شروع کردیں جس میں وہ یورپ کی کسی درسگاہ میں اپنے زمانہ طالب علمی کے حسین دن گزارتے ہوئے کسی خوبصورت اور بدسیرت دوشیزہ کو بغل میں لیے سوئمنگ پول میں تیراکی کرتے اور گالف کھیلتے دکھائی دیتے۔ اسرائیلی ٹی وی صبح شام یہ فلمیں دکھاتا اور ہر تھوڑی دیر بعد پردہ کے پیچھے سے اناؤنسر کی آواز سنائی دیتی کہ اسرائیلی عوام مطمئن اور بے فکر رہیں، ایسا شخص کبھی جہاد نہیں کرسکتا گویا بات وہی ہوئی کہ ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘

یہ تو شروع اور اناڑی پن کی باتیں ہوتی ہیں ورنہ مسلمان حکمران تجربہ کار اور بالغ ہوتے ہی ایسی قلابازی کھاتے ہیں کہ کچھ لوگ عش عش کرتے ہیں اور کچھ غش کھاکر گر پڑتے ہیں۔

ایک دن ملا نصیر الدین کا ایک مخلص دوست ان کے دروازے پر گیا، دروازہ کھٹکھٹایا، ملا صاحب باہر نکلے۔ پوچھا کیسے آنا ہوا؟ دوست نے عرض کیا کہ قریب ہی جانا ہے تھوڑی دیر کیلئے اپنا گدھا عنایت فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔ ملا صاحب نے فرمایا کہ گدھا تو صبح سے گھاس چرنے گیا ہوا ہے اگر ہوتا تو ضرور پیش کردیتا کہ آخر گدھا آپ سے اچھا تو نہیں۔ ابھی یہی بات چل رہی تھی کہ ’’قضیہ اتفاقیہ‘‘ کے طور پر گھر کے اندر سے ڈھینچوں ڈھینچوں کی صدائے ’’دلنواز‘‘ سنائی دینے لگی۔ دوست نے عرض کیا سرکار! گدھا تو اندر گھر میں موجود ہے۔ اب ملا صاحب کیا فرماتے ہیں کہ کیسا زمانہ آگیا ہے کہ گدھے کی زبان پر تو اعتبار ہے انسان کی بات پر اعتبار نہیں۔

ہمیں معلوم نہیں دوست نے کس کی زبان پر اعتماد کیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ممالک میں اسلام کی جو مخالفت کر رہے ہیں اور اہل وطن کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں یہ سب کچھ ہمارے قومی مفاد میں ہے حالانکہ ان ممالک کی عوام ہمیشہ اسلام ہی کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور مجاہدین نے کبھی ان کی سرزمین پر کوئی جرم نہیں کیا۔ مگر کیم پ ڈیوڈ کے شایان شان پانچ سال کی قسطوں میں وصول ہونے والے تین ارب ڈالر لاکھوں کروڑوں کے تازہ وعدے اور بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے جہاز، یہ سب کچھ تو بتا رہے ہیں کہ ہمارے حکمران کسی اور ہی کے مفاد کے نگران ہیں، وہ ہی ان کو ہدایات بھی دیتے ہیں عمل نہ ہونے پر ڈانٹ ڈپٹ بھی اور عمل پیرا ہونے پر لولی پاپ بھی۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ حکمرانوں کی بات مانیں یا ان کے گدھوں کی۔

یہ فرق بھی آپ تب تک کرسکتے ہیں کہ جب تک گدھے اور انسان کی آواز آپ الگ الگ پہچان سکیں ورنہ کبھی کبھی تو یہ اسلام کے خلاف ایسے بیک زبان بولتے ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ ایک دن صدر بش یاان کا کوئی چمچہ دینی مدارس کو دہشت گردی کے اڈے بتاتا ہے، اگلے روز بھارتی جنتا پارٹی ہندوستان میں دینی مدارس بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور تیسرے ہی دن پاکستان کے کوئی وزیر، مشیر دینی مدارس کو دقیانوسیت کا سر ٹیفکیٹ جاری کر رہے ہوتے ہیں۔ بھلا اس افراتفری میں آپ ان کی باتوں کے درمیان کیا فرق کریں گے؟ یہ اور بات ہے کہ اکثر گھبراہٹ میں اصل حقیقت زبان سے پھسل جاتی ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ اصل ڈوری کہاں سے ہلائی جارہی ہے؟

جیسے ایک بچے نے اسکول فون کر کے کہا: ہیڈ ماسٹر صاحب آج میرا بیٹا بیمار ہے وہ اسکول نہیں آسکے گا۔ ہیڈ ماسٹر نے آواز پہچان لی اور پوچھا: اور یہ ٹیلیفون پر کون بول رہا ہے؟ بچے نے گھبراکر کہا: ماسٹر صاحب! ٹیلیفون پر میرے ابو بات کر رہے ہیں۔

آپ نے گزشتہ کلمہ حق میں ایک ہندو لڑکی کی تقریر تو پڑھی تھی آپ اس زہر آلود تقریر کو ایک مرتبہ پھر پڑھیں اور پھر ماتم کریں پاکستانی میڈیا کے ذمہ داران کی عقل و دانش کا جن کے نزدیک اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ایک پاکستانی کھلاڑی اور ایک بھارتی کھلاڑی کی شادی ہے ۔ حماقت کی انتہا یہ ہے کہ چوٹی کے سیاستدان بھی یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ اس شادی سے پاک بھارت تعلقات سنور جائیں گے۔ شادی ‘ شادی ہے ۔ یہ کہیں بھی اور کسی کی بھی ہو سکتی ہے لیکن اسے یوں اہم ترین ایشو بنا کر اپنی بہترین صلاحیتیں صَرف کر دینا نہ صرف اپنی قوم کے ساتھ مجرمانہ خیانت ہے بلکہ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی اور ذلت و رسوائی کا باعث بھی ہے ۔ بھلا یہ خود فراموش اور خدا فراموش مغرب زدہ کھلاڑی ہماری قوم کو کیا دے رہے ہیں اور کیا دے سکتے ہیں ؟ سوائے اس کے کہ ان کے کالے کرتوت ہماری شرمندگیوں کی فہرست میں مزید اضافہ کر رہے ہیں ۔ جب لوگ ان کو امن کا سفیر کہتے ہیں تو پھر ہماری زبان سے یہ ہی جملہ نکل جاتا ہے . ’’ یہ منہ اور مسور کی دال‘‘

مولانا منصور احمد
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197356 views A Simple Person, Nothing Special.. View More