ننھا فرشتہ

پشاور میں ننھے بچوں پر قیامت گزر گئی اور معصوم بے گناہ نوخیز پھول کلیوں کے لئے انسان نہیں پتھر بھی روئے ہیں،ماؤں کے کلیجے چھلنی ہیں اور ہر صاحب اولاد نے اس درد کی ٹیس اور چبھن اپنے دل میں محسوس کی ہے، جگر گوشوں سے جدائی کا صدمہ اس وقت کہیں زیادہ دکھ دیتا ہے جب مائیں تصور میں اپنے بچوں پر ہونے والے ظلم کی جھلک دیکھتی ہیں اور تڑپ تڑپ جاتی ہیں،سچ میں نہ صرف ان ماؤں کے لئے ہی نہیں ہر اس انسان کے لئے یہ تصور روح کو تڑپا دینے والا ہے جس کے اپنے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ،انسانیت کی تذلیل اور بزدلی کی شاید اس سے بڑی مثال کہیں نہ ملے جو دہشت گردوں نے قہر بن کرقائم کی ہے،طالبان نے ثابت کیا ہے کہ انہیں ظالمان ٹھیک ہی کہا جاتا ہے۔ہر طرف اظہار مذمت اور افسوس کا ایک طوفان برپا ہے دنیا بھر کے انسان مذہب اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر بچوں کے لئے ماتم کناں ہیں،دلوں کی ویرانی ہے کہ کم ہونے کانام نہیں لے رہی، ملک میں حالات نے نئی کروٹ لی ہے محافظ غم وغصے کی شدت سے تپے ہوئے ہیں ، حالات کا جبر کہیں یا تقدیر یاوہ ریٹائرڈ جرنیل جس کو آرٹیکل 6کے تحت موت کی سزا کا سامنا تھا اب اس کے دور اقتدار میں اسی پر حملہ کرنے والوں کو پھانسیوں سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کا آغاز ہوا ہے، ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہو نے جا رہی ہیں خدا کرے اس جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ،وہ سب سیاسی جماعتیں جو عام دنوں میں حکومت کو کسی ترمیم کے لئے جلدی پلہ پکڑانے پر راضی نہیں ہوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئی ہیں ان میں وہ جماعت بھی شامل ہے جو 14 اگست کو وزیر اعظم کا ستعفےٰ لینے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئی تھی بہر حال اب سارے ایک جگہ بیٹھے ہیں اور دہشت گردوں کو نتھ ڈال دینے کے عزم کا اظہار جا ری ہے میں یہ مناظر حیرت سے پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ،پشاور سانحے پر عمران خان اور طاہر القادری بھی دکھ کا اظہار کر رہے ہیں ،ایک صاحب بنی گالہ میں اور دوسرے جہاں سے آ ئے تھے دل پہ ہاتھ رکھ کر وہیں جا چکے ہیں ،میں محبت اتحاد اور یکجہتی کے اس منظر سے محروم نہیں ہونا چاہتا کیونکہ ابھی ہفتہ دس دن پہلے ایسی کسی اے پی سی کا خیال بھی دل میں لانا ممکن نہ تھا اس وقت سب اکھٹے ہیں میں چاہتا ہوں کہ سیاسی قیادت کو یونہی مل بیٹھ کر مل کے لئے کام کرتے ہو ئے دیکھوں مگر رات کو جب میں تھکا ہارابستر پر دراز ہوتا ہوں کوتو بہت سے ننھے منے فرشتے مجھ سے ملنے آجاتے ہیں ان میں سے ایک ننھا فرشتہ ہے جو مجھے کہیں ساتھ لے کر جانا چاہتا ہے لیکن میں خوف اور حیرت میں ڈوبا رہتا ہوں اور اسکے ساتھ نہیں جاتا رات بہت بیت چکی ہے اور ننھے فرشتوں نے میری آنکھوں کے سارے مناظر دھندلا دئیے ہیں اور خود انکی جگہ لے لی ہے اچھلتے کودتے کھیلتے معصوم سے ننھے فرشتے بہت بھلے لگ رہے ہیں اور وہ ننھا فرشتہ پھر میرے قریب آرہا ہے اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہے اور آ ج میں خود سپردگی کے عالم میں اسکے ساتھ چل پڑا ہوں یہ اسلام آباد کا ڈی چوک ہے ایک شخص جو انتہائی نفیس لباس زیب تن کئے ہوئے ہے اسکی کان پھاڑ دینے والی آواز میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی ہے وہ دھاڑ رہا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ننھے فرشتے نے مجھے اشارہ کیا ہے کہ میں انتظار کروں شاید وہ کچھ خاص دکھانا چاہتا ہے اور اب چیخنے والے شخص نے ایک شیر خوار بچہ فضا ء میں بلند کیا ہے اور اس بچے کو زندہ سلامت بچے کو کفن پہنایا ہوا ہے،خوش لباس شخص مسلسل دھاڑتا جا رہا ہے کسی توقف کے بغیر ننھے فرشتے نے میرا ہاتھ پھر سے کھینچنا شروع کر دیا ہے وہ مجھے آگے کہیں لے جانا چاہتا ہے اب میں اسکے ساتھ چل رہا ہوں کچھ ہی دور چل کر وہ رک گیا ہے اس نے پھر اشارہ کیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں ڈی چوک میں قبریں کھدی ہوئی ہیں کافی زیادہ قبریں ہیں جنہیں دیکھ کر ننھا فرشتہ چپ چاپ کھڑا ہے ور پھر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا ہے جیسے کچھ پو چھنا چاہتا ہو کہ زندہ شیر خواربچوں کے جسم پر کفن اور جیتے جاگتے انسانوں کے لئے قبریں کیوں اور میں نے نظریں چرا لی ہیں میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے ننھا فرشتہ ایکدم سے چل پڑا ہے اس بار تو اس نے اڑنا شروع کر دیا ہے لگتا ہے وہ مجھے کہیں زیادہ دور لے جانا چاہتا ہے اس نے لمحوں میں میلوں کا سفر طے کر ڈالا ہے اور فضاء میں معلق ہو کر نیچے دیکھنے کا اشارہ کر رہا ہے میں نے نیچے دیکھنے کو کوشش کی ہے مجھے صاف نظر آ رہا ہے یہ کوئی جلسہ ہے روشنیوں کا ایک سمند ر ہے یہاں موسیقی کی دھنیں بج رہی ہیں اور ایک مستی کا عالم ہے پھر ایک بہت بڑا لیڈر مائیک پر آ یا ہے اور اس نے بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے انکی ایسی تیسی کر دی ہے میں اسکی جرات اور انداز تخاطب دیکھ کر اسکی تقریر میں محو ہوں لیکن ننھے فرشتے نے مجھے جھنجھوڑ دیا ہے جیسے وہ یہاں مجھے اس بڑے انقلابی لیڈرکی تقریر سنانے نہیں کچھ اور دکھانے لایا ہے اس نے اشارے سے مجھے ایک طرف دیکھنے کو کہا ہے وہاں ایک عجیب سی بھگدڑ مچی ہوئی ہے کچھ لوگ اس بھگدڑ میں زخمی ہیں مگر سب افراتفری کے مارے بھاگ رہے ہیں اور تو اور اسٹیج کے بالکل نیچے ایک نوجوان اپنی زندگی کی بازی ہار رہا ہے لیکن لیڈر ہے کہ اپنی تقریر کئے جا رہا ہے اور اب فرشتہ مجھے جلسے سے نکال کر ان مرنے والے نوجوانوں کے گھروں میں لے گیا ہے جہاں بین کرتی انکی ماؤں کی چیخ وپکار سے کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی،ننھا فرشتہ پھر محو پرواز ہے وہ مجھے ایک اور جگہ لے گیا ہے جہاں ایک میدان جنگ لگا ہو اہے ایک لڑکاٹائر کو آگ لگاتا ہوا نہر میں ڈوب گیا ہے اور ایک بدمست نوجوان نے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کر دی ہے جس سے ایک اور نوجوان زمین پر خون میں لت پت پڑا ہے ننھا فرشتہ رکا نہیں ہے مگر میری حالت غیر ہوتی جا رہی ہے اس نے مضبوطی سے میرا ہاتھ تھاما ہے اور لمحوں میں مجھے کہیں کا کہیں لے آیا ہے شاید یہ داتا کی نگری ہے یہاں کچھ سال پہلے انسانوں کو لوتھڑوں کی شکل میں میں نے اپنی اانکھوں سے دیکھا تھا میرا حلق خشک ہو رہا ہے ننھے فرشتے کو میری حالت کا احساس ہے اس نے میرا ہاتھ اور زور سے دبا کر میرا حوصلہ بڑھا یا ہے اور پھر ایک جانب اشارہ کیاہے یہاں ہر طرف پولیس ہی پولیس ہے جو بے رحمی سے لوگوں کو پیٹ رہی ہے آنسو گیس کی شیلنگ سے خواتین کا برا حال ہے اور پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئی ہیں اور گولیوں ترتڑاہت سے فضا گونج رہی ہیں اور کچھ دیر بعد14 لاشیں روانہ کی جارہی ہیں ننھے فرشتے نے مجھے ساتھ لیا ہے اور پھر فضا ء میں بلند ہوا ہے آن کی آن میں وہ مجھے بہت دور لے آیا ہے یہ کوئی قبائلی علاقہ معلوم ہو تا ہے ایک مدرسے سے بچوں کے قران پڑھنے کی آوازیں آرہی ہیں اچانک ایک میزائل آتا ہے اور مدرسے پر گرتا ہے جہاں بچوں کی آوازیں گونج رہی تھیں وہاں پل بھر میں لاشوں کا ڈھیر لگ گیا ہے میری حالت پھر خراب ہو گئی ہے ننھافرشتہ میرا ہاتھ تھامے پھر کسی نئی منزل کو روانہ ہوا ہے یہاں آتے ہوئے میں نے پہلی بار اسکی آنکھیں نم دیکھی ہیں اسکی معصوم من موہنی صورت اب بہت اداس ہو گئی ہے شاید یہ اس کا گھر ہے وہ گھر میں دا خل ہوا ہے اس نے روز سکول سے واپسی کی طرح بہت اونچی آواز میں سلا م کیا ہے لیکن اسکے اہل خانہ اسکو سن نہیں پا رہے وہ اپنی ماماسے لپٹ گیا ہے اپنے پاپا کی ٹانگوں سے جھول رہا ہے وہ بہن بھائیوں کو پکا رہا ہے اسکا بھائی ایک کونے میں بھیگی آنکھیں لئے بیٹھا ہے سب غم سے نڈھا ل ہیں اور بت بنے ہیں کسی کو نہیں معلوم کہ ان کاپیارا ان سے ملنے آیا ہے اورانکے پاس موجود ہے ننھے فرشتے کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی وہ اپنے اہل خانہ کو اپنے وجود کا احساس نہیں دلا پا رہاتب وہ ایکدم اٹھا ہے اپنے ننھے دوست پرندوں کے پاس گیا ہے انہیں پیا ر کیا ہے لیکن پرندے اب اس کے محبت بھرے لمس کو محسوس نہیں کر پا رہے وہ اسکی بات سننے اور اپنی کہنے سے قاصر ہیں اب وہ اپنے کمرے میں گیا ہے جہاں اسکی کاپیاں اور کتابیں اسکا بستہ سب لہو لہو ہیں اس نے اپنی کاپیاں کتابیں اٹھا کر سینے سے لگا لی ہیں اور ان میں سے ایک کاپی جس کا سر ورق تو لہو لہو ہے لیکن اندر والے صفحات کچھ بہتر حالت میں ہیں اس نے اپنے ساتھ لے لی ہے میں ہمت کر کے آگے بڑھا ہوں اس کا ہاتھ تھاما ہے اس نے خدا حافظ کہتے ہو ئے اپنی ماں کے پاؤں چومے ہیں اور باہر کی راہ لی ہے وہ مجھے پھر کہیں لے جا رہا ہے یہ ایک بڑی عمارت ہے جس کے باہر آرمی پبلک سکول کا بورڈ لگا ہوا ہے ننھے فرشتے نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا ہے اور اسکے گالوں پر ٹپکنے والے آنسوؤں کو میں دیکھ رہا ہوں اس نے اپنے سکول کی ویران عمارت کو سلیوٹ کیا ہے وہ پرنسپل آفس کی جانب جا رہاہے اندر جا کر اس نے خالی کرسی کو پھر سلیوٹ کیا ہے وہ باہر آکر میرا ہاتھ پکڑ کر میرے چہرے کی طرف دیکھ رہا ہے جیسے کہہ رہا ہو بس کچھ ہی دیر اور۔۔۔اب شایدوہ مجھے قبرستان کی طرف لے جا رہا ہے جہاں جاتے ہوئے مجھے ہمیشہ خوف سامحسوس ہو تا ہے ننھے فرشتے نے مجھے بہت سی قبریں دکھائی ہیں اسکے دوستوں کی قبریں اسکے ساتھیوں کی اساتذہ کی قبریں ۔۔قبریں ہی قبریں۔اب وہ ایک قبر کے پاس رکا ہے شاید یہ اسکی اپنی قبر ہے اسکے آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے میں اس کے آنسو پونچھ رہا ہوں وہ اب واپس جا رہا ہے جانے سے پہلے لہو رنگ کا پی نکال کر ننھے فرشتے نے اس پر لکھنا شروع کر دیا ہے اسکے آنسو ٹپ ٹپ کاپی پر گر رہے ہیں آنسوؤں سے لبریز یہ تحریر بتا رہی ہے کہ وہ اپنی معصومیت اور بے گناہی کے بارے میں جیسے کوئی سوالنامہ تیا ر کر رہا ہے اس نے ظالم دہشت گردوں سے اپنی سپاہ سے سیاستدانوں ،حکمرانوں سے اور ہم سب سے پو چھا ہے کہ میں تو علم کی روشنی لینے اپنے پیارے پیارے سے سکول گیا تھا نہ کہ کسی بارڈر پر میں توبڑا ہونا اور بہت سا پڑھنا چاہتا تھا،میں اس ویران قبرستان میں نہیں بلکہ ہر رات اپنی ماں کی آغوش میں سونا چاہتا تھا میں اپنے باپ کی شفقت کی گھنی چھاؤں میں رہنا چاہتا تھا میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا کودنا اچھلنا بھاگنا چاہتا تھا مگر مجھ سے میرا یہ سب کچھ کیوں چھینا گیا ہے میرے بھائی بہن میرے دوست میرے اساتذہ سب چھن گئے ہیں دہشت گرد انکل نے کیوں میرے نرم و نازک سے بدن پر برچھیاں چلا دی ہیں میں نے بہت سوچا ہے لیکن اس بات کی میرے ننھے منے ذہن کو سمجھ نہیں آئی مجھے اتنا سمجھا دو بس مجھے اتنا تو دو آخر میرا جرم کیا تھا؟ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے پاس بلایا ہے کاپی مجھے تھمائی ہے اور 16دسمبرکی قیامت کو یا دکر کے ہر روز آنسو اگلنے والے معمولی سے لکھاری کوگلے لگا کے رخصت ہو گیا ہے ۔

Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 68248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.