آخر کوئی تو بتائے کہ غریب کا قصور کیا ہے؟

میں بھی اِس ملک کی اکثریت سے تعلق رکھنے والا ایک بے حس شہری ہی ہوں جو ہمیشہ صرف خود کی سوچتا ہے۔ یہاں لوگ زندگی کیسے گزار رہے ہیں،اُن کو کن مشکلات کا سامنا ہے ؟ کیا وہ دو وقت کی روٹی کما کر کھاپارہے ہیں یا پھر سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں؟ اِس بات سے مجھے کیا لینا دینا؟ مجھے توبس اِسی بات کا خیال رہتا ہے کہ میرے پاس میری ضروریات زندگی کا سامان تو موجود ہے نہ اور اگر کچھ کمی ہے تو فوراً سے حاصل کرلی جائے۔

قدرت کا ایک کمال ہے کہ وہ طاقت جیسی قیمتی شہ سے ہر کسی کو نہیں نوازتا اور اِن خوش نصیبوں میں سے بھی کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو قدرت کی جانب سے حاصل ہونے والی اِس طاقت کو صحیح طرح استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ اکثر یت تو ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھنے اور اپنی طاقت کو دوام بخشنے میں مگن رہتی ہے۔

بات کچھ اور کرنی تھی لیکن نالائقی کی وجہ سے کسی اور ہی طرف نکل گئی۔منگل کی دوپہر ٹی وی پر دیکھا کہ شہرِ کراچی کچھ ہی منٹوں میں مکمل طور پر بند ہوگیا ۔ اِس خبر کو دیکھنے کے بعد میں نے فوری طور پرسوچا کہ موٹرسائیکل میں پیٹرول ہے یا نہیں پھر مجھے خیال آیا کہ ہاں کل ہی تو میں نے ڈلوایا ہے تو اب ہفتہ بھر بھی شہر بند رہے تو میں آفس آ اور واپس گھر جا سکتا ہوں۔ اِس کے فوری بعد گھر والوں کو فون کرکے کہا کہ شہر بند ہورہا ہے تو گھر میں رہا جائے اور اگر کچھ سامان کی ضرورت ہے تو فوری طور پر جمع کرلیا جائے۔ بس اِس کاموں سے فارغ ہونے کے بعد آفس میں روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔لیکن بازی تو اُس وقت پلٹی جب آفس سے واپسی پر موٹرسائیکل میں پیٹرول ہونے کے باوجود میں بیچ سڑک پر بے یارومددگار مشکل میں پھنس گیا۔ہوا کچھ یوں کہ دورانِ سفر میری موٹرسائیکل کا ٹائر پنکچر ہوگیا ۔ اِس حادثے کے بعد اِدھر اُدھر نظریں گھمائیں لیکن جہاں دیکھوں وہاں سنٹا ہی سنٹا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد خیال آیا کہ پنکچربنوانا تو ممکن نہیں اِس لیے کسی طرح موٹرسائیکل کو گھر تک پہنچایا جانا چاہیے اور پھر میری نظر ایک رکشہ پر پڑی ۔ میں جانتا تھا کہ ضرورت انسان کو بے بس ہی بنا دیتی ہے اِس لیے جانتا تھا کہ یہ منہ مانگے پیسے مانگے گا اور وہی ہوا ۔ تھوڑے سے راستے کے لیے اپنی مرضی کے پیسے مانگے ۔ اب ظاہر ہے میں مجبور تھا ۔ اُس نے جتنے پیسے کا مطالبہ کیا مجبوراً مجھے اُتنے ہی دینے پڑے اور اِس طرح مجھے اپنی ہٹی کٹی اور صحت مند موٹرسائیکل کو بیماروں کی طرح رکشہ میں گھر تک لانا پڑا۔

کہا جاتا ہے کہ کچھ واقعات آپکو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی کچھ اِس واقعہ کے بعد میرے ساتھ بھی ہوا۔ میں نے سوچا کہ میری تو لگی بندھی نوکری ہے۔ شہر کھلے یا بند ہو مجھے اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آفس آگیا تو ٹھیک اور اگر نہیں بھی آسکا تو کیا ہوا میری چھٹیاں بنتی ہیں سو وہ میں ایڈجسٹ کروالوں گا اور اِس لحاظ میں اگلے مہینے میرے اکاونٹ میں پوری تنخواہ آجائے گی۔ لیکن جو لوگ کاروبار کرتے ہیں یا پھر روز کی دیہاڑی والے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ آخر کس طرح اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہونگے؟ جو لوگ مالدار ہیں یا پھر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو گھر میں اشیا ضرورت کو جمع بھی کرسکتے ہیں لیکن روزانہ کی دیہاڑی والا تو یہ بھی نہیں کرسکتا ۔ کیا کوئی ہے جو اُن کے بارے میں بھی سوچتا ہے؟ جس حکومت کی اولین ذمہ داری عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے آخر ایسے حالات میں کہاں ہوتی ہے؟ آخر اُس کو اپنی اِس بھاری ذمہ داری کے حوالے سے اُوپر بھی جواب دینا ہے یا نہیں؟
Faisal Ahmad
About the Author: Faisal Ahmad Read More Articles by Faisal Ahmad: 2 Articles with 1233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.