اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اور یمن میں سعودی فوجی کارروائی

 اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نے یمن میں سعودی فوجی کارروائی کو قانونی جواز فراہم کردیا۔
شام، عراق اور لیبیا کی طرح یمن میں طویل خانہ جنگی کے سائے بڑھ رہے ہیں

امریکہ اور سعودی عرب سمیت دس ممالک اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے حوثی باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی کی قرارداد منظور کرانے میں تو کامیاب ہوگئے، لیکن اس سے نہ تو حوثی باغیوں پر کوئی فرق پڑا ہے، اور نہ ہی ایران نے اس مسئلے پر پیچھے ہٹنے کا اظہار کیا ہے۔ حوثی باغیوں نے تو سیکورٹی کونسل کی اس قرارداد کو ’جارحیت کی مدد‘ قرار دیتے ہوئے قرارداد کی مذمت کی ہے اور یمن کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جمعرات کو اقوام متحدہ کی اس قرار داد کے خلاف مظاہرے کریں۔ایران نے سلامتی کونسل کی قراداد منظور ہونے کے بعد ایک چار نکاتی امن معاہدہ تیار کیا ہے جو اقوام متحدہ میں پیش کیا جارہا ہے۔ایران کی جانب سے پیش کردہ چار نکاتی امن منصوبے میں سعودی عرب کی طرف سے یمن پر بمباری کو بند کرنے کا نکتہ بھی شامل ہے جو ممکنہ طور پر سعودی عرب کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔ ایرانی منصوبے میں تجویز دی گئی ہے کہ یمن میں سب سے پہلے جنگ بند کروائی جائے۔ لڑائی بند ہونے کے بعد فریقین مذاکرات کریں اور متفقہ طور پر ایک حکومت قائم کی جائے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن مسئلہ پر دوسری بار قرارداد منظور کی ہے، جس میں حوثی باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی کے ساتھ ساتھ حوثی باغیوں سے مطالبہ کیاہے کہ وہ فوری طور پر لڑائی بند کر دیں اور صنعا سمیت دیگر زیرِ قبضہ علاقوں سے نکل جائیں۔ سلامتی کونسل نے یمن رپبلکن گارڈ کے سابق سربراہ احمد صالح اور حوثی قبائل کے رہنما بدالمالک حوثی پر بیرون ملک سفر کی پابندی لگاتے ہوئے ان کے بین الاقوامی اثاثوں کوبھی منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے پہلے صالح کے والد اور سابق صدر علی عبداﷲ صالح اور حوثی قبائل کے دو دیگر رہنماؤں عبدالخاق الحوثی اور یحیی الحکیم کو بھی سلامتی کونسل نے گذشتہ برس نومبر میں ’بلیک لسٹ‘ کر دیا تھا۔ایران، حوثی باغی، اوریمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراﷲ نے خلیج فارس تعاون کونسل کی مجوزہ قرارداد کی حمایت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوعلیحدہ علیحدہ ہدف تنقید بنایا ہے۔ انصار اﷲ نے اس قرارداد کو ظالمانہ قرار دیا ہے۔اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں ایک پریس کانفرنس میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے یمن میں امن کے لیے منصوبہ اقوام متحدہ میں جمع کروا دیا ہے اور امید ہے کہ تمام فریق اس پر آمادہ ہوجائیں گے۔ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یمن میں امن مذاکرات کسی تیسرے ملک کی ثالثی میں کروائے جائیں۔سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد جو چودہ ارکان کی حمایت سے منظور ہوئی ہے، اس میں روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔روس کے نمائندے ویتیلے چورکن کا کہنا ہے کہ قرار داد کو پیش کرنے والوں نے روس کی اس تجویز کو قرار داد میں شامل کرنے سے انکار کر دیا جس میں تنازعے میں ملوث تمام فریقوں پر جنگ بندی کرنے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ روس نے اس سے قبل بھی اپنیقرارداد میں مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یمن میں اپنی کارروائیاں عارضی طور پر بند کر دے اور کسی ایک نہیں بلکہ جنگ میں شامل دونوں فریقوں پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ یمن کے سابق صدر عبداﷲ صالح اور حوثی باغیوں کے متعدد رہنماؤں پر گذشتہ سال نومبر میں بھی اسی قسم کی پابندیاں لگائی گئیں تھیں، جو بے نتیجہ رہی۔ حالیہ قرارداد یمن میں سعودی عرب اور اس کے حامی خلیجی ممالک کی بمباری کے بعد پہلی قرارداد ہے۔گذشتہ دنوں روس کی درخواست پریمن مسلئے پر اقوامِ متحدہ کا اجلاس بھی بلوایا گیا تھا تاہم وہ بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا۔ سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد سے سعودی عرب، اور اس کے دس اتحادی ممالک جو اس جنگ میں شامل ہیں۔انھیں اس مداخلت کا قانونی جواز مل گیا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حوثی باغیوں نے ملک کے بہت سے حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ عدن میں باغیوں اور حکومت کے حامیوں کے درمیان دست بدست لڑائی جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق اب تک اس جنگ میں 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن کی اکثریت عام شہری ہیں۔ بمباری سے عام شہریوں کی ہلاکتیں زیادہ ہیں، ادویات اور خوراک کی کمی کی بھی اطلاعات ہیں۔ اقوام متحد ہ کے ادارہ برائے اطفال 'یونیسف' کا کہنا ہے کہ یمن کے بحران کی وجہ سے تقریباً 100,000 افراد بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ بچوں کو ہلاکتوں، معذوری اور بیماریوں سے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ بچوں کی صحت، تعلیم کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یونیسف نے بین الاقومی انسانی ہمدردی کے قوانین کے تحت بچوں اور ان کے خاندانوں کے تحفظ کی طرف خصوصی توجہ کا مطالبہ کیا ہے۔ ریڈ کراس کی ضروری امداد کی ترسیل کوبھی تاخیر کا سامنا ہے۔ شام، عراق اور لیبیا کی طرح یمن طویل خانہ جنگی کے سائے بڑھ رہے ہیں۔آئیندہ دنوں میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کی قرارداد کے بر خلاف سعودی حکومت،فوجی مدد کے لئے پاکستان پر اپنا مزید دباؤ بڑھائے۔ ایران کے ساتھ بات چیت میں پاکستان اور ترکی کی حکومتیں سفارتی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے لیکن سعودی عرب کے بغیر مذکرات کی یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387382 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More