شایدکہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

ہمارے رویے ہماری زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے ہمارے حالات پر بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح ہمارے بہت سارے مسائل ہمارے اپنے رویے کہ وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض مسائل جنم ہی ہمارے رویوں سے لیتے ہیں۔ اور ہمارے رویے زیادہ تر ہماری سوچ کے عکاس ہوتے ہیں۔ اگر مو جودہ حالات پر نظر دوڑائی جائے تو صرف اندرونی ہی نہیں بلکہ پورے خطہ میں کشمکش کی سب سے بڑی وجہ ہمارے رویے ہی ہیں جن کی ہمیں بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ہمارے رویے اس حد تک بگڑ چگے ہیں کہ ہم پر امن مذاکرات کرناہی نہیں بلکہ محض آمادگی ظاہر کرنا ہی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ پاکستان اور ہمارے ہمسایہ برادر ممالک کو لے لیجیے۔ ہمارے اندرونی حالات ہی دیکھ لیجیے۔ وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ مذاکرات اور احتجاج اکٹھے نہیں چل سکتے اور ادھر سے عمران خان صاحب نے فرمایا کہ اگر دھاندلی ثابت نہ بھی ہو تو پارلیمنٹ میں شرکت یا احتجاج کا خاتمہ ممکن نہ ہے۔ اس طرح کے رویے کبھی بھی مذاکرات کی کامیابی کا سبب نہیں بن سکتے۔

ایک دن قبل میری نظر ایک خبر پر پڑی تو بہت شرمندگی ہوئی کہ ہمارے رویے اس حد تک خراب ہوگئے ہیں کہ ہمیں انسانی حقوق تو دور کی بات خوف خدا بھی نہیں رہا اور ایسے اقدامات صرف عقل کے اندھے ہی سرانجام دے سکتے ہیں ورنہ عقل تو یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ان بینائی سے معزور لوگوں ، جن کو دنیا میں سپیشل پرسن کے طور پر جانتی ہے، کی چھڑی پکڑکر ان کی رہنمائی کی جاتی اور اس طرح نہ صرف اپنی بینائی کا صدقہ نکلتا بلکہ دیدہ وری کااظہار بھی ہوتا۔ اس خبر سے اقوام عالم میں ایک کہرام مچ گیا ہوگا کہ یہ پاکستانی کس دور میں رہ رہے ہیں ۔

میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ ان کو محض معطل کرنا کافی نہیں ہے بلکہ معطل کرنا تو آنکھوں میں دھول جھولنے والی بات ہوئی کہ ان کو کام سے بھی فرصت ملے گی اور بعد میں تنخواہ بھی مل جائے گی اور بحال بھی کر دیا جائے گا۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ ایسا قدم اٹھانا چاہیے جس میں ان کی بھی اصلاح ہونی چاہیے اور سزا بھی ملنی چاہیے۔ اس میں ایک تو ان احتجاج کرنے والوں کے جائز مطالبات اگر ابھی تک تسلیم نہیں کیے گئے، تسلیم کیے جائیں اور ان سرکاری ملازمین کو باقاعدہ نوکری پر حاضر کیا جا ئے مگر ایک سال تک سروس یہ کریں اور ان پولیس ملازمین کی تنخواہ ان سپیشل لوگوں کے ادارے کو دی جائے ۔ پولیس کے سلیبس میں انسانی حقوق کا ایک باب شامل کیا جائے تاکہ ان کو پتہ ہو کہ ان کی سروس کا اصل مقصد ہی انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا ہے۔ اور کوئی جتنا بھی بڑا آجائے کسی کے حقوق کو معطل نہیں کیا جاسکتا چہ جائے کہ معزوروں پر لاٹھیاں برسائی جاہیں۔یہ سفید چھڑی تھامے ہوئے لوگ (سپیشل)کئی درجے سفید کالر (وی آئی پی) لوگوں سے قانون اور خدا کی نظروں میں بہتر ہیں۔

ہمارے رویوں کی وجہ سے ہی ہم دنیا میں خوار ہو رہے ہیں۔ آپس کی کشمکش ہمارے امن کے قائم نہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ ہماری مذہبی ، لسانی اور علاقائی تعصبات اور منافرتیں ہماری عالمی برادری میں بدنامی کی بہت بڑی وجہ ہیں۔ ہمارا دنیا بھر میں اعتماد ضائع ہوچکا ہے۔ ہم آج اپنے کردار، جو کہ ہمارے رویوں اور سوچوں کا خاشانہ ہے، وجہ سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے غلط رویوں کی وجہ سے ہماری تمام تر صلاحیتیں غلط جگہ پر استعمال ہورہی ہیں۔ ہم نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہمارے تھانے، عدالتیں اور ہسپتال تو بھرے پڑے ہیں مگر اتنے زیادہ وسائل سے مالا مال سرزمین کے باوجود ہم غربت اوربے روزگاری جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی ہیومن ریسورس ہمیں فائدہ دینے کی بجائے بوجھ بنی ہوئی ہے۔ یہ سب یقینا ہماری غلط سوچ اور رویوں کی وجہ ہے۔ آج بھی اگر ہم اپنی سوچوں اور رویوں کو بدل لیں تو ہمیں دنیا کا کوئی غم نہ ہو امن ہی امن ہو، خوشحالی ہی خوشحالی ہو۔

آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شایدکہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے گوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہب مردان خو د آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا و جمادات و نبادات
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 115679 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More