سیاست کا شوق اور شور مچانے کی سیاست

لیجئے بیٹھے بٹھائے ہمارے قائدین اور نیم قائدین کوبیان بازی کے لئے ایک نیا موضوع مل گیا۔فکراورعمل میں اسلام سے بہت دورایک خاتون کی عرضی پر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنادیا کہ ’جوینائل جسٹس(کیئر اینڈ پروٹکشن آف چائلڈ) ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص بچہ گود لے سکتاہے۔مسلم پرسنل لاء اس میں حائل نہیں ہو سکتا۔مذکورہ خاتون ایک لڑکی کوقانوناً گود لینا چاہتی تھیں، مگر دستاویز کی خانہ پوری کے دوران یہ اعتراض ہوا کہ وہ کیونکہ ’مسلمان‘ ہیں اور بچہ گود لینے کا قانون صرف ہندؤں کے لئے ہے، اس لئے وہ بچہ گود نہیں لے سکتیں، جس کے خلاف وہ عدالت میں چلی گئیں۔ فیصلے میں عدالت عالیہ نے یہ وضاحت کردی ہے کہ مذکورہ ایکٹ کے تحت بچہ گود لینا اختیاری فعل ہے،کسی پر کوئی جبر نہیں۔اس پر یہ شور اُٹھا کہ یہ تو مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے اور خیر سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اعلان بھی کردیا کہ وہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست داخل کریگا۔

مدعیہ اسی فکر و مزاج کی حامل خاتون ہیں ،جن کے لئے نظام شریعت میں کوئی کشش نہیں۔ ایسے لوگ کم نہیں جو صرف نام کے مسلمان ہیں، ان کی زندگیاں اسلام سے ناآشنا ہیں،ان کو شریعت کا نام سے وحشت ہوتی ہے اور اس کے خلاف عمل کو وہ ترقی پسندی سمجھ کر فخر کرتے ہیں۔یقینا یہ افسوسناک صورت ہے اور ہماری دلی آرزو ہے کہ اس کی اصلاح ہو۔ لیکن کیا سرکار اور عدالتوں سے یہ توقع حقیقت پسندانہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت کی پابندی پر مجبور کریں؟ ہمارے ملک میں جو قانون مروج ہے ،اس کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے عائلی قانون کی پابندی کرنا چاہتا ہے، تویہ اس کاحٖق ہے۔ لیکن انحراف کے راستے بھی کھلے ہیں، جو چاہے انحراف کرے ، اس کو روکا نہیں جائیگا، بشرطیکہ کہ وہ قومی قانون کو نہ توڑے۔ہم چاہتے ہیں کہ عدالتیں انحراف کے راستے مسدود کردیں، جو اس فلسفہ قانون میں ممکن نہیں، جو مروجہ نظام قانون کی اساس ہے۔

چنانچہ ہمارے یہاں درجنوں قانون ایسے موجود ہیں جو شرعی قانون سے متضاد ہیں۔ مثلا سول میرج ایکٹ ۔ اس قانون کے تحت بین مذہبی شادی روا ہے۔جو جوڑے اس قانون کے تحت شادی کرتے ہیں ، ان پراوران کے ورثا پر کسی پرسنل لاء کا اطلاق نہیں ہوتا۔مگر شریعت کے قانون کو پامال کرکے اس قانون کے تحت شادی کرنا ایک اختیاری فعل ہے۔ جبری نہیں۔اس کو روکنا سماج کی ذمہ داری ہے، عدالتوں کی نہیں۔ ہمارے علم میں ایسی بین مذہبی شادیاں آئی ہیں، جن سے اظہار بیزاری کے بجائے ،اچھے اچھے دین دار لوگ مبارکباد دینے پہنچ گئے۔ اس بے حسی کا ماتم کرنے کے بجائے قانون اورعدالتوں کو کوسنا کہاں تک مناسب ہے؟
ایسا ہی معاملہ شراب خوری اور زنا بالرغبت کا ہے جو شرعاً سخت گناہ اور حرام ہیں، مگر ملکی قانون کسی مسلمان کو ان گناہوں میں پڑنے سے نہیں روکتا۔یہ قوانین ہمارے عائلی قانون کے خلاف تو ہیں مگر کیونکہ ان میں جبر کو پہلو نہیں، اس لئے ان کو بھی عائلی قانون میں مداخلت نہیں کہہ سکتے۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ مسلمان خود نادانی سے شریعت کی پامالی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ان کو قانون نہیں روکے گا،بلکہ معاشرہ ہی روک سکتا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ کہ کوئی بھی شخص، چاہے کسی بھی مذہبی فرقہ کا ہو، بچہ گود لے سکتا ہے، بچہ کی کفالت سے نہیں روکتا۔ عدالت نے کفالہ کو کاالعدم نہیں کیا ہے ،جس کے تحت بچے کی کفالت کی ذمہ داری شریعت میں مباح ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے۔ اب اگر کوئی شخص مباح کوچھوڑ کر مردود راستہ اختیار کرتا ہے تو یہ معصیت اس کا ذاتی فعل ہے۔ اس پریہ شور مچانا کہ ہمارے پرسنل لاء میں مداخلت ہورہی ہے غیر ضروری ہے۔ ہاں اگر نیت یہ ہے مسلمانوں کو اس کی قباحت کا پتہ چل جائے تو بات اور ہے مگر اس کے لئے انداز بیان بدلنا ہوگا۔

لے پالک پر عدالت کے فیصلے پرجن قائدین اور نیم قائدین نے ردعمل ظاہر کیا ہے ، وہ سبھی قابل احترام ہیں۔ لیکن غور کیجئے اگر دس بیس لاکھ میں ایک آدھا کیس لے پالک کا ہوگیا اور ورثہ کی تقسیم خلاف شریعت ہوگئی تو اس پر تو اس قدر فکر مندی مگر یہ جو عام وبا پھیل گئی ہے کہ ورثہ کی تقسیم حسب ضابطہ ہوتی ہی نہیں اور لڑکیوں کووراثت میں حصہ دیا ہی نہیں جاتا، اس کی فکر کیوں نہیں ہوتی؟کیوں یہ قائدین اس کے لئے مہم نہیں چلاتے؟ایسا ہی معاملہ مطلقہ خاتون کے نان نفقہ کا ہے۔ کوئی سرکاری اہلکار یا عدالت از خود دخل نہیں دیتی۔ کوئی نہ کوئی ہماری بیٹی، بہن ہی عدالت میں جاکر مروجہ قانون کے تحت رلیف مانگتی ہے۔ ملت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطلقہ خواتین کی خبرگیری کا نظام قائم کرے تاکہ کسی خاتون کو عدالت جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ مگریہ نظام چلے کیسے؟ سب سے بڑی امداد زکوٰۃ سے آسکتی ہے، جس کوحیلہ تملیک کا آلہ استعمال کر کے ارباب ِمدارس لیجاتے ہیں۔حالانکہ تعلیم کے مد پر ملت کو الگ سے امداد فراہم کرنی چاہئے۔ یہ کیا بات ہے کہ بیاہ شادیوں کی فضول رسوم پر تولاکھوں خرچ کردیں گے اور غریب و نادار بچوں کی تعلیم کی کفالت سے جی چراتے ہیں۔ اسی طرح حلالہ کی بے حیائی ایجاد کرلی گئی ہے۔ مفتی صاحبان قانون کی ظاہری شکل پر توجہ فرماتے ہیں، اس کی روح سے سروکار نہیں رکھتے۔ حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ نباہ کی امید کے ساتھ طلاق شدہ خاتون دوسری شادی کرلے۔ لیکن اگر خدانخواستہ کوشش کے باوجود نباہ نہ ہواور یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے، تب وہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ یہ نہیں کہ چند روز کا سودا ہوجائے۔ حلالہ کایہ طریقہ شریعت کی روح کے منافی اور حرام کاری کے نفسیات کے قریب تر ہے، مگر کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا۔مسلم پرسنل لاء کے ماہر سہارنپور کے معروف وکیل انور علی حیلہ تملیک اور حلالہ کے اس طریقے کو قانون شریعت کے ساتھ فراڈ قرار دیتے ہیں۔ آج ملک اورملت کو بیشمار حقیقی مسائل درپیش ہیں۔ان کو نظر انداز کرکے ضمنی موضوعات پر سیاست کرنا اور شور مچانا سخت نادانی اور اصل معاملات سے ملت کی توجہ ہٹانے کا جرم عظیم ہے۔

معافی نہیں تلافی
بھاجپا شاید سمجھچکی ہے کہ گجرات دنگوں کا داغ اس کی دلی میں تخت نشینی کی راہ کی رکاوٹ بن ہے، چنانچہ پارٹی صدر راج ناتھ سنگھ نے پارٹی اقلیتی سیل سے خطاب کرتے ہوئے بڑی ہی عاجزی سے یہ پیش کش کی ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو وہ مسلمانوں سے معافی مانگنے کو تیار ہیں، مگر مسلمان ان کی پارٹی کو ایک موقع ضرور دیں۔اس اگر مگر سے ظاہر ہے کہ ان کوابھی یہ تسلیم نہیں کہ گجرات میں مسلمانوں کا جو قتل عام کرایا گیا، وہ کوئی’ غلطی ‘تھا اور ابھی مظفر نگر میں فساد کرانے والوں کوپارٹی نے جو اعزاز دیا تھا اس میں کچھ غلط تھا؟ ان کو اگر واقعی مسلمانوں سے اب کچھ رغبت محسوس ہورہی ہے تو معافی کی نہیں ،تلافی کی بات کرنی چاہئے۔ کم سے کم تلافی یہ ہے گجرات فسادزدگان کوبلاتاخیر ان کے گھروں میں آبادکرائیں اور نقصان کا معاوضہ دلائیں۔ مظفرنگر اور شاملی کے اجڑے ہوئے مسلمانوں کی گھرواپسی کی راہ کی وہ رکاوٹیں دور کرائیں جو اس پارٹی کے مقامی کارکن ڈال رہے ہیں۔اس کے بعد آگے کی بات ہو، اور یہ بات مسلم قیادت سے کی جائے، ان سے نہیں جو بھاجپا کے اقلیتی سیل میں جابیٹھے ہیں۔ جہاں تک موقع دیکر آزمانے کی بات ہے تو تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ یوپی میں اسی پارٹی کی سرکار کی سرپرستی میں بابری مسجد گرائی گئی اور جن ریاستوں میں اس سرکاریں ہیں ان میں مسلم آبادیچین سے نہیں ہے۔

مودی کے امریکا نوازی
امریکی سفیر محترمہ نینسی پاویل کی ملاقات کا اثر نریندر مودی پر فوراً نظرآگیا۔ چنانچہ امریکا کے وفادار فوجی کی طرح انہوں نے اروناچل پردیش جاکر چین کے خلاف مورچہ کھول دیا اور پڑوسی ملک کی نیت اور ارادوں پرناروا انداز میں حملہ بول دیا۔ یہ وہی مودی ہیں جنہوں نے نیوکلیائی معاہدہ کے موقع پرامریکا کی مخالفت میں سر آسمان پر اُٹھالیا تھا۔اُس وقت امریکا کی مخالفت اور اب چین کے خلاف ان کی زہرافشانی، دونوں قومی اور ملکی مفاد کے منافی ہیں۔ شاید ان کو یہ امید ہے کہ چین پر حملے سے امریکا خوش ہوجائیگا اور ان کو ویزا مل جائیگا۔ مودی کا موازنہ بھاجپائی اٹل بہاری باجپئی سے کررہے ہیں۔مودی چین اور پاکستان پر بے جا حملے کرکے ان سے تعلقات بگاڑنے پر لگے ہیں جبکہ ان پڑوسی ممالک سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے میں باجپئی جی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مودی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ چین اور پاکستان ہمارے پڑوسی ملک ہیں، ہم نہ تو پڑوسی بدل سکتے ہیں اور نہ پڑوسیوں سے قومی رشتوں کو خراب کرکے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کو تو سرمایہ دار اچھے لگتے ہیں، چاہے وہ ملکی سرمایہ دار ہوں یا سرمایہ دار ملک ہوں۔

بھاجپا پرسنگھ کی گرفت
آر ایس ایس نے اب بھاجپا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے پارٹی کے ضلعی اورریاستی منصبوں پر نظریاتی طور سے پختہ اور سخت گیر اپنے دوہزارسوئم سیوکوں کو بٹھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ آر ایس ایس نے پچھلی چند دہائیوں میں انتظامیہ کے ہر شعبہ میں اپنے مہرے فٹ کردئے ہیں۔ اب بھاجپا کو پوری طرح سنگھ کے قبضے کرکے وہ ملک پر پوری طرح قابض ہونے کی تیاری کررہی ہے۔ ادھر سیکولر طاقتیں منتشر ہیں۔حال یہ ہے کہ کل تک پاسوان خود کو سیکولر باور کراتے تھے، اب ان کی پارٹی بھاجپا سے ہاتھ ملانے پر آمادہ نظرآتی ہے۔ ادھرہمارا حال یہ ہے کہ ملک و ملت مستقبل کی فکر سے بے نیاز مصنوعی موضوعات پر سیاسی شور مچانے میں ایک دوسرے سے بازی مارلیجانے میں مصروف ہیں۔ اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر کھولنے کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ مشورہ ابھی سے آنے لگا ہے کہ ہمیں بھی بھاجپا اور اس کے جدید ایڈیشن عام آدمی پارٹی میں شامل ہوجانا چاہئے۔خدا خیر فرمائیں ۔

کیجریوال نے کینچلی بدلی
اروند کیجریوال نے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں مسلمانوں کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پہلی مرتبہ فرقہ پرستی پر زبان کھولی ہے اور اس کو کرپشن سے بھی بڑی خرابی تسلیم کیا ہے۔ لیکن مودی کے معاملے میں سوالوں کو وہ گول کرگئے۔ کیجریوال کے اس بیان کا تو خیرمقدم ہے، مگر دیکھنا یہ ہے ان کے قول وعمل میں کچھ مطابقت نظرآتی ہے، یا دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح یہ بھی مسلمانوں کوانتخابی فریب دینے کا حربہ ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 165187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.