یوم تکبیر اور ہمارا کردار

آج سے سولہ سال پہلے 28 مئی 1998 کو ہمارا پیارا ملک پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک بنا۔بھارت کے 5 پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چاغی کے پہاڑوں میں پاکستان نے 7 ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور ان کا غرور خاک میں ملا دیا۔پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی16ویں سالگرہ ہر سال کی طرح اس سال بھی پورے جوش وخروش سے منایا جائے گا۔ملک بھر میں حصوصی تقاریریں، سیمینارز اور کانفرنسز، جلوس اور ریلیوں کا اہتمام کیا جائے گا۔مقررین ایٹمی دھماکوں کے تناظر میں محسن ملک وقوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان اورڈاکٹر ثمر مبارک مند، ذولفقار علی بھٹو اور وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خدمات کوئی نہیں بھول سکتا اور اُس پر اتنا بحث ہوا ہے کہ ہر کوئی اس کے کارناموں سے واقف ہو چکا ہے۔میں ایک اور ایٹمی سائنسدان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کے خدمات اور کارنامے بھی بھولنے کی قابل نہیں ہیں۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی ان سائنسدانوں میں سے ایک ہے جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند17 ستمبر 1942کوراولپنڈی، برطانوی انڈین سلطنت (موجودہ راولپنڈی، پاکستان)میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے 1962میں جوہری طبعیات میں ایم ایس سی کی ڈگری لی۔اکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔1966 میں پاکستان لوٹنے کے بعد انہیں حکومت کی طرف سے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں تعینات کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ 28 مئی 1998 کو پانچ ایٹمی دھماکے کرنے سے پاکستان، بھارت کے برابر آگیا۔پھر 30 مئی1998 کو ایک اور دھماکہ کرکے اس میدان میں آگے آگیا۔ان کا کہنا ہے کہ دفاعی کمیٹی کے اجلاس سے ایک روز قبل نواز شریف صاحب نے مجھ سے علیحدہ ملاقات کی اور پوچھنے لگا کہ اگر اﷲ نہ کرے دھماکے ناکام ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟؟؟پھر نواز نے خود اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی صورت میں پاکستان کیلئے ایک تکلیف دہ صورتحال ہوگا۔ڈاکٹر ثمر کہتے ہیں کہ میں نے نواز سے کہا کہ دھماکے کامیاب بنانے کی 100 فیصد کوشش کریں گے تاہم نتائج اﷲ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ہر شخص کو اس کی کامیابی کیلئے دُعا کرنی چاہئے۔ڈاکٹر ثمر مزید کہتے ہیں کہ28 مئی 1998 میری زندگی کا بہت اہم دن تھا۔جب میں نے متعلقہ انجینیروں سے کہا کہ وہ دھماکے کیلئے کمپیوٹر کا بٹن دبا دیں۔ہر شخص عملی طور پر دھماکہ ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔اس وقت سہ پہر کے 3:15 تھے ۔ جب 5 سیکنڈتک کچھ نہ ہوا توہر شخص پریشان تھا۔یہ 5 سیکنڈ میری زندگی کا سب سے لمبا عر صہ تھا۔5 سیکنڈ بعد جب دھماکہ ہوا تو ہر شخص خوش تھا اور اﷲ اکبر کے نعرے لگا رہا تھا۔اسی دن سے پاکستان سات ایٹمی طاقتوں کے صف میں آگیا۔۔۔۔۔

ان دھماکوں کے بعد پاکستان کو بھارت یا کسی اوردشمن ملک سے کوئی خطرہ نہیں رہا۔اب پاکستان کو صرف اندر کی بد امنی، افراتفری، فرقہ واریت، پارٹی بازی اور سب سے ذیادہ کرپشن سے خطرہ ہے۔یہ مسائل کون اور کیسے حل ہوسکتے ہیں؟؟ شائد اس سوال کا جواب ہر اس شخص کے پاس ہوگا جو تھوڑا بہت عقل رکھتا ہو۔یہ مسائل ہم اور ہمارے سیاستدانان صاحبان حل کر سکتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم عوام پارٹی بازی میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کا کوئی خیال ہی نہیں آتا اور ہمارے سیاستدانان صاحبان ایک دوسروں پر تنقید اور توتو میں میں ، میں اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ انہیں بھی پاکستان اور عوام کا کوئی پاس نہیں۔اگر پاکستان کے مسائل کو حل کرنا اور اسے بد امنی،افراتفری، فرقہ واریت اور کرپشن سے نکالنا ہے تو ہمیں اور ہمارے سیاستدانوں کو اپنی پارٹی اور کرسی سے بالاتر سوچنا ہوگا۔ایک دوسرے پر انگلیاں اُٹھانے کی بجائے ایک دوسرے کی بات سُننا ہوگا۔جنگ اور جوش سے نہیں، بلکہ استقامت سے کام لینا ہوگا۔ ـسندھودیش، پختونستان، جاگ پنجابی جاگ اور عظیم بلوچستان کے نعرے نہیں بلکہ ایک پاکستان کا نعرہ بلندکرنا ہوگا۔تب ہم ایک نیا اور خوشحال پاکستان پا سکتے ہیں۔اﷲ تعالی ہمارے پیارے ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین