وید پرکاش ویدک کی حافظ سعید سے ملاقات

اسرائیل کی سفاکی پر خاموشی، کالا دھن اورموسم بدلا

مسٹر ویدپرکاش ویدک کا نام اردوداں طبقہ کے لئے تواجنبی ہوسکتا ہے مگر ہندی اخباربین ان سے ناواقف نہیں۔ ایک زمانے میں وہ’ نوبھارت ٹائمز‘ کے نظریہ ساز ایڈیٹر تھے۔’بھاشا‘ میں بھی کلیدی منصب پر رہے۔ اب بھی ان کے کالم ہندی اخباروں میں چھپتے ہیں۔ انہوں نے اگرچہ جے این یو سے پی ایچ ڈی کی ہے، مگر ان کی فکر و نظر پر دائیں بازو کااثر غالب ہے۔بعض باتیں وہ بلاتصدیق لکھ جاتے ہیں ۔ مثلاً انہوں نے ایک حالیہ کالم میں لکھ دیا کہ ’’شریعت کی عدالت نے بلاتکاری سسر کو سزادینے کے بجائے اس کی بہو عمرانہ کو دوشی ٹھہرایا تھا،اور اس کو یہ سزا دی تھی کہ وہ اب سسر کی بیوی بن کر رہے۔‘‘ یہ قطعی بے بنیاد اور خلاف واقعہ بات ہے۔ کسی شرعی عدالت نے نہ ایسا کہا اور نہ کہہ سکتی ہے۔ قرآن کا واضح حکم ہے جو عورت باپ سے قربت کرچکی وہ بیٹے کے لئے حرام ہے۔ اسی طرح سگے بیٹے کی بیوی سسر پر حرام ہے۔ (سورہ نساء : 22 )۔ ویدک جی کو معلوم ہوگاکہ ہندستان میں شرعی عدالتیں فوجداری معاملات میں فیصلے نہیں دیتیں، اگر یہ قانونی اختیا رہوتا تو زانی کی سزا شریعت میں رجم کے ذریعہ موت ہے۔

بہرحال ان کے کالموں میں ایک مخصوص ذہنیت کی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔ اسی لئے نرسمہاراؤ سے لیکر نریندرمودی تک ان کے قدردانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ نیپال جب ’ہندو راشٹرا‘ تھا، وہاں بھی ان کی پذیرائی ہوتی تھی۔ایک مختصرملاقات ہماری بھی ان سے ہے ۔ ان کے کالموں سے تو نہیں البتہ ان کی خوش اخلاقی اور قناعت پسندی سے دل ضرورخوش ہوا۔ایسا اثر ورسوخ والا آدمی چاہے تو عیش کرے مگر وہ سادہ زندگی گزارتے ہیں اور آٹو رکشہ سے آتے جاتے ہیں۔

مسٹرویدک ان دنوں اس لئے سرخیوں میں ہیں کہ انہوں نے پاکستان سے واپسی پر یہ انکشاف کیا کہ لاہور میں ان کی ملاقات حافظ سعید سے ان کے گھر پرہوئی اور آدھا گھنٹہ چلی۔دوران گفتگو انہوں نے حافظ کو یقین دلایا کہ مودی خطے کے لئے خطرہ نہیں۔ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔

مسٹر ویدک منی شنکر ایر کے ساتھ گزشتہ ماہ ایک این جی او ’علاقائی امن پہل‘کی کانفرنس میں گئے تھے ۔ مسٹرایر بھی اس ’این جی او‘ سے وابستہ ہیں۔ کانفرنس کے بعدوہ وہاں رک گئے۔ ہند پاک رشتوں پر گفتگو میں حافظ سعید کا ذکر نہ آئے ، یہ کیسے ممکن ہے؟ حافظ سعید ایک ایسے نظریہ کی علامت ہیں جس کے پاکستان میں ماننے والے کم نہیں۔ جولوگ پاکستان کی صورتحال سے واقف ہیں، وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہند پاک مسائل کے حل کے لئے صرف سول حکومت کی نمائندگی کافی ہیں، فوج اور آئی ایس آئی کے علاوہ حافظ سعید جیسے مخالفین کو بھی ہموار کرنا ہوگا۔

مسٹر ویدک کے بقول چند صحافیوں سے دوران گفتگو جب حافظ سعید کا ذکر آیا تو کسی نے پیش کش کی کہ وہ خودہی کیوں نہ ان سے ملاقات کرلیں ۔چنانچہ حافظ سعید سے، جن کی تلاش کے لئے امریکا نے دس کروڑ ڈالر کی رقم مقرر کررکھی ہے، آناً فاناً ان کی ملاقات کرادی گئی۔ ظاہر ہے یہ ملاقات سیکیورٹی ایجنسیوں کی مدد کے بغیر نہیں ہوئی ہوگی اور اس کے لئے پہلے سے تیاری ہوگی۔ حافظ سعید کا نظریہ اور کاموں سے شدید بیزاری اور اختلاف کے باوجود ان کا ذہن ٹٹولنا اور ان کے سامنے امن کی بات کرنا توجرم نہیں،جس پر ہمارے یہاں بڑا شور مچا ہے۔ ویدک نے کس حیثیت سے یہ ملاقات کی، یہ اہم نہیں۔ جب ہم بیرون ملک جاتے ہیں تو اپنے ملک کے نمائندہ ہوتے ہیں اورقومی مفاد کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے ۔ مسٹرویدک کے بارے میں تو سوچنا غلط ہوگا کہ وہ ؓبھارت کے مفاد کے خلاف کوئی کام باہر جاکر کرسکتے ہیں، خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ ان کے منظورنظرمودی وزیراعظم ہیں۔ حافظ سعید سے ان کی ملاقات پرسیاست افسوسناک ہے ۔اس طرح کی سیاست کی بدولت سرحد کے دونوں طرف ایسا جذباتی ماحول بنا ہواہے، جس میں معقولیت کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔کانگریس کے دورحکومت میں بھاجپا یہی کرتی تھی اور اب کانگریس یہی کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ کوشش یہ ہوگی کہ اس مدعے کو ووٹوں میں تبدیل کیا جاسکے۔

اگرچہ ویدک کا دعوا ہے کہ ان کی ملاقات نجی حیثیت میں ہوئی ، مگر گمان یہ بھی ہے کہ وہ مودی کے خیرخواہ نمائندہ کی حیثیت سے حافظ سے ملے۔اگر ہند پاک رشتوں میں استواری کے لئے مودی اتنی دورتک جاسکتے ہیں کہ حافظ سعید سے بھی رابطہ قائم کیا جائے تو یہ ایک مثبت قدم سمجھا جانا چاہئے نہ کہ منفی۔اور کانگریس کو شرم آنی چاہئے کہ گزشتہ دس سال میں ہزار مواقع کے باوجود وزیر اعظم من موہن سنگھ پاکستان کی بار بار کی دعوت پر وہاں نہیں جاسکے۔شور سے ڈر گئے۔ جاتے تو بھاجپا کا شور ہوتا۔ویدک معاملہ میں مودی سرکار کی طرف سے پارلی منٹ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اس سے سرکار کا کچھ لینا دینا نہیں۔ کاش مودی کی 56انچ کی چھاتی ان میں اتنا حوصلہ دیتی کہ وہ خود کہتے ’بھیا،ہم دیش کے بھلے کے لئے پاکستان سے بھی سمبندھ سدھارنا چاہتے ہیں، سرکار سے بات کررہے ہیں ، حافظ سعید جیسے ورودھیوں سے بھی بات کرسکتے ہیں۔‘مگر ووٹ بنک کھسکنے کا ڈر انکار پر مجبورکررہا ہے۔ہمیں اس حصار سے نکلنا ہوگا۔

بیشک حافظ سعیدکا تشدد پسندانہ انداز فکرسخت قابل گرفت ہے۔ ہم اس کی اس لئے بھی مذمت کرتے ہیں یہ انداز سیرت رسول سے میل نہیں کھاتا۔ بیشک ہم ان کو ممبئی حملوں کا گناہگار سمجھتے ہیں، لیکن اگر ایک شخص امن کے مشن پر نکلا ہے اوراسے ایسے شخص سے براہ راست بات کرنے کا موقع مل رہا ہے، جو ہمارا سخت مخالف ہے، تواس تک امن کا پیغام کیوں نہ پہچایا جائے؟کیا مخالفوں کو کوس دینے یا پتلا جلادینے سے امن اور دوستی کا ماحول قائم ہوجائیگا؟ ہرگز نہیں۔ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے خطاکاروں کو سزا دلائے بغیر ہمارے اس مطالبے میں زور نہیں آئیگا کہ پاکستان ممبئی حملے کی مجرموں کو سزادلوائے۔

یہ ملاقات جس کمرے میں ہوئی اس کا فوٹو توجہ طلب ہے۔ زمین پر سادہ سے گدے بچھے ہیں، ان پر گاؤ تکیہ رکھے ہیں۔ پلاسٹک کی ایک کرسی پر میزبان اور دوسری پر مہمان تشریف فرما ہیں۔ درمیان میں ایک میزپر صرف پانی کا جگ اور گلاس رکھاہے۔یہ حافظ سعیدکا ڈرائنگ روم ہے ۔ رسمی تعارف کے بعدویدک نے ممبئی پر سفاکانہ حملے کی بات اٹھائی۔ تو سعید نے صفائی پیش کی کہ ان کو اس حملے کی اطلاع ٹی وی سے ملی اوراس کے دو گھنٹے کے بعداس میں ان کا نام لیا جانے لگا۔ حافظ سعید نے جو یہ صفائی پیش کی ہے، اس کاگہرائی سے تجزیہ کیا جانا چاہئے کہ بادی النظر میں اتنے بڑے آپریشن کی منصوبہ بندی، وسائل کی فراہمی اورنگرانی بغیر زبردست پیشہ ورانہ مہارت اور عالمی مدد ممکن نہیں۔ ایسا تو نہیں کہ اصل قصوروار کوئی اورہے جو چاہتا ہے کہ عالم اسلام کی طرح اس خطے میں بھی امن قائم نہ ہو؟ البتہ یہ ممکن ہے کی حافظ سعید کے حلقے کے لوگ آلہ کار بن گئے ہوں۔اس معاملہ میں امریکی باشندہ ڈیوڈ ہیڈلی کا کردار سامنے آچکا ہے جس کو امریکا ہند کے حوالے کرنے پر آمادہ نہیں۔آخر کیوں؟

جب پارلیمنٹ میں سترسالہ ویدک جی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا تھا، تومعاً یہ خیال آیا کہ اگرویدک جی کی جگہ کوئی وزیرعلی ، قربان علی یا کوئی اکبر ہوتے توسرحد پر ہی پولیس ان کے سواگت کے لئے موجود ہوتی اور دیش دروہ کے الزام میں ان کو باقی عمر جیل میں گزارنی پڑتی۔

اسرائیل کی سفاکی
اسرائیل نے رمضان شروع ہوتے ہی غازہ پر ہوائی حملے شروع کردئے جن میں اب تک کم از کم دوسوافراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 30بچے اور چالیس خواتین شامل ہیں۔زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مسجد اور معذوروں کے گھر پر بھی حملہ ہوا۔پارلی منٹ میں پی ڈی پی کی محترمہ محبوبہ مفتی نے دوسری دن پھرسوال اٹھایا کہ اس سفاکی پر سرکار خاموش کیوں ہے جب کہ ہند کا موقف ہمیشہ فلسطین کی حمایت رہا ہے۔پہلے دن تو صرف ترنمول کانگریس اور سی پی ایم نے ان کی تائید کی مگر دوسرے دن دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی بولیں اور سرکار سے مطالبہ کیا وہ اس صورت حال پر ایک قراردار منظورکرائے جس سے سرکار نے صاف انکارکردیا۔ اس پر اپوزیشن پارٹیوں نے واک آؤٹ کیا۔ دراصل خارجہ تعلقات کی آڑ میں انسانی حقوق کی پامالی سے چشم پوشی ایک سنگین معاملہ ہے۔حکومت ہند کو ہرچند کہ اس معاملہ میں حساس ہونا چاہئے مگر جب حکومت ان ہاتھوں میں جو اندرون ملک اپنے ہی باشندوں کی ہلاکتوں میں شریک ہو اور شرمندہ نہ ہو اس کو دور پردیس میں انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا کیا غم ہوسکتا ہے۔ تاہم اس معاملہ پر رائے عامہ ہموار کی جانی چاہئے اور اس میں کوئی خطہ یا مذہب آڑے ہیں آنا چاہئے۔

کالا دھن
کہاوت ہے کہ نیک کام گھر سے شروع ہونا چاہئے۔مودی جی نے اپنے چناؤ بھاشنوں میں ودیش سے کالا دھن لانے کا وعدہ کیا تھا۔ لوگوں کو اس معاملے میں خوش گمان رہنے کی ضرورت نہیں۔ جو کالا دھن سوئس بنکوں میں جمع تھا وہ کب کا یا تو کہیں اور جاچکاہوگایا اس کا رنگ گورا ہوچکا ہوگا۔ البتہ بھاجپا کے ایک ایم پی ، گری راج کشور کے گھر سے چور تقریباً سوا ارب روپیہ اڑا کر لے گئے۔ بہار پولیس چھان بین کررہی ہے کہ یہ دھن کالا تھا یا گورا؟ جانچ کی رفتار شاید اس لئے سست ہے کہ کشورجی کسی طرح اس کو سفید دھن ثابت کرنے کے لئے ثبوت فراہم کرسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رقم ان کے ایک بھائی کی ہے جو بنگلور میں پراپرٹی کا کام کرتا ہے۔ بیشک ہوگی ۔ مگر بنگلور سے وہ بہار کیسے آگئی؟ کیا یہ چناؤفنڈ میں سے بچی ہوئی دولت ہے؟ پولیس ابھی تک گری راج کشور پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکی ہے۔ کوئی اور ہوتا تو پہلے جیل جاتا اور پھر تفتیش کا مرحلہ شروع ہوتا۔یہ وہی کشور ہیں جنہوں نے مودی مخالفوں کو پاکستان بھیجنے کی دھمکی دی تھی ۔

سول کوڈ کا شوشہ
گورکھپور کے بھگوادھاری ایم پی آدتیہ ناتھ نے پارلیمنٹ میں ایک مرتبہ پھر یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا ہے ۔ سرکار نے جواب میں کہا ہے کہ وہ تما م فرقوں سے مشورے کے بعد قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ سابقہ سرکار کا موقف یہ تھا کہ جب تک اقلیتی فرقے خود پہل نہ کریں، اس معاملے میں قدم نہیں آٹھائے گی۔ دراصل سرکار نے پہلے ہی ایک سول میرج ایکٹ بنادیا ہے ، جو کامن سول کوڈ کے قائم مقام ہے۔ بہت سے لوگ جو مذہب کے قائل نہیں ، اس ایکٹ کے تحت شادی کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں کامن سول کوڈ کا شوشہ محض ایک شرارت ہے۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک فیصلہ میں واضح کردیا ہے کہ اگر مسلمان اپنے معاملات اپنی مرضی سے دارالقضا سے طے کراتے ہیں اور اس کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں تو آزاد ہیں۔ اب اگر یکساں سول کوڈ کی عفریت سے ملت کو بچانا مقصود ہے تو مسلم تنظیموں کو بڑی تعداد میں ایسے ادارے قائم کرنے چاہیں جن میں مسلمان اپنے گھریلو معاملات سلجھاسکیں۔

موسم بدلا
جب سے مودی سرکار آئی تھی،دہلی والے گرمی کی شدت اوربجلی کی قلت سے پریشان تھے۔ عجیب اتفاق کہ ادھر ان کے طیارے نے برازیل کے لئے اڑان بھری، ادھر نجانے کہاں سے دہلی اور گرد نواح میں گھنے بادل چھاگئے۔ محکمہ موسمیات کو پتہ بھی نہیں چلا اور زور کی بارش ہوگئی۔درجہ حرارت بھی کم ہوگیا اور بجلی کی کٹوتی بھی۔ اسی دم یہ خبر آئی کہ رٹیل قیمتوں کا عدد اشاریہ میں کچھ کمی آگئی ہے۔ گوہم توہم پرست نہیں، لیکن توہم پرستوں کے ملک میں ، جہاں شگون کو بہت اہمیت حاصل ہے ،اس کو کیا سمجھا جائیگا؟ دیکھنا ہوگا کہ جیوتشی اس اتفاق پر کیا کہتے ہیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164792 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.