اسلام میں عورت کا مقام و کردار

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

اسلام معاشرے کی فلاح و بہبود کا داعی ہے اور تکمیل انسانیت کا علمبردار ہے ،عورت تمدن انسانی کا مرکز و محور اور باغ انسانیت کی زینت ہے۔اسلام نے عورت کو باوقار طریقے سے تما م معاشرتی حقوق اور مراتب عطا کئے جس کی وہ مستحق ہے۔اس صنف نازک کو گھر کی ملکہ قرار دے کر ان تمام مصنوعی ظالمانہ ضابطوں کو ہمشہ کے لیے مٹا دیا ، دیگر تہذیبوں اور قوموں کے برعکس عورت کو اپنا ذاتی مال اور ملکیت رکھنے کا حق عطا کیا،عورت کو نجس اور ناپا ک نہیں بلکہ معاشرے کی قابل احترام ہستی قرار دیاالغرض اسلام نے عورت کے وہ تمام حقوق بحال کیئے جو اقوام عالم نے معطل کر دیئے تھے۔

خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں عورت کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے یعنی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی مگر جب اسلام آیا اور اﷲ تعالی نے عورتوں کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم پر عورتوں کا بھی کوئی حق ہو سکتا ہے۔(بخاری ۔کتاب اللباس ) محسن انسانیت حضرت محمد ﷺنے عورت کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے پر اس قدر ابھارا کہ اس کو ایمان جیسی اعلٰی ترین صفت کا جز قرار دیاکہ ایمان کے اعتبار کامل ترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والے ہوں ۔(ترمذی)پیغمبر اسلا م ﷺنے نیک سیرت بیوی کو سب سے بہترین سرمایہ قرار دیا ۔(مسند احمد ۔168/2)
عورت بیٹی ہو یا بہن ہر دو کی پرورش او ر تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے والے کو جنت میں پیغمبر ﷺ کاساتھ نصیب ہونے کی بشارت عورت کے مقام کو واضح کرتی ہے۔حدیث پاک میں ہے جس کی تین بیٹیا ں یا بہنیں ہوں اور وہ اﷲ سے ڈرے اور ان کی کفالت کرے وہ میرے ساتھ اس طرح رہے گا یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنی چار انگلیاں دکھائیں (کہ جس طرح ہاتھ کی انگلیاں قریب قریب ہیں اس طرح یہ شخص بھی جنت میں بالکل قریب ہوگا۔(بخاری۔162/1)اسلام سے قبل مہذ ب اور غیر مہذب دونوں معاشروں کے ظلم کی چکی میں پسی جانے والی عورت کو اسلام نے ماں جیسی عظمت ،بہن جیسی عزت،بیوی جیسی عصمت اور بیٹی جیسی رحمت قرار دیاہے،یہی وجہ ہے کہ جب عورت کو معاشرے میں عزت، عظمت اور مقام ملا توعورت نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے نہ صرف نمایاں کردار ادا کیا بلکہ عصمت و عظمت نسواں کی گواہی وحی الہی کے ذریعے ہمشہ ہمشہ کے لیے امر ہوگئی۔

اسلامی تعلیمات او ر رسول اﷲ ﷺ کے اخلاق،اعمال اور سنن جو ہم تک پہنچی ہیں ،جہاں صاحب شریعت سے ان احکام اسلام کو ہم تک پہنچانے میں مردوں کا بھر پور کردار ادا کیا اور صحابہ نے دین محمدی کو بعد کی امت تک پہنچانے کا بہت اہتمام کیا، اس ابلاغ علوم و معارف میں عورتوں کے کردار کوبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔موجودہ احادیث مقدسہ کے ذخیرہ میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے دو ہزار دو سو دس ، حضرت ام سلمہ ؓ (ہند بنت امیہ )کی روایت سے تین سو اٹھتر ، حضرت میمونہ بنت الحارثؓ کی روایت سے چہتر ،حضرت ام حبیبہ ؓ (رملہ بنت ابوسفیان)کی روایت سے پینسٹھ،حضرت زینب بنت جحش ؓ کی روایت سے گیارہ،حضرت صفیہ بنت حیی ؓکی روایت سے دس، حضرت جویریہ ؓ کی روایت سے سات، حضرت سودہؓ کی روایت سے پانچ، حضرت حفضہؓ کی روایت سے ساٹھ،حضرت ماریہ قبطیہؓ کی روایت سے دو اور حضرت خدیجہ ؓکی روایت سے ایک حدیث موجود ہے۔آپ ﷺ کی بنات طاہرات میں سے حضرت فاطمہ ؓکی روایت سے اٹھارہ،اور حضرت زینبؓ اور ام سلمہ ؓ کی روایت سے سات سات احادیث ہم تک پہنچی ہیں۔حضرت اماں عائشہ ؓ علم وتفقہ کی اس بلندی پر تھیں جہاں سے صحابہ کرامؓ اپنے علم کی پیاس بجھایا کرتے تھے۔ ازواج و بنات رسول کریم ﷺ کی خواتین سمیت دیگر صحابیات نے بڑے ہی احسن انداز میں شریعت کی حفاظت کی اور احکام شریعت کو اپنے قلوب میں محفوظ کرکے دوسروں تک پوری امانت داری کے پہنچایا۔

مسلمان خواتین نے مجاہدین کے شانہ بشانہ میدان جہاد میں عہد ساز کردار ادا کیا ،قرون اولی میں بنت حوا نے اپنی صلاحیتوں اور دلیری کے ان گنت کارنامے سرانجام دیئے جن کو دیکھ اور سن کر دیگر اقوام عالم ششدراور حیراں رہ جاتی ہیں ۔حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کی میدان أحد میں حضرت عائشہ ؓوام سلمہ ؓمشکیزے بھر بھر کر لاتیں اور زخمیوں کو پلاتیں تھیں۔(بخاری)۔

اٹھاون سالہ حضرت صفیہ ؓ جو نبی کر یم ﷺ کی پھوپھی اور حضرت حمزہؓ کی حقیقی بہن تھیں أحد کی لڑائی میں شریک ہوئیں اور جب مسلمانوں کو کچھ شکست ہوئی اور مسلمان بکھرنے لگے تو آپؓ برچھا ان کے منہ پر مار مار کر واپس کرتی تھیں۔غزوہ خندق میں رسول اﷲ ﷺ نے سب مستورات کو قلعہ بند کر کے حضرت حسان بن ثابت کو بطور محافظ کے چھوڑ دیا تھا،یہود کے لیے یہ موقع بہت غنیمت تھا کیونکہ وہ اندونی دشمن تھے، یہود کی ایک جماعت نے عورتوں پرحملہ کا ارادہ کیا اور ایک یہودی حالات معلوم کرنے کے لیے قلعہ پر پہنچا۔حضرت صفیہ نے اس کو دیکھ لیا،آپ نے حضرت حسان سے کہا کہ یہ یہودی موقع دیکھنے آیا ہے تم قلعہ سے باہر نکلو اور اس کو مار ڈالو، حضرت حسان ضعف کی وجہ سے نہ جا سکے۔حضرت صفیہ ؓ نے خیمہ کا کھونٹا اپنے ہاتھ میں لیا او ر اس یہودی کا سر کچل ڈالا،یہودی کا سر کاٹ کر قلعہ کی دیوار سے یہودیو ں کے مجمعہ میں پھینک دیا جس پر یہودی کہنے لگے ہم تو پہلے ہی سمجھتے تھے کہ محمدﷺعورتوں کو بلکل تنہا نہیں چھوڑ سکتے ،یہاں ضرور محافظ مرد موجود ہیں ۔(حکایات صحابہ۔154)حضرت انس ؓ فرما تے ہیں کہ حضور ﷺ جب جہاد سے جاتے تو أم سلیم اور انصار کی دیگر عورتوں کو بھی ساتھ لے کر جاتے وہ عورتیں غازیوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرحم پٹی اور دیکھ بال کرتیں ۔(مسلم شریف)حضرت أم عطیہ بنی کریم ﷺ کے ہمراہ سات غزوات میں شریک ہوئیں ۔
حضرت خنساء ؓ کا عظیم کردار اسلا می تاریخ کا قابل فخر سرمایہ ہے ، آپ کے چار بیٹے تھے جنگ قادسیہ میں انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلا کر نہایت فصیح اور مؤثر بیان کیا کہ میرے پیارے بیٹو!تم اپنے وطن سے یہاں اس لیے نہیں آئے ہو کہ وہاں معاشی بد حالی نے تمہیں تنگ کیا تھا بلکہ تم ایک بڑے مقصد جہاد کے لیے آئے ہو۔تم اس مقصد کے لیے اہنی بوڑھی ماں کو بھی لا کر فارسیوں کے سامنے میدان میں ڈال دیا ہے۔اے میرے پیارے بچو!جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو اسی طرح تم ایک ہی باپ کی اولاد ہو ، میں نے تمھارے مامؤوں کو رسوا نہیں کیا اور نہ ہی تمھارے والد سے کوئی خیانت کی ہے۔اب میدان کازار تیار ہے جب تمھارا کفار سے مقابلہ ہو تو نہایت پامردی سے لڑو یہاں تک کہ جنت الفردود کی دائمی خوشیاں نصیب ہو جائیں ،یہ دنیا فانی ہے اوراصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔دوسرے دن جب حق و باطل کا معرکہ برپا ہو ا اور جنگ کے شعلے بلند ہوئے ، حضرت خنساء کے بیٹوں نے اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدہ کو ایفاء کرتے ہوئے جام شھادت نوش کیا۔ جب ماں کو اپنے جوان سالہ بیٹوں کی شھادت کی خبر ملی تو فرمانے لگیں ،الحمدﷲ !اﷲ تعالی نے مجھے یہ شرف بخشا کہ میں چار شہیدوں کی ماں کہلائی اور اﷲ تعالی نے میرے بیٹوں کو شہادت کے لیے قبول کیا۔مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالی مجھے اور میرے بیٹوں کو جنت میں جمع فرمائیں گے۔

حضرت خولہ بنت ازورؓاسلامی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جو تاقیامت جرأت ،حمیت اور شجاعت کی تابندہ علامت رہے گا،جنگ شحوراء میں خولہ ؓ دیگر خواتین کے ساتھ کفار کے ہاتھوں قید ہو گئیں تھیں۔بطرس نے ان خواتین کو تین ہزار کے لشکر کی نگرانی میں دمشق کی طرف روانہ کیا اور خود بھی ساتھ چل پڑا۔جب نہر استریاق پر پہنچا تو لشکر کو آرام کی غرض سے پڑاؤ کا حکم دیااورعورتوں کو ایک خیمہ میں بند کر دیا۔حضرت خولہ ؓ نے عورتوں کے سامنے ایک جرأت مندانہ خطبہ دیااور ان کو اس قید سے خلاصی پر ابھارا۔ اے حمیر کی بیٹیو!اے قبیلہ تبع کی یادگارو!کیا تم اس پر راضی ہو کہ رومی کفار تمہیں لونڈیاں بنائیں؟کہاں گئی تمہاری شجاعت اور غیرت جس کے تذکرے مجلسوں میں ہوا کرتے تھے؟افسوس میں تمہیں غیرت ،شجاعت اور حمیت سے خالی پا رہی ہوں۔اس آنے والی مصیبت سے تمھاری موت بدرجہا بہتر ہے۔حضرت خولہ ؓ کی گفتگو نے مسلم خواتین میں بیداری اور ایسا جذبہ پیدا کیا کہ ان کے ہاتھوں میں آنے والی لکڑیوں میں تلوار سے زیادہ کا ٹ پیدا ہوگئی اور وہ شیر کی طرح رومیوں پر حملہ آور ہوئیں اور ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ حضرت خالد بن ولید ؓ کا لشکر نصرت خداوندی بن کر آن پہنچااور تمام خواتین کو رہائی نصیب ہوئی۔(آئینہ خواتین)

عورت جب تک اسلامی تعلیمات سے آراستہ اور عفت و عصمت کے زیور سے مزین تھی تو اس کی گود میں پلنے والے بچے حیاء اور پاکدامنی کا پیکر ہوتے تھے اورامت کے نونہالوں کوصداقت،شرافت ،شجاعت ،اوربہادری کا پہلا سبق ان کوممتا کی تربیت گاہ سے ملتا تھاگویا مسلمانوں کی عظمت اور عروج کے بنیادی اسباب میں سب سے اہم اور بڑا سبب اور محرک باصفا اور اسلامی تعلیمات کی حامل خواتین کا امت میں موجود ہونا تھا۔ موجودہ انحطاط اور انتشار کے دور میں امت کی یہ بیٹی اگر قرون اولی کی پیش رو خواتین کی زندگیوں کو مشعل بناتے ہوئے ان ہی خطوط پر امت کے سپوتوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے تو بعید نہیں کہ ہم بہت کم عرصہ میں زوال سے عروج کی طرف،انتشار سے اتحاد کی طرف،تخریب سے تعمیر کی طرف بامعنی سفر شروع کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 253886 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More