گنجا یورپ

ہم شکر گزار ہیں یورپ والوں اور یورپ والیوں کے اس وجہ سے کہ دونوں نے انسانیت کی خدمت میں گراں قدر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ان کے انسانیت کی خدمت کے کارنامے سن سن اور پڑھ پڑھ کے ہمارا سر ان کے آگے سراپا نیاز بنا جا رہا ہے۔ہم دلی طور پر یورپ کا بہت احترام کرتے ہیں اگرچہ ہم نے اپنے اندر وہاں جانے کی کبھی تڑپ محسوس نہیں کی۔اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ ہمیں ابھی تک وہاں جانے کی کسی نے پروپر پیش کش ہی نہیں کی اور نہ ہی ہم بذاتِ خود اس قابل ہو سکے کہ وہاں جا سکیں۔ لیکن خواہش کا ان سب ممکنات سے ویسے تعلق بھی تو کوئی نہیں۔ خواہش ،خواہش ہے جب مرضی جنم لے سکتی ہے اس نے ہمارے حلات و واقعات سے اپنا وجود تھوڑاحاصل کرنا ہے۔لیکن دلی بات بھی یہی ہے کہ ہم وہاں یا کہیں بھی جانا نہیں چاہتے۔کیونکہ ملاں کی دوڑ مسجد تک۔

یورپ کی صدیوں پر محیط تاریخ پر نظر دوڑانے سے کچھ محسوس ہوتا ہے کہ یورپ بھی پیدائشی یورپ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بیٹوں اور بیٹییوں نے اسے یورپ بنایا ہے۔ یا یوں بھی طنزاً کہا جا سکتا ہے کہ یورپ کو یورپ بناتے بناتے یورپ کے بیٹے گنجے ہو گئے ہیں۔

لیکن ان کی ہمت کی داد تو دینی ہی پڑے گی کہ کیسے انہوں نے زمیں کو جنت نظیر بنا دیا ہے۔ یہ بات صرف ظاہری تبدیلی کی نہیں یورپ کی معاشرتی اور ذہنی زندگی بھی تو انگنت تبدیلیوں کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ایجادوں کے انبار لگا کر انہوں نے انسانیت کو ان میں اضافہ کرنے کی سرِ عام دعوت بھی دے چھوڑی ہے۔انہوں نے تو دیئے کلا کر سرِ عام سرِ بام رکھ دیئے ہیں اب دنیا آئے اور ان مفید ایجادوں میں اپنے حصے کا رول پلے کرے۔

مدر سری کا زمانہ اپنا آغاز یورپ سے کر چکا ہے۔پدر سری اب پرانے زمانے کی بات بن چکی ہے۔ مشرق میں بھی اس کے اثرات پڑ چکے ہیں۔ کبھی ’ ابا‘ ہوا کرتا تھا جو کہ انا کا دوسرا روپ ہوتا، تمام گھر اس سے سہما رہتا،بچے اس کے ’دبکے‘ سے دب کے ررہتے، بیوی اس کے مکوں اور ہاتھا پائی سے گھبرائی رہتی۔ آس پاس کا ماحول بھی اسی کی فیور میں جایا کرتا۔ کچھ سال پیشتر وہ ’ابا‘ سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی تعلیمات کی زد میں آ کر اپنی شناخت گنوا بیٹھا اور ’ابو‘ کے نئے روپ میں سامنے آیا۔ اس ’ ابو‘سے گھر کا کوئی فرد نہیں ڈرتا، بیوی اس کے پریشر سے بالکل آزاد ہے۔ اس کا کام گھر کی ضرورتیں پوری کرنا اور وقت پر گھر آنا ہے۔ اس کی ٹانگوں میں اتنا زور نہیں کہ کسی کے سامنے ٹھہر سکے خاص طور پر اپنے مدِ مقابل کے آگے۔یہ مہذب، پڑھا لکھا ابو، اس ابے کی پیروڈی محسوس ہوتا ہے۔ جو جب مرضی گھر سے جاتا اور گھر آتا تھا۔ جیسے مرضی موڈ اختیار کر سکتا تھا، وہ ہر کسی کو پوچھ سکتا تھا جب کہ اس سے کوئی کچھ بھی نہیں پوچھ سکتا تھا: کوئی کون ہوتا تھا اس سے پوچھنے والا۔لیکن آج کا ابو کسی سے کچھ پوچھ نہیں سکتا لیکن اس سے کوئی بھی کچھ بھی پوچھ سکتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ابو اب ’ پاپا‘ کا روپ دھارنے لگا ہے جو کہ براہِ راست مغرب سے در آمد کیا گیا لفظ ہے۔ لفظ اپنے ساتھ کلچر بھی لاتا ہے۔ تو پاپا کے ساتھ مغرب سے جو کلچر درآمد ہوا ہے اس کے اثرات بھی مغرب والے ہیں اور یہاں بھی مردوں میں گنجا پن فروغ پانے لگا ہے۔یہاں بھی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔

یورپ کے گنجے پن کے پیچھے جو وجہ آسانی سے سمجھ آتی ہے وہ وہاں کے لوگوں کی ریسرچ ہے۔ انہوں نے ہر شعبہ میں اتنا سر کھپایا ہے کہ ان کے سروں کے اوپر سے اس روشنی کی چمک نکل رہی ہے۔ ویسے بھی یورپیئن لوگوں کے بال کالے نہیں ہوتے لیکن علم کی روشنی کے آگے تو بالکل غائب ہی ہوگئے ہیں۔انہوں نے اتنا کام کیا ہے کہ ان کے سروں کا یہ حال ان کے کام کا منہ بولتا ثبوت بن گیا ہے۔

گنجا ہونا امیر ہونے کا علامت بھی گردانا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ یورپ باقی دنیا خاص طور پر ایشیا اور افریقہ سے تو بہت امیر ہے۔ یہ بات کہنے کہ ضرورت تو نہیں کہ ایشیا اور افریقہ کی غربت میں یورپ کا بھی ایک لمبا ہاتھ ہے۔ دونوں برِ اعظموں کا مال استحصال اور سامراج کے ذریعے یورپ نے خوب ہتھیایا ہے۔دنیا بھر کی دولت پچھلی صدیوں میں یورپ کی تعمیر میں صرف ہوئی ہے۔ اس دولت کی موجودگی میں یورپ کا گنجا ہو جانا کتنی بڑی حقیقت کا اظہار ہے۔

کتنی مزے کی بات ہے کہ ’گنج‘ کا ایک معنی خزانہ بھی ہوتا ہے۔اس حوالے سے بھی یورپ کا گنجا ہونا بالکل سمجھ میں آتا ہے۔ یورپ اس وقت دنیا کے خزانوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر کے مال و دولت، علم و ہنر ، سیاست و سیادت کے خزانے یورپ میں جمع ہو چکے ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں یورپ گنج ہائے گراں مایہ بن چکا ہے ،یا سیدھے سادھے الفاظ میں کہ یورپ گنجا ہو چکا ہے۔

گنجا ہونے کی ایک وجہ فکر اور پریشانی بھی ہوتی ہے۔ اس وقت کا یورپ بھی گوناں گوں پریشانیوں کا مرجع بنا ہوا ہے۔کون سی پریشانی ہے جو یورپ میں نہیں۔ دنیا بھر کے تما پریشان حال لوگ یورپ میں پناہ گزیں ہو جاتے ہیں جس سے یورپ پریشانیوں کا گڑھ بن جاتا ہے اور نتیجے کے طور پر گنجے پن کی ہوا چلنے لگتی ہے۔یورپ میں شخصی آزادی نے جہاں انسانوں کی صدیوں سے ترستی خواہشات کو جامِ وصل پلایا وہاں انسان کی صدیوں سے آبادجھونپڑیوں کو ویران بھی کر دیا۔ خاندانی نظام کے دیوالیہ ہونے سے جہاں کچھ تفکرات میں کمی واقع ہوئی، وہاں بے شمار نئے مسائل نے معاشرے کو اپے چنگل میں بھی دبوچ لیا جس سے انسان آج کی تاریخ تک تو آزاد نہیں ہو سکا اور شاید اپنی مدد آپ کے تحت کبھی بھی نہ ہو سکے، جب تک کہ کسی الہامی یا نام نہاد الہامی نظام کا سہارا نہ لے۔ بہت سی باتیں انسان کو فوق الفطرت تصورات منوا لیتے ہیں اور کچھ کو اخلاقی قوانین روک لیتے ہیں، اور کچھ کو ملکی قانون مسلط کر دیتا ہے۔ لیکن جب صرف انسان کا اپنا بنایاہوا نظام ہی اختیار کیا جائے تو انسان بہت سی باتوں کو ختم نہیں کر سکتا۔ یورپ کی فکروں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ خدائی نظام کی بجائے انسانی سسٹم کا اولیت دی گئی اور انسان نے من مانی کو قانون کا درجہ دے دیا تو انسان اپنی ہی تیار کردہ دلدل کا شکار ہو گیا۔جس کا زیادہ برا اظہار یورپ میں ہوا۔مشرق میں بھی من مانی کی ہوائیں چلیں لیکن مشرق نے معاشرتی اخلاق کو ابھی تک نہیں چھوڑا۔ مذہب کو لوگ اتنا قریب سے نہیں مانتے لیکن معاشرت کو مجبوراً بھی اختیار کرتے ہیں۔ ملکی قانون بھی ابھی اتنا خود سر نہیں ہوا کہ الہامی کو چیلنج کر سکے ۔ لہذا مشرق مشرق میں فکریں ابھی اتنی شدید نہیں ہوئیں کہ وہ گنجے پن کی شکل ہیں سرِ عام برہنگی پھیلاتی پھریں۔
فکریں جب شدید ہو جائیں تو وہ نفسیاتی مسائل کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یورپ میں اس وقت نفسیاتی مسائل کے انبار لگ گئے ہیں۔اکثرو بیشتر لوگ ان مسائل میں بری طرح گھر چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر بھی ان کے متعق سوچ سوچ کے پریشان ہو نا شروع ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس الماری میں کوئی چیز رکھی ہی نہیں گئی،تو وہ اس الماری سے کب ملے گی۔ کبھی بھی نہیں۔

ذہنی سکون اگر کسی فوق الفطرت طاقت کے ساتھ جس کا تعارف مذہب کرواتا ہے کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے تو وہ مادیت کی الماری میں تلاش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ یورپیئن دانشور اس بات کو نظر انداز کر بیٹھے۔ مذاہب پر شدید تنقید اور پھر سائنس پر مکمل پھروسہ ، انسان کو آدھا کاٹ دینے کے مترادف تھا۔ انسان کو مذاہب ہمیشہ وہ امید فراہم کرتے ہیں جو چاہے پوری نہ ہو لیکن انسان کا مورال اتنا نہیں گرتا کہ انسان نفسیاتی مسائل کا شکا ر ہو جائے۔گرے ہوئے مورال کو اٹھانے کے لئے کوئی تو اخلاقیات چاہیئے ناں۔ورنہ انسان زندگی سے پریشان اور آخرت سے مایوس ہو کر خود کشی نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔

اس پریشانی کی کھلم کھلا اظہار اگر انسان کی کوئی کیفیت کر سکتی ہے تو شاید وہ گنجا پن ہی ہو سکتی ہے۔
یہ بات بھی انسانی روایات میں آتی ہے اگر کوئی چوری چکاری کرتا پکڑا جائے تو اس کی ’ ٹنڈ‘ کر کے اس کے منہ پر کالا رنگ لگا کر اسے گلی گلی پھراتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھیں تو ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے ویسے دل لگی کے طور پر بات ہو سکتی ہے کہ یورپ کو فطرت نے اپنی مکاریوں اور دغا بازیوں کے نتیجے میں گنجا کیا ہے۔ اس بات کو ہم کسی طرح سے بھی پایہء ثبوت تک تو نہیں پہنچا سکتے کہ واقعی ایسا ہی ہوا ہے۔ کیوں کہ ہم فطرت کے کیا لگتے ہیں کہ ون اندر کی بات ہمیں ہی بتائے گی۔ لیکن اندازا لگانے سے ہمیں کوئی روک بھی نہیں سکتا ۔ ہمارا اندازا ایک حد تک ٹھیک بھی تو ہو سکتا ہے کہ فطرت اپنا انتقام ضرور لیتی ہے اور اگر یہ درست ہے تو ہمارا کہنا کیوں کر غلط ہو گا کیونکہ فطرت کے پھیلائے ہوئے خزانے یورپ نے استحصالی حربوں سے یوں سمیٹے جیسے فطرت نے ان کو ایشیا اور افریقہ میں پھیلا کر کوئی غلطی کی ہو۔ فطرت کا اس طرح مذاق اڑانے والوں سے فطرت بدلہ کیوں نہ لے گی۔اس لحاظ سے تو یورپ کو اور بھی گنجا ہونا چاہئے۔
یورپ میں مردوں کے گنجا ہونے کے پیچھے ایک وجہ عورتوں کی جوتی کا اونچا ہونا بھی ہے۔ عورتیں اب مردوں کی جاگیر نہیں رہیں اور اپنی صدیوں پرنی جاگیر کے چھن جانے کا انسان کو کتنا صدمہ ہوتا ہے اور اس صدمہ کا انسان کی صحت پر کتنا برا اثر ہوتا ہے۔اس اس برے اثر سے گنجا پن ہونے کے امکانات کتنے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا اندازا موجودہ یورپ کے گنجے پن کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔عورت کو مذہب اور معاشرت نے مردوں کے ماتحت رکھا تھا۔ اس سے انسان کے سکون میں لا متناہی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کا اندازا آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر کوئی افسر بوڑھا ہو اور اس کے ماتحت کوئی نوجوان عورت یا لڑکی آجائے تو اس کی نفسیات میں کس قدر صحت مند تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس کے اندر زندہ رہنے کی نئی امنگ جنم لے لیتی ہے وہ اپنی طبعی زندگی میں بظاہر دس مذید سالوں کا اضافہ کر سکتا ہے۔اگر یورپ کے دانشور عورتوں کی اس قدر پشت پناہی نہ فرماتے تو آج مردانِ یورپ کو سرفراز ہونے کے لئے اپنے گنجے پن کو چھپانے کی ضرورت نہ پڑتی۔

بال فطرت کا عطیہ ہیں اور جب ہم فطرت سے منہ ہوڑ لیں گے تو فطرت اپنے عطیات اور صدقات واپس لے لے گی۔کچھ ایسا ہی یورپ کی زندگی کے ساتھ بھی ہوا۔ مادیت نے فطرت سے رشتہ توڑ کر پرے پھینک دیا۔ فطرت کو یہ بات اچھی نہ لگی اس نے مردوں کو بالوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا ۔ نتیجا یہ ہوا کہ مرد بچارے بالوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورتوں پر فطرت اتنی سخت گیر کیوں نہ ہوئی۔ اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ معاشرے کے اربابِ اختیار مرد ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ غلطی مردوں سے سر زد ہوئی اس لئے سزا بھی انہی کے حصے میں آئے گی۔مردوں نے خود ہی عورت کو اپنے ہاتھوں سے آزاد کیا ہے جس طرح ملٹنMilton کی پیراڈائز لوسٹ بک نائن کے مطابق آدم حوا کو علیحدہ طور پر کام کرنے کی اجازت دے کر پھر پچھتانے لگتا ہے کہ کاش وہ ایسا نہ کرتا۔ ایسا ہی یورپی مردوں سے ہو گیا ۔ اب وہ جتنا بھی پچھتا لیں وہ وقت واپس آنے سے رہا جب مردوں کو عورتوں پر رعایا اور حاکم جیسی برتری حاصل ہوا کرتی تھی۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ یورپ کے ایک باپ بیٹا یورپ سے پاکستان پہنچے تو ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی باپ نے بیٹے کو خوب پیٹنا شروع کر دیا ۔ بیٹے کو بالکل سمجھ نہ آئی کہ اس کے باپ کو کیا ہوا ہے۔ اس نے باپ کو مشکل سے روکتے ہوئے پوچھا کہ پاپا ہوا کیا ہے۔ باپ نے اپنے جذبات پر تھوڑا سا قابو پا کر کہا کہ بلاؤ ان پولیس والے اپنے ماموں کو جن کی تم مجھے یورپ میں بات بات پے دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ میں تمھیں بتاؤں گا کہ باپ کیا ہوتا ہے۔ یورپ میں کسی کو کیا پتہ کہ باپ کیا ہوتا ہے۔ یہ بات ہو سکتا ہے کوئی حقیقی واقعہ نہ ہو لیکن اس کے اندر ایک حقیقت ضرورہے۔ اور وہ یہ کہ یورپ نے قانون سازی کے شوق میں ہر اخلاقی روایت کو مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔ لہذا اس کی سزا بھی تو انہی کے حصے میں آئے گی۔ مانا کہ مشرق اتنا قابلِ تعریف نہیں ہے ، لیکن وہ ماں باپ ، استاد اور بڑے جو انسان کو زندگی کا ہنر سکھاتے ہیں اتنی بھی وقعت نہیں رکھتے کہ اسے کچھ کہہ بھی سکیں۔ جدید دور کے تمام اصول وضوابط اس طرح استوار کئے گئے ہیں جیسے پہلے کے تمام دانشور اور بڑے یا تو پرلے درجے کے احمق تھے یا پرلے درجے کے ظالم تھے۔ آخر انہوں نے بھی زندگیاں اپنے چھوٹوں کے لئے وقف کی تھیں۔ انہوں نے بھی انسانی زندگی کو جدید زمانے تک پروان چڑھایا تھا۔ اگر وہ اتنے ہی احمق تھے تو موجودہ نسل تک انسانیت آ ہی کیسے گئی وہ تو پہلے ہی دم گھٹنے سے مر چکی ہوتی۔لیکن ایسا نہیں ہوا یورپ میں اب مقامی آبادیاں شدید تنزل کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اب کچھ غیر فطرتی اور غیر اخلاقی ہو رہا ہے پہلے کم تھا یا نہیں تھا۔

یورپ کے اس گنجے پن کے پیچھے اگر ایک اور وجہ تلاش کی جائے تو وہ عورتوں کے لباس کو کم سے کم کرنا بھی ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ عورت تخلیق کا مرکز ہے۔ مرد کی تخلیقی قوت عورت کے وجود سے انگیخت ہوتی ہے۔ اگر اس تخلیقی مرکز کو چھپا کے رکھا جائے تو تخلیقی قوت کار گر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس تخلیقی مرکز کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو تخلیقی قوت ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر چیز اپنے اعتدال میں رہ کر ہی اچھا کام کرتی ہے اور اگر اس کو اعتدال سے بہت کم یا بہت زیادہ استعمال میں لایا جائے تو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر اخلاق اور مذاہب اس تخلیقی محرک کو چھپاتے ہیں تو تخلیق کے نادر نمونے سامنے آتے ہیں ۔پردہ داری کا ادب بے پردگی کے ادب سے کئی گنا زیادہ اعلیٰ ہوتا ہے۔ یہ بات کسی جانب داری کی نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔ دنیا کا ہر خطہ اس کی تائید میں مثالیں پیش کر سکتا ہے۔خاص طور پر یورپ خود بھی۔تو جب تخلیقی قوت ضیاع کا شکار ہوئی تو اس کے نتیجے میں چٹیل میدان ہی نظر آنے تھے جن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

ہماری یہ باتیں ہمارے ناقص خیالات ہیں۔ان سے کسی کی دلآزاری مقصود نہیں۔ کسی کا ان سے متفق ہونا ضروری اور نا ہی ان سے متصادم ہونا ضروری ہے۔خیال تو بس خیال ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم خود بھی گنجے ہونے سے بہت خائف ہیں۔ لیکن یہ اتفاق ہو گیا کہ یورپ کے جو بھی لوگ سکرین پر نظر آئے ان کی اکثریت گنجے پن کی سر پرست دکھائی دی تو ہماری ظرافت نے موقع غنیمت جانا اور یورپ کی طرف رخ کر کے ایک تیر داغ دیا چاہے مستقبل قریب میں وہ ہمارے سر ہی آلگے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 288565 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More