تہذیبوں کا تصادم

پاکستانیوں اور عامۃ المسلین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیامیں سیاسی، تعلیمی، انتظامی، رفاہی، تجارتی، سماجی،اقتصادی،انقلابی،جنگی ،دفاعی، معاشی، معاشرتی،ثقافتی،ابلاغی،تہذیبی ،تمدنی، فکری، نظریاتی، مذہبی، جغرافیائی،تخلیقی ،ٹیکنیکلی اور علاقائی وبین الاقوامی تعلقاتی و اتحاداتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،پورا عالم گلوبلائزیشن ،بین الاقوامیت اور عالم گیریت کی طرف طوعاََوکرہاََگامزن ہے،جس کو مذکورہ تمام میادین میں ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے،اس گلوبل دور میں پاکستانی یادیگرمسلم قومیں تنِ تنہااگربڑی اوراستعماری اقوام کے ساتھ دوڑ میں شریک رہیں،تو سبقت وترقی کے بجائے ایک مرتبہ پھر طویل مدت تک کے لئے تخلف ،دقیانوسیت،رجعت پسندی اور غلامی کی شکار ہوجائنگی، چنانچہ وہ مسلمان جن کا پروردگار’’رب العالمین‘‘،پیغمبر’’رحمۃ للعالمین‘‘،کتاب’’نذیرللعالمین‘‘اور مذہب ’’دستورللعالمین‘‘ہے، انہیں ہمہ گیراسلامی تہذیب وتمدن اورعالمی عربی زبان وادب کو اپناکردوڑکے میدان میں آنا چاہئے،تاکہ استقلال،استقامت ،مضبوطی اورتندہی سے مسلح ہوکروہ یہ دوڑ جیت سکیں۔

افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمارے یہاں بزعمِ خویش ترقی پسند کہلانی والی مخصوص فکرو نظر کی حامل’’ مائنڈسیٹ ‘‘قوم پرست،لسانیت پسند یانام نہادجدت وجدیدیت کی داعی مذہب پیشہ جماعیتں،پارٹیاں ،تنظیمیں اور شخصیات جتنی بھی ہیں ،سب اغیار کی ایجنٹ،تنگ نظر،کم ظرف، رجعت پسند ،دقیانوس ،نادان ، دھوکہ باز،سطحی ،کوڑمغز،جاہل اور تاریک و اندھیری راہوں کے مسافر ہیں، یہی لوگ اعتدال، وسطیت ،ترقی،روشن خیالی اورجدت وجدیدیت کے سب سے بڑے دشمن اور کٹرمخالف ہیں،اہلِ انصاف واہل ِنظر کے یہاں کسی بھی حوالے سے وہ ترقی پسند کہلانے کے مستحق نہیں ہیں،بس ’’خرد کا نام جنوں رکھدیا،جنوں کاخرد‘‘ کے مصداق یہ لوگ احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں، ان کے نام ، نعرے ،نظریاتی قبلے،جھنڈے اور منشور بظاہر مختلف ہیں،لیکن حقیقت میں یہ آستین کے رنگ برنگ سانپ ایک ہی کھوٹے سکے کے کئی رخ ہیں۔

پروفیسر ہن ٹنگٹن کی شہرۂ آفاق کتاب’’تہذیبوں کا تصادم، the clash of civilization‘‘پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں،گلوبلائزیشن میں گرم اور سردجنگ سے ز یادہ تہذیبوں کی جنگ ہے ،اور رہیگی،ہر مذہب کی اپنی تہذیب ،دستوراور زبان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا،اسلام کی تہذیب انسانی مصالح کے اصولوں پر استوار ہے، اور زبان اس کی عربی ہے۔

نیاز سواتی لکھتے ہیں:’’تہذیب کے ضمن میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ کچھ لوگ تہذیب اور تہذیب کے مظاہر میں فرق نہیں سمجھتے اور تہذیبوں کے مظاہر مثلا رسم ،رواج ،لباس اور رہن سہن کے معاملات کے فرق کو تہذیبی اختلاف قرار دیتے ہیں ۔یہ لوگ تہذیبی اختلاف کو شلوار یا پینٹ اور میز یا دستر خوان کے اختلاف سے پہچانتے ہیں ،مگر یہ ایک سطحی موازنہ ہے ۔ یہ سب تہذیب کے مظاہر اور تفصیلات ہیں ، تہذیب کی بنیاد اس کے چند اساسی نظریات ہواکرتے ہیں ،تہذیب اپنے تصور کائنات (world view)اور تصور خالق اور تصور انسان سے پہچانی جاتی ہے ،یہ تصورات اور ان پر مشتمل تہذیب ،ایک سکے کے دورخ ہیں ، عقیدہ جب فکر وعمل میں ڈھلتاہے تو چند مظاہر سامنے آتے ہیں ،یہی مظاہر ’’تہذیب ‘‘ کہلاتے ہیں ،عقائد کی درستی یا خرابی کا اندازہ تہذیبی مظاہر سے ہوتاہے ، اس لئے تہذیب ایک اعتبار سے عقائد کا اظہار ہے اور عقائد تہذیب کاباطن ہیں ،عقائد اور تہذیب میں بیج اور درخت کا تعلق ہے ،تہذیب اپنے بنیادی عقائد اور ان کے مظاہر پرمشتمل ہوتی ہے ۔

خالق کائنات ، کائنات ، انسان اور علم کے بارے میں مختلف نظریات وعقائد تہذیبی اختلاف کا باعث بنتے ہیں ، اس وقت دنیا میں سیکولر مغربی تہذیب ، اسلامی تہذیب ،ہندو تہذیب ،عیسائی تہذیب ، چینی تہذیب ، اور بدھ تہذیب سمیت کئی بڑی بڑی تہذیبیں موجود ہیں ، اسلامی تہذیب کے علاوہ دیگر تمام تہذیبیں اپنی مخصوص ترکیب کی بناء پر سیکولر مغربی تہذیب سے مفاہمت اور تعاون کی راہ اپناچکی ہیں ، عیسائیت چند صدی پیشتر ابتدائی تصادم کے بعد ہار مان چکی ہے ، ہندو تہذیب بوجوہ ایک مکمل نظام زندگی دینے کی صلاحیت سے معذور ہے ،اس پر مستزاد یہ کہ ہندو اپنی تہذیبی اقدار پر اصرار کے بجائے مغربی اقدار کو اپنا نے میں سبقت لے جانے میں مصروف ہیں ، بدھ تہذیب کو نظام زندگی سے کوئی سروکار نہیں ، البتہ چینی تہذیب میں موجد تاؤازم اور کنفیوشس ازم کی بنیاد پر کہاجاتاہے کہ ان تہذیبوں کے بنیاد پر آئندہ چین او رمغرب میں ٹکراؤ ہوگا ، مگریہ ممکنہ ٹکراؤ محض مادی مفادات کی جنگ ہوگا جس کا تہذیبی اختلاف سے کوئی تعلق نہ ہوگا، خود تاؤازم اور کنفیوشس ازم چند اخلاقی تعلیمات کا مجموعہ ہیں ،اس وقت ہم جس تہذیبی تصادم کا مشاہدہ کررہے ہیں وہ صرف مغربی سیکولر تہذیب اور اسلامی تہذیب کے درمیان ہے ، مگر ایسا کیوں ہے ؟ سیکولر جدید مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مفاہمت کیونکر ممکن ہے، یا بالکل ممکن نہیں ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ‘‘۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 826409 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More