سیکولرزم: دکھاوا یا چھلاوا

رمضان مبارک،انٹونی کا دعوا،خلا میں جست، مہنگائی کا نیا تحفہ ،نیا ملک، قبرص کی مسجد

رمضان مبارک: سب سے پہلے قارئین کرام کو رمضان کی مبارک باد اور اس دعا کی درخواست کہ ایام ماہ صیام کی حقیقی سعادتوں سے سرفرازی کی توفیقحاصل ہوجائے۔ پہلا عشرہ (دس دن ) جاری ہے جو رحمتوں کا عشرہہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ان دس دنوں میں رحمتوں کاخوب نزول ہوتا ہے مگر وہ اسی کے حصے میں آتی ہیں جو خود کو اﷲ کی خصوصی رحمتوں کا مستحق بنالے۔ اور اﷲ کی رحمت کا مستحق وہ ہوتا ہے جو اپنے اعمال میں اﷲ کی رضاجوئی کا طالب رہے۔ اسی کا نام تقوٰی ہے۔ جس نے اس عشرے میں خود کو اﷲ کی رحمتوں کا مستحق بنالیا اور دوسرے عشرے میں بھی وہ اسی روش پر قائم رہا، اس کے لئے بشارت ہے کہ یہعشرہ مغفرت کا ہوگا۔ یعنی اﷲ تعالٰی اس کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کردیگا۔اگربفضل تعالیٰ دوسرے دس دنوں کایہ عشرہ بھی اسی خشوع اور خضوع کے ساتھ گزراا تو پھر تیسرے عشرے میں اﷲ کی مہربانیاں مزید ہوجائیں گی ۔یہاں تک کہ کوئی شخص اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کا مستحق بھی ہوچکا ہوگا، تو اﷲ اس کو جہنم سے نجات عطا فرمادیں گے۔ اس طرح کہنا چاہئے کہ یہ مبارک ماہ انسان کو ایک نئی زندگی عطاکرتا ہے ۔وہ جہنم سے نجات پاکر اﷲ کے مقبول بندوں میں شامل ہونے کامستحق بن سکتا ہے۔ لیکن اکثردیکھا یہ گیا ہے کہ رمضان شروع ہوتا ہے تو اعمال صالحہ کی طرف طبیعت خوب راغب ہوتی ہے،مسجدیں بھی بھری رہتی ہیں، مگر جیسے جیسے دن آگے بڑھتے جاتے ہیں، زندگی پرانے ڈھرے پر لوٹنے لگتی ہے۔ یہ بہت ہی خسارے کی بات ہے۔ اﷲ تو چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کی ساری خطائیں معاف کر دے ، اس پر رحمت و مغفرت کی عنایت فرمادے اور اس کو جہنم سے نجات دلادے ،مگر بندہ ہے کہ اس کے در پر جاکر لوٹ آتا ہے اورفرار سے باز نہیں آتا۔ دعا کیجئے اور کوشش بھی کیجئے کہ اﷲ ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل فرمالے جو اس موسم بہار کے ہرلمحہ کا فیض اٹھاتے ہیں اورہماری آئندہ کی زندگی بھی تقویٰ کی زندگی بنے۔ آمین۔

انٹونی کا فاسد دعوا
حالیہ پارلیمانی چناؤ میں شرمناک شکست سے دل برداشتہ کانگریس کے سینئررہنما اے کے انٹونی نے فرمایا ہے کہ’’اقلیتوں اور ان کی تنظیموں سے بہت زیادہ قربت کی وجہ سے عوام کے بعض طبقات (مراد ہندو) کانگریس سے دورہوگئے۔ کانگریس کی (مسلم اور عیسائی) اقلیتوں سے بہت زیادہ قربت کی وجہ سے اس کا سیکولرکردار مشتبہ ہوگیا۔عام تاثر یہ ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ بہت زیادہ مراعات برتی جارہی ہیں ‘‘۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کیرالہ کی اقلیتیں منظم ہوکر دباؤ ڈالتی ہیں اور حکومت ان کے سامنے جھک جاتی ہے۔ ان کا مشورہ یہ ہے آئندہ سرکار اپنی روش بدل لے یعنی ان کے جائزمطالبات بھی کوقبول نہ کرے۔
مسٹرانٹونی کا یہ بیان پارٹی کے اندر اور باہر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے رکن انل شاستری نے ان کے دعوے کو رد کرتے ہوئے یاد دلایا ہے اندرا گاندھی کے بعد گزشتہ 30 سال میں کسی ریاست میں کانگریس نے کوئی مسلم وزیراعلا نہیں دیا۔ آخری بار اندرا گاندھی نے مہاراشٹرا میں عبدالرحمٰن انتولے، بہار میں عبدالغفور، آسام میں انورہ تیمور اور راجستھان میں برکت اﷲ خان کو وزیراعلا بنایا تھا۔ 2009کے چناؤ میں پارلیمنٹ میں منتخب 28میں یوپی اے کے 12مسلم ممبران میں سے کسی کو کابینہ درجہ کے وزیرنہیں بنایا گیا۔ صرف (نام کے) ایک مسلما ن کو بطور وزیر مملکت شامل کیا گیا۔ مسٹر شاستری نے سوال کیا کہ کیا اسی کا نام منھ بھرائی ہے؟

کانگریس کی اقلیت فراموشی کا ایک پہلو تویہ ہے جس کی طرف مسٹرشاستری نے اشارہ کیا۔ دوسری حقیقت وہ ہے جو سچرکمیٹی کی رپورٹ سے آشکارا ہوتی ہے۔ کانگریس نے اپنے دوراقتدار میں اس اقلیت کو پستی کے سب سے گہرے غار میں دھکیل دیا۔یہ رپورٹ مسلم اقلیت کے ساتھ کانگریس حکمومتوں کی متعصبانہ پالیسیوں کی تصدیق کرتی ہے۔اس کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں ہے جس کا ثبوت حالیہ جاٹ رزرویشن ہے۔1950 میں جب کانگریس سرکار نے ایس سی اور ایس ٹی کو ریزرویشن دیا تو’مذہب کی بنیاد پر عدم تفریق کے بنیادی آئینی اصول ‘ کودھتا بتاتے ہوئے دیگر غیر ہندو ایس ایس ایس ٹی کو اس سے محروم رکھا۔ بعد کی سرکاروں نے سکھوں اور بودھوں کو تو اس میں شامل کرلیا مگر مسلم ایس سی ؍ایس ٹی آج تک شامل نہیں کئے گئے۔ سپریم کورٹ نے یوپی اے سرکار سے وضاحت طلب کیمگر تین سال گزرجانے کے باوجود کوئی جواب دئے بغیر اقتدار سے رخصت ہوگئی۔ کانگریس کی مسلم اقلیت کے ساتھ یہ تفریقی پالیسی بدستور جاری ہے۔ چنانچہ جاتے جاتے یو پی اے سرکارنے جاٹوں کو جوریزروشن دیا ہے اس میں بھی مسلم جاٹوں کوالگ کردیا ہے۔ مسلم اقلیت کے ساتھ فسادات، دہشت گردی کے الزام میں گرفتاریوں جیسی لاتعداد زیادتیاں ہیں ،جو سب پرآشکارا ہیں۔ مسلم اقلیت کے ساتھ کانگریس کا معاملہ ظلم ، زیادتی اور حق تلفی کا رہا ہے، نا کہ’بہت زیادہ قربت اور مراعات کا‘ مسٹرانٹونی کے بیان پر میڈیا میں خوب بحث ہورہی ہے۔مگر اس میں یہ اصل حقیقت آشکارا نہیں ہورہی ہے۔

انٹونی کا یہ کہنا تودرست ہے کہ کانگریس کا سیکولر کردار عوام کی نگاہوں میں مشکوک ہو چکا ہے، مگراس کی وجہ اقلیت نوازی نہیں، بلکہ اس نظریہ کے تئیں وفادار نہ رہنا ہے۔ اس کی زبان پر تو سیکولرزم رہا مگر عملاً اس نے اقلیتوں کے ساتھ دھوکہ کیا اور ان کو ان کی جائز حصہ داری سے بھی محروم رکھا۔وہ صرف سیکولر زم کا نعرہ لگاتی رہیمگراس کے تقاضوں کوپورا نہیں کیا۔ جو وعدے کئے بھلا دئے گئے۔ اگر کانگریس عملاً سیکولرزم پر قائم رہتی تو کم از کم اقلیتی فرقے اس سے دور نہ ہوتے۔

اکثریتی فرقہ کے اس سے دورہوجانے کے دیگر کئی اسباب ہیں۔مثلاپارٹی کی کمان ناتجربہ کار ہاتھوں میں دیدینا، اور اس کا اس جارحانہ انتخابی مہم کے مقابلے میں پست پڑجانا جو آر ایس ایس اور مودی نے یو پی اے کے خلاف چلائی ۔ حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی، مہنگائی اور بے روزگاری کے موضوعات کو اتنا اچھا لا گیا کہ عوام کا رخ کانگریس کی طرف سے پھرگیا اور سیکولر و غیر سیکولر کے بحث بے معنی ہوکر رہ گئی۔
خلا میں جست اور سارک

ہمارے خلائی سائنسدانوں نے ایک اور کارنامہ انجام دیا ہے۔ 30جو ن کو انہوں نے غیرممالک کے چار سیاروں کو، جن میں ایک کا وزن 714کلوگرام ہے، کامیابی کے ساتھ مدار میں پہنچادیا۔یہ ایک لائق فخرکارنامہ ہے۔ دلی مبارکباد۔

اس موقع پر وزیراعظم نے سارک ممالک کے لئے ایک مخصوص سیارہ قائم کئے جانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ امید ہے اس سے سارک ممالک کے ساتھ رشتوں کو مضبوطی ملے گی۔ اسی دوران افغانستان کے باشندوں کے لئے ویزا ضابطوں میں نرمی کا اہم اقدام بھی ہوا ہے۔ یہ ضابطے فوری طور سے نافذ ہوگئے ۔ وزیرخارجہ سشماسوراج کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران یہ بات پھرابھر کرآئی ہے کہ بنگلہ دیشیوں کے لئے ویزا کے ضابطے نرم کئے جائیں تاکہ غیرقانونی طور سے آنے جانے کی حوصلہ شکنی ہو۔ یوپی اے کے دور میں پاکستان کے لئے بھی ویزا کے کچھ آسان ضابطوں کامعاہدہہوا تھا مگر عین نفاذ کے وقت اس میں رخنہ پڑگیا۔ اس معاہدے کا بھی نفاذ ہوجانا چاہئے۔

عوام کے لئے تحفہ
جس دم وزیراعظم سارک ممالک کے لئے خلائی سیارے کے تحفہ کا اعلان کررہے تھے یہ خبر بھی آرہی تھی کہ پٹرول اورڈیزل کے دام بڑھادئے گئے ہیں۔ گویا مہنگائی کی مار اور بڑھے گی۔ گیس سلنڈر بھی تقریبا سترہ روپیہ مہنگا کردیا گیا ہے۔کھانے پینے کی اشیاء میں گرانی کے لئے حکومت جمع خوروں اورمنافع خوروں کو کوس رہی ہے، حالانکہ عام قاعدہ یہ ہے جب گرانی کے آثار ہوں تو عام صارف بھی چاردن کے بجائے آٹھ دن کا راشن خریدکر گھر میں رکھ لیتا ہے۔ یہی دوکاندار بھی کرتے ہیں۔ ہمارا ملک لکشمی جی کے پجاریوں کا ملک ہے۔ منافع کس کو برا لگتا ہے؟ہم تو مزار پر یا بھگوان کی مورتی پرچارآنے کا پرساد چڑھاتے ہیں اور چارلاکھ کا نفع مانگتے ہیں۔ ایک روپیہ کی چیز دو میں فروخت ہوسکتی ہو کم میں کیوں بیچیں؟
حکومت خود اناج کا بھنڈار جمع کرکے اور اس کو بازار میں نہ ڈال کر یہی کررہی ہے۔ اس وقت دوسال کی ضرورت سے زیادہ اناج سرکاری گوداموں میں پڑا خراب ہورہا ہے۔ اگر بازار میں ڈالدیا جائے تو ساری مہنگائی دو دن میں کافور ہوجائے۔مگر قیمتوں کو اونچی سطح پر برقرار رکھنے کے لئے ایسا نہیں کیا جاتا۔
نیا ملک

عراق اور شام میں برسرجنگ فوجی رضاکاروں نے شام اور عراق میں اپنے مقبوضہ علاقوں میں آزاد اور خودمختار حکومت’دولت اسلامیہ ‘ کے قیام کا اعلان کردیا ہے جس کے رہنما ابوبکرالبغدادی ہیں۔ اسی کے ساتھ لگتا ہے کہ عراق کی باقاعدہ تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امریکا کے کٹھ پتلی نوری المالکی کی نااہل سرکار کو ’شیعہ سرکار‘کہہ کر اس خانہ جنگی کو شیعہ سنی لڑائی قراردیا جارہا ہے اور اس بہانے سے ملت میں تفرقہ پھیلایا جارہا ہے۔ اس میں ہمارے ملک کے بعض جذبانی لیڈر بھی پیش پیش ہیں۔ایسے وقت میں جب کہ جان کو خطرے کی وجہ سے عراق سے ہندستانیوں کو نکالا جا رہا ہے، یہاں سے ہمارے سادہ لوح شیعہ نوجوانوں کو بھرتی کرکے موت کے منھ میں دھکیلنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ یہ تحریک ہوشمندی سے خارج ہے۔جس طاقت کا مقابلہ عراقی فوج کرنے میں ناکام ہے، اس کا مقابلہ ہمارے ناتجربہ کار نوجوان کیسے کریں گے؟ چند نادانوں کے ورغلانے میں آکر جو لوگ وہاں جاکر ناگہانی لقمہ اجل بنیں گے ،ان کے لواحقین کی یہاں فکرکون کریگا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ عراق کا داخلی معاملہ ہے۔ کسی حکومت یا کسی فرقہ کو چاہے، وہ شیعہ ہو یا سنی کسی فریق کے حق میں یا مخالفت میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں ہے۔

51سال بعد نماز
بحیرہ روم کے جزیرہ قبرص کی راجدھانی نکوسیا میں گزشتہ ماہ ایک چھوٹی سے مسجد 51سال کے بعد پھر کھل گئی۔اسی لاکھ کی آبادی والا یہ ملک 300سال تک سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا اور ہر طرح امن و امان رہا۔ مگر جب سلطنت کمزور ہوئی تو اس پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا ۔سنہ 1963ء میں آزادی ملی مگر نسلی و مذہبی بنیادوں پر خانہ جنگی کی بدولت ملک سنہ 1974ء میں دوحصوں میں تقسیم ہو گیا۔ شمالی حصہ میں ترک قبرصی برسراقتدار ہیں ، اور جنوب میں یونانی قبرصی طبقہ کا قبضہ ہے جو اکثر آرتھوڈوکس عیسائی ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے ملک کو متحد کرنے کی جوسیاسی کوششیں ہوئیں وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ البتہ سنہ 2009ء میں سویڈن نے دونوں طرف کے مذہبی لیڈروں میں مکالمہ کاسلسلہ شروع کرایا ۔ جس کے نتیجہ میں دونوں حصوں کے تمام مذہبی مقامات کی بحالی کا راستہ ہموار ہوگیا۔مشترکہ کوششوں سے بہت سی عبادتگاہوں کی مرمت کرائی گئی۔ شمالی حصہ میں اپریل کے وسط میں بعض عیسائی عبادت گاہوں کو کھول دیا گیا ۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور 4جون کوسلطنت عثمانیہ کے دور کی تعمیر شدہ ’مسجد تحت قلعہ‘ ایک مختصر مگر باوقار تقریب میں کھول دی گئی۔

ترک قبرض کے مفتی اعظم طالب عطاعلی نے 51سال کے بعد اس میں پہلی نماز کی امامت کی۔اس موقع پر سویڈن کے سفیر نے اعتراف کیا کہ اسلام فرقہ ورانہ ہم اہنگی اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ عیسائی پادری سواس نے جو آرک پشپ کے معاون ہیں، کہا کہ مذہبی رہنما ہی دنیا کوامن کی راہ دکھا سکتے ہیں۔مفتی علی نے اس کو ایک تاریخی موقع قراردیا اور امیدظاہر کی اس سے دنیا میں ایک اچھا پیغام جائیگا۔ اس مفاہمتی اقدام سے پورے ملک میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا ماحول بنا ہے ۔

اسی ماہ ایک اہم واقعہ سویڈن کی راجدھانی کوپن ہیگن میں ایک بڑی مسجد کے افتتاح کا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں کے ایک اخبار نے اہانت آمیز کارٹون شائع کئے تھے۔ اس کا ذکر اگلے ہفتہ قدرے تفصیل سے کیا جائیگا۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.