دینی ،ملی دشمنوں کا مقابلہ ازحد لازم

سانحہ پشاور میں جہاں ساری قوم افسردہ ہے وہیں اس المناک سانحہ کے حائق بھی سامنے آرہے ہیں جن میں اہم خبر یہ ہے کہ آرمی سکول کے حملہ آروں کے ختنے نہیں ہوئے تھے (روزنامہ خبریں صفحہ 1،20 دسمبر 2014)جس کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے جس سے قوم کے دور رس رہنماؤں کے تاثرات حقیقت کا روپ دہار تے دکھائی دے رہے ہیں اس سانحہ کی آڑ میں کچھ بااثر،سیکولر(لادین) قوتیں کھل کر دینی جماعتوں ،مدارس ،علماء کرام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے کے لئے میدان میں کود پڑی ہیں ،ملک بھر کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر پچاس یا سو افراد کو اکٹھا کرکے اپنے منی جلسوں ،جلوسوں، احتجاجی ریلیوں میں مدارس ،مساجد،علمائے کرام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کر رہی ہیں جس کا مقصد اس کو سوا کچھ نہیں کہ اسلام ،اہل اسلام،دینی فکر کے حامل لوگوں کے گرد دائرہ تنگ کیا جائے ایک ملک سے مفرور سیاسی جماعت کے لیڈر نے تو اسلام آباد کی سب سے بڑی تاریخی لال مسجد کو مسجد ضرار قرار دے کر اسے جلانے یا گرانے کا فتویٰ بھی جاری کردیا اس گھٹیا ترین بیان کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے اس پر فتن بیان سے اہلیان پاکستان کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں یہ بیان اﷲ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اب اﷲ کے گھر مسجدیں بھی ہمارے شعبدہ باز لیڈروں سے محفوظ نہیں رہیں جس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے ،وفاقی وصوبائی حکومتیں اس ٹیلفیونک خطاب کے شوقین لیڈر کی باز پرس کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں اور مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کوئی نہیں اس سے پوچھتا کہ تمھیں کس نے ایساگھٹیا بیان دینے کا اختیار دیا ہے معصوم ،بے گناہ آرمی سکول کے جنتی پھولوں کو اہل دین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے بدنام کرنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا بڑا یہ سانحہ ہے۔دینی طبقات اس بارے میں بے چین نظر آرہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ مدارس کے خلاف مہم سے ملک میں مزید تباہی آئے گی ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے یہ مطالبات اور بیانات ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں مدارس دینیہ کے سب سے بڑے بورڈ وفاق المدارس کی طرف سے گذشتہ روزاسلام آباد میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں طلباء ،اساتذہ ،بورڈ کے ذمہ داران نے شرکت وقیادت کی ،مظاہرین سے خطاب میں علمائے کرام نے شہدائے سانحہ پشاور کو خراج تحسین پیش کیا،حملہ کرنے والوں کی مزمت اور سانحہ پشاور کی آڑ میں دینی تنظیموں ،مدارس اور علمائے کرام کی کرادر کشی کی شدید الفاظ میں مزمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ اس گھناؤنی حر کت کو حکومت بند کروائے ۔قارئین کرام !یہ کھلی حقیقت ہے کہ آج پاکستان میں جو اسلامی تشخص نظر آرہا ہے وہ دینی طبقہ اور مدارس کا صدقہ ہے میں اور میرے جیسے لاکھوں دنیاوی تعلیم کے حامل لوگ آج دین کی فکر میں مگن ہیں تو یہ علمائے کرام کے قدموں میں بیٹھنے کا صلہ ہے دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں یہاں سے اسلام کے نمائندے پیدا ہوتے ہیں جو اسلامی تشخص کو رواج دیتے ہیں مدارس اور علماء کرام کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ہے ملک کی معروف جامعہ کے مفتی مولانا مفتی محمد نعیم نے بھی کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزائے موت کے قانون کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر یہ بحالی صرف مذہبی طبقہ تک محدود نہیں ہونی چاہیے اس سے غلط تاثر پیدا ہوگاان کا کہنا تھا کہ مدارس کے خلاف غلط بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا کہ یہاں انتہا پسندی،دہشت گردی کا سبق دیاجاتا ہے مگر یہ حقیقت کے سراسر منافی ہے ڈاکٹر عثمان اورارشد جنھیں پھانسی دی گئی وہ مدارس کے سٹوڈنٹس نہیں تھے ۔ مولانا مفتی عدنان کاکا خیل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پھانسی کے قانون کے اجراء کا فیصلہ قابل تحسین ہے مگر اس فیصلے کا فوکس ایک جماعت یا طبقہ نہیں ہونا چاہیے تمام سزائے موت کے قیدیوں کو بلا فریق پھانسیاں دی جائیں ۔مذہبی قائدین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ توہین رسالت کے مجرموں کو جو اس وقت جیلوں میں بند ہیں انھیں بھی پھانسیوں پر چڑھایا جائے آج تک کسی بھی گستاخ رسول کو پھانسی نہیں دی گئی جو کہ اہل ایمان کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے ۔

قارئین کرام مندرجہ بالا صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے یہ سیکولر طاقتیں دراصل اسلام اور اسلامی اشعار کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اسی لئے یہ لوگ کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ،کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو چٹ پٹ یہ لوگ دینی لوگوں کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پشاور سانحہ کی مزمت تمام دینی طبقات نے کی ،میری نظر سے ملا عمر مجاہد کا بیان بھی گزرا انہوں نے بھی اسے غیر اسلامی فعل قرار دیا پاکستان کی تمام دینی جماعتوں ،طلبہ تحریکوں کی طرف سے احتجاج ،تعزیتی ریفرنسز کا سلسلہ جاری وساری ہے پھر بھی دین ،دینی اقدار سے آری طبقات ہاتھ دھو کر دینی طبقہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سارا ملبہ دینی طبقہ پر ڈال دیاجائے اور( نعوذ باﷲ) دین اور دینی طبقہ کا صفایا ہوجائے پھر کوئی اسلام کا نام لینے والا نہ رہے ہم جو چاہیں گے پھر کریں گے۔ یہ سوچ کھلی دہشت گردی،انتہاپسندی،دین دشمنی ہے جسے اہلیان پاکستان کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتے ، میں یہاں اپیل کرتا ہوں ساری قوم سے کہ جہاں ملک بھر میں شہدائے پشاور کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے اور مجرموں کو کیفرکرادرتک پہنچانے کی بات ہو رہی ہے اس کے ساتھ سفید جھوٹ کے گھوڑے پر سوار ہوکرملک میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والوں کے محاسبے کامطالبہ بھی کیا جائے۔ لہٰذا وزیر اعظم میاں نواز شریف، صدر پاکستان ممنون حسین کو اس زیادتی کے خلاف فی الفور نوٹس لینا چاہیے ،کہیں ایسا نہ ہو یہ تناؤ بڑھتا بڑھتا حد سے گزر جائے ۔

پاکستان کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے مذہبی ،سیاسی،سماجی، فلاحی ،اسلام اور وطن کی محب سول سوسائٹی،سرکاری اداروں کو مل کر متحد ہوکر کام کرنا ہوگا اگر اسی طرح ایک دوسرے کی تعصب کی بنیاد پر ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ نہ رکا تواسلام اور پاکستان کے دشمن اپنے ناپاک عزائم میں (خدانخواستہ) کامیاب ہو جائیں گے دینی اور ملی دشمنوں کا مقابلہ ازحد لازم ہے۔
 
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 248742 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.