یہ لوگ پاکستان کو اپنا ایمان کہتے ہیں

امریکہ میں صرف 9/11 ہوا اور پھر سکون اور امن ہوگیا لیکن پاکستان جس کا اس واقعے میں نہ کوئی ہاتھ تھا نہ دوش اس کے بعد سے مسلسل حالت جنگ میں ہے۔دھماکے،دہشت گردی، شدت پسندی اور ان سب سے منسلک بے شمار مسائل، آفرین ہے اس ملک کے عوام پر جو یہ سب برداشت کر رہے ہیں اور پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے قبائلی علاقے ایسے لوگوں کی آماجگاہ بن گئے جو مختلف دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ورنہ یہ قبائلی لوگ تو ہمیشہ سے پاکستان کے بغیرتنخواہ کے سپاہی اور محافظ تھے لیکن اپنے خلوص ہی کی وجہ سے شایدان دشمنوں کو نہ پہچان سکے اور انہیں اپنے علاقوں میں جگہ دیتے رہے اور دشمن اپنی سازشوں کا جال پھیلاتا رہا۔ پاک فوج مسلسل ان کے خلاف برسرپیکار رہی آپریشن راہ نجات،المیزان،راہ راست اور ان کے خلاف مسلسل دیگر کاروائیاں کرتی رہی اور جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو اس عہدکے ساتھ ہوا کہ اسے آخری دشمن کا صفایا کرنے تک جاری رکھا جائے گا۔ پھر آرمی پبلک سکول پر ان وحشی دشمنوں کے حملے نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور فوج کے عزم کو مزید تقویت دی۔ ان دشمنوں کے خلاف مزید سختی سے کاروائیاں شروع کی گئی اور اس مشکل وقت میں بھی ان قبائلیوں نے پھر اپنا مثبت کردار ادا کیا اور اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں ہجرت کی، اپنے ہی ملک میں ہجرت اُس ہجرت سے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے جو غیروں کے تسلط اور ظلم سے بچنے کے لیے دوسرے ملک میں کی جاتی ہے لیکن ان لوگوں نے یہ قربانی اس لیے دی کہ جب سول آبادی ان علاقوں میں نہ ہوگی تو فوج کے لیے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی بہت آسان ہوگی۔ یہ وہ لوگ اور وہ علاقے ہیں جس کا جینا طالبان نے حرام کیے رکھا ،یہاں سکولوں کو انتہائی بے دردی سے اڑادیا گیا اور خاص کر لڑکیوں کو تعلیم کا حقدار ہی نہیں سمجھاگیا، صحت مراکز اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایاگیا سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں حتیٰ کہ ان لوگوں کے گھر تباہ و برباد ہوگئے دکانیں، کاروبار، سرکاری دفاتر سب کچھ ختم ہوکر رہ گئے ،پھر فوجی کاروائیوں میں بھی ان املاک کو مزید نقصان پہنچا اور ان علاقوں کا منظر وہی ہوگیا جو جنگ زدہ علاقوں کا ہوتا ہے یہ تو وہ رخ ہے جو انفراسٹراکچرسے متعلق ہے۔ انسانی طور پر بھی ظاہرہے کہ ان لوگوں پر جو اثر پڑا اس کا احاطہ کرنا بھی آسان نہیں ہے چاہے کچا مکان ہو لیکن اپنا ہو تو اس میں تحفظ اور ملکیت کا جو احساس ہوتا ہے وہ پرائے محل میں بھی نہیں ہوتا اور یہ لوگ اپنے گھروں سے نکلے تو کہیں کیمپوں میں لگے خیموں میں آ بسے اور کہیں کرائے کے مکانات لے کر رہنے لگے کتنے عرصے کے لیے یہ انہیں بھی نہیں معلوم تھا جنگ کب ختم ہوگی حالات پر کب قابو پایا جا سکے گا اس کا بھی اندازہ نہیں بچے سکولوں سے اٹھ کر کیمپوں میں آبیٹھے پورے گھرکی جگہ صرف چند انتہائی ضروری،ضروریات زندگی کے ساتھ چند فٹ کے خیمے نے لے لی اس سے بچوں بلکہ بڑوں کے ذہنوں پر کیا اثر پڑا یہ تو کوئی ماہر نفسیات ہی بہتر بتا سکتا ہے۔

یہ سب کچھ تو ہوا کیونکہ حالات کو شروع سے جانچنے اور قابو کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور خرابیء بسیار کے بعد جب حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نفسیاتی،معاشرتی،معاشی اور طبیعاتی ہر قسم کے نقصانات کافی بڑھ چکے ہوتے ہیں ایسے میں پھر جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔ ضرب عضب واقعتادشمنوں کے لیے ایک کاری ضرب ثابت ہوئی ہے اور اللہ تعا لیٰ کے فضل وکرم سے حالات معمول کی طرف بڑھنا شروع ہوچکے ہیں لیکن اب بڑا مرحلہ ان علاقوں اور یہاں کے عوام کی بحالی کا ہے۔ ان پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کے طریقہء بودوباش میں فرق بہت سست رفتاری سے آتا ہے اور کچھ یہ بھی ہوتا ہے کہ حکومتیں بھی آسان میدانی علاقوں میں تو ترقیاتی کام کر لیتی ہے لیکن مشکل اہداف اور مشکل علاقوں کی طرف نہیں جاتی جو انتہائی قابل افسوس رویہ ہے اور یوں ہمارے یہ علاقے کہیں صدیوں اور کہیں دہائیوں کے حساب سے پیچھے رہ جاتے ہیں اب جبکہ ان علاقوں کی بحالی کا کام شروع کیا جارہا ہے تو ان تمام امور کو مد نظربھی رکھنا ہو گااور انہیں ترجیح بھی دینا ہوگی۔ تعلیم پر کام کرنا ہوگا کہ شعور آئے اور روزگارکے مواقع پیدا کرنا ہونگے تاکہ پھر نوجوان غلط ہاتھوں میں نہ پڑجائیں، اب موقع ہے کہ ان علاقوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے یہاں ہسپتال بنوائے جائیں تاکہ مریض پشاور پہنچتے پہنچتے راستے میں مر نہ جایا کریں انہیں چھت مہیا کرنی ہوگی ،صنعت لگانا ہوگی یہاں کی جو روایتی صنعتیں ہیں انہیں سائنسی بنیادوں پروان چڑھاناہوگا اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے پورے معاشرے کو اپنا فرض نبھانا ہوگا اور یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان لوگوں نے ملک کے لیے کیا قربانی دی ہے چند دہشت گردوں کے جرم کی سزا ان سب نے کاٹی ہے لہٰذااب ان سب کو بھرپور زندگی جینے کا حق ملنا چاہیے۔ فوج اگر ان کاموں کی نگرانی کا بیڑا اٹھارہی ہے تو دوسروں کو آگے بڑھ کر اس کی مدد کرنی ہوگی لیکن اس کے لیے مخلص لوگوں کو تلاش کرنا ہوگا۔ این جی اوزخاص کر غیر ملکی اداروں پر نظر رکھنی ہوگی کہ کہیں پھر یہ فلاحی ادارے فلاح کے پردے میں شر نہ پھیلادیں جیسا کہ ماضی میں کئی بار ہوچکا ہے۔ یہ علاقے ہمیشہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہے ہیں جس کا خمیازہ ہم نے کئی دہائیوں تک ادا کیا ہے لیکن اب شاید قوم میں مزید مشکل حالات سہنے کی ہمت نہیں ہے لہٰذا ان ان لوگوں کو ملک کے دوسرے لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہوگا انہیں ہر ادارے میں حصہ دار بنانا ہوگا ان کی نفسیاتی تربیت کرنا ہوگی ان کو یہ احساس دلانا ہوگاکہ پورا پاکستان ان کا مشکور ہے کہ ان کی قربانیوں کی وجہ سے ملک دہشت گردی کی عفریت سے نکلنے میں کامیاب ہورہا ہے۔ حکومت کو یہاں سڑکوں، سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں کا جال بچھانا ہوگا کارخانے لگانا ہونگے تاکہ پہاڑوں میں رہنے والے بھوکے نہ رہیں اور دہشت گردوں سے تنخواہیں نہ وصول کریں۔ قلیل المدت منصوبے بھی بنانا ہوں گے لیکن طویل المدت منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی بلکہ اس پر زیادہ توجہ دینا ہوگی اور یہ یاد رہے کہ اس سارے عمل میں مقامی آبادی کو ہر ہر قدم پر شامل اور مدنظر رکھنا ہوگا ۔ ہر شعبہء زندگی میں انہیں قومی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔ یہ قبائلی انتہائی محب وطن لوگ ہیں وزیرستان سے ایک فوجی دوست نے کہایہ لوگ پاکستان کواب بھی اپنا ایمان کہتے ہیں لہٰذا یہ سوچ لینا ہوگا کہ یہ آخری موقع ہے اور ہم نے اس کا پورا فائدہ اٹھانا ہے اور قبائلیوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ اگر پاکستان تمہارا ایمان ہے توتم لوگ پاکستان کی شان ہو۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 514736 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.