خدمت انسانیت اور تھر کے انسان

دکھی انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے قرآن میں اﷲ کی عبادت،رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت اور خدمت خلق کرکے رضائے الہٰی حاصل کرنے کا درس دیا گیا ہے یہی تین امور کو مفسرین نے خلاصہ قرآن قرار دیا ہے اﷲ تعالیٰ اپنے حقوق معاف کرسکتے ہیں مگر حقوق العباد بندے معاف کریں گے تومعاف ہوں گے سوال یہ ہے کہ تھرکے باسیوں کے حقوق ہم پر نہیں ہیں جنھیں ہم نے من حیث القوم ادا کرنا ہے ؟ ۔تھر میں موت رقص کر رہی ہے حکمران اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں ان کے کتے دیسی گھی،مربعے کھا رہے ہیں جبکہ تھر کے میں بچے،مرد وخواتین بھوک پیاس سے لقمۂ اجل بن رہے ہیں مگر ارباب اقتدار طبقہ انکے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی سیاست میں مصروف ہیں اور ایسے واقعات پر بھی سیاست سے باز نہیں آرہے سب اچھا کی رپورٹس زبانی کلامی اخبارات کی حد تک دی جارہی ہیں افسوس ناک مقام ہے ہمارے حکمران خود کو اسلامی ریاست کا حکمران تصور کرتے ہیں جبکہ ہر عمل اسلام کے خلاف کیا جارہا ہے خلیفہ دوئم سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک بار فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا اسی طرح ایک بار قحط پڑ گیا تو حضرت عمر ؓ نے گندم کی روٹی کھانا بند کردی کچھ دنوں کے بعد کسی نے سیدنا عمرؓ سے کہا کہ گندم شہروں تک پہنچ گئی ہے دیہاتوں تک کچھ دن تک پہنچ جائے گی آپ ؓ گندم کی روٹی کھانا شروع کردیں تو اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ جبتک میری ساری رعایا تک گندم نہیں پہنچے گی عمرؓ گندم کی روٹی نہیں کھائے گاتاریخ دان لکھتا ہے کہ اسی فکر میں خلیفہ دوئمؓ کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا ایک مسلم ریاست کے حکمران کی یہ شان ہوتی ہے کہ خود بھوکا رہ کر رعایا کا خیال رکھتا ہے جب سے اسلام کانظام عدل وقسط خلافت ہم سے رخصت ہوا ہم ذلیل وخوار ہوگئے ہمارے حکمران خود غرض مفاد پرست اس قدر ہوگئے کہ ذاتی مفادات سے آگے بات نہیں کرتے۔ ذاتی مفادات کے پیش نظر ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی عظیم المرتبت اپنی بیٹی دشمنوں کو فروخت کردی موجودہ حکمرانوں نے بھی اس مظلوم ،دختر مشرق کیلئے کچھ نہیں کیا شائد یہ ارباب اقتدار اس باہمت،پاکباز،جرأت مند بیٹی بہن کی موت کا انتظار کر رہے ہیں،کسی سیاستدان کو ظالم امریکہ کے سامنے اس کی رہائی کی بات کرنے کی جرات نہ ہوئی کیونکہ اس سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچتا تھا ہمارے آج کے حکمران نام تو خلفائے راشدینؓ کا لیتے نہیں تھکتے ہیں مثالیں بھی انکی دیتے ہیں مگر اسلام مقدس نظام ،ان مقدس ہستیوں کے عظیم اعمال سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ اے خلفائے راشدین ؓ کے نام لیوا پاکستانی حکمرانو!اپنے اندر ان عظیم ہستیوں کی صفات پیدا کروان کے طریقوں کو اپنے اندر زندہ کرو گے تو کامیابی ملے گی اﷲ کے قرآن اور رسول اﷲ ﷺ کا فیصلہ ہے جو ان کے نقش قدم پر چلے گا انھیں کامیابی ملے گی جو ایمان کا دعویدار ان کے نقش قدم سے انحراف کرکے غیروں کے طریقے اپنائے گا وہ کسی قیمت پر کبھی بھی کامیابی نہیں پا سکتا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس علاقے میں ہر سال اموات ہوتی ہیں صرف اس وجہ سے کہ مناسب انتظامات نہیں ہوتے ہر مرتبہ سب اچھا ہے آئندہ اقدام کا کہہ کر عوام کو مطمعٔن کردیا جاتا ہے مگر عملی اقدام کرنے کا نام نہیں لیا جاتا احکامات تو ہر سال ایسے جارہی کئے جاتے ہیں کہ شائد آنے والے سال میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں،ہر سال ارباب اقتدار اور سیاستدانوں کے ہنگامی دورے صرف فوٹو سیشن ثابت ہوئے کئی سو انسانوں کی اموات کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں جو باتیں کرنے کے سواکچھ نہیں کرتے حالیہ تازہ ترین رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں مزید قیمتی انسانی جانوں کی موت کا انکشاف کیا گیا ہے حکمران اپنے فرض منصبی کو پورا کیوں نہیں کر رہے؟ اگرحکمران اس فرض کو ادا کرنے سے قاصر ہیں تو میری رائے تو یہ ہے کہ اقتدارسے الگ ہو جائیں کیوں کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے خوراک،صحت،امن اور تعلیم کا بالکل مفت بندوبست کرنا ہے جس میں ہمارے ارباب اقتدار ہمیشہ ناکام نظر آئے کیوں کی انھیں ذاتی مفادات کی تکمیل سے فرصت نہیں جب کسی کو اس کا حق نہیں ملے گا تو معاشرے میں بے چینی ،بد امنی کا خاتمہ ممکن نہیں رہتا۔ اگر حکمران کچھ نہیں کرتے تو امیر لوگوں پر فرض عائد ہوتاہے کہ ان مفلوک الحال لوگوں کی مدد کریں تھر کے میں رہائش پذیرمفلوک الحال انسانوں، پاکستانیوں کی مدد ساری قوم پر فرض ہے ایک اہم بات جو اس ضمن میں انتہائی ضروری وہ یہ ہے کہ ایسے آفت زدہ علاقوں میں اکثر انسانیت کے نام پر اسلام اور پاکستان دشمن طاقتیں فلاحی کاموں کے نام پر لوگوں میں اپنا اثر رسوخ قائم کرلیتی ہیں جس سے لوگوں کا ایمان اور حب الوطنی خطرے میں پڑ جاتی ہے دینی فلاحی تنظیموں کو پاکستانیوں کے عقیدے،ایمان،حب الوطنی بچانے کیئے میدان میں اترنا ہوگا۔ اگر ان مفلوک الحال انسانوں نے قیامت کے روز اپنے حقوق کی بابت ساری قوم سے ان کا گریبان پکڑکرسوال کردیاتوحکمران، سیاستدان،اہل ثروت کیا جواب دیں گے ایسے وقت میں جب حکمران اور سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے میں مصروف ہیں ملک کے ہر درد مند صاحب حیثیت،اہل ثروت پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ ہے کہ تھر کے باسیوں کو ہمیشہ کیلئے تحفظ دینے کیلئے مستقل بنیادوں پر اقدام کریں۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 248099 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.