انسداد فساد بل اور فساد کی سیاست

انسداد فساد بل کا جو حشر متوقع تھا وہ ہوگیا۔ملی جماعتیں ایک عرصہ سے اس قانون کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ ان کو شاید یہ گمان تھا کہ اگر انسداد فساد قانون بن گیا توفساد رک جائیں گے، ناگزیر صورتوں میں مرکزکو مداخلت کا جواز مل جائیگا اور مقامی افسران کو فساد کے لئے ذمہ دار ٹھہرا کر فسادات پر بند لگایا جاسکے گا۔ اس گمان کو خوش گمانی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ فسادات روکنے اور خطاکاروں کو سزا دلانے کے لئے قانون اب بھی کچھ کم ہیں۔ ضرورت کسی نئے اورسخت قانون کی نہیں ، ضرورت سیاسی عزم کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فسادات کے پس پشت کوئی نہ کوئی سیاسی مفاد ہوتا ہے۔ فساد ازخود نہیں ہوجاتے بلکہ سیاسی مفاد ہی فساد کراتا ہے۔ فسادیوں کو تحفظ قانون نہیں دیتا بلکہ سیاسی آقادیتے ہیں۔ کوئی نیا اورسخت قانون مسئلہ کا حل نہیں۔روز کا مشاہدہ ہے کہ سیاسی نیت میں فساد کی بدولت قوانین کی زدالٹے بے قصوروں پرہی پڑجاتی ہے اور قصوروار سیاسی پناہ میں اس کی زد سے بچے رہتے ہیں۔ٹاڈا، پوٹا اور ان کے بعد یو اے پی اے مرکزی قانون ہی ہے ،جن کے تحت سینکڑوں بے قصور جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں۔

جن فسادات کو ’’فرقہ ورانہ فساد ــ‘‘کہا جاتا ہے، ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو ان کی تہہ میں کوئی نہ کوئی سیاسی فساد مل جائے گا۔ مغربی بنگال میں 34سال تک اپنے دور حکومت میں بائیں بازو حکومت نے اور اب دو سال سے ممتا بنرجی نے نہیں چاہا تو فساد نہیں ہوئے۔ بہار میں 10سال تک لالو کے راج میں ، اور8سال سے اب نتیش کمارکے راج میں فساد نہیں ہوئے۔یوپی میں مایاوتی نے فسادات نہیں ہونے دئے۔ اب بھی قانون وہی ہیں، انتظامیہ وہی ہے، مگر یادووں کی سرکار آتے ہی فسادات کی جھڑی سی لگ گئی۔ خطا قانون کی ہے یا سیاسی عزم کی؟

بیشک گجرات میں 2002 کی مسلم کشی نہایت سنگین اور ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔ ابھی اصل خطاکار کو سزا نہیں مل سکی ہے۔ مگر کیا یہ بھلایا جاسکتا ہے اس سے قبل کانگریسی سرکاروں کی سرپرستی میں گجرات میں، اترپردیش میں، مغربی بنگال اور بہارمیں بدترین مسلم کش فسادات نہیں ہوتے رہے؟ آسام کے نیلی میں 18فروری 1983کی رات میں 16گاؤوں میں پانچ ہزار سے زیادہ بے بس مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا۔کیا کسی کو سزا ملی؟ اگست 2012میں آسام کے بوڈو علاقے میں تقریباً ایک سومحنت کش مسلمان مارے گئے اور ایسا ماحول بنایا گیا کہ چار لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے۔ مظفرنگر اور شاملی اضلاع کے واقعات تازہ ہیں۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فساد کے نام پر مسلم کشی کے یہ واقعات کیوں ہوتے ہیں؟سازش،نااہلی اور غفلت سیاسی آقاؤں کی ہوتی ہے یا ساری خطاسول انتظامیہ اور یا پولیس فورس کی ہوتی ہے؟ خبریں یہ بھی ہیں کہ فرض شناس اور مستعد افسران کی سرزنش ہوتی ہے ، اور خطاکاافسروں کو ترقیاں اور میڈل دئے جاتے ہیں۔
دراصل فسادات کرانا اور فسادات نہ ہونے دینا ، دونوں کے اپنے اپنے سیاسی فائدے ہیں۔ مغربی بنگال کی بائیں بازو کی حکومت اور بہار میں لالو کی سرکاریں مسلمانوں کو فساد روکنے کے حوالے سے اپنا ووٹ بنک بنائے رہیں اور مسلمانوں کو پسماندگی کے غار میں دھکیلتی رہیں۔ آر ایس ایس تو ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت مسلم کشی کے لئے فضا بناتی ہے۔ یہ تنظیم ممبرسازی نہیں کرتی۔ بس ذہن سازی کرتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنا گناہ افراد کے سرتھوپ کر خود پاک صاف ہوجاتی ہے۔ جو کچھ فتنہ فساد ہوتا ہے اس میں تنظیم کا ہاتھ نظر نہیں آتا، بلکہ اس کے وہ گرگے نظرآتے ہیں ،جن کے ذہنوں کو اس نے مسموم کردیا ، جو اس کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور واہ واہی پاتے ہیں ۔ یہ ذہنیت کسی پارٹی تک مخصوص نہیں بلکہ ہرپارٹی میں اور ہرشعبہ میں سرایت کرچکی ہے۔ چنانچہ کہیں کوئی قانون کی گرفت میں آجاتا ہے اس ذہنیت سے ہم آہنگ میڈیا، وکلا اور سیاست داں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔یہی وہ عناصر ہیں جو اقلیتی فرقہ کے بے خطا ملزمان کی عدالت میں پیروی تک میں مزاحم ہوتے ہیں۔ فسادات کی تاریخ شاہد ہے کہ ایک چھوٹے سے واقعہ کو بہانا بناکر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ یہ سارا کام منصوبہ بندسازش کے تحت ہوتا ہے اور پولیس اور سول انتظامیہ سیاسی آقاؤں کے اشارے پر اپنی قانونی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرکے فتنہ و فساد میں ملوّث ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارا مسئلہ قانون سازی نہیں قانون کی حکمرانی ہے۔

انسداد فسادات بل کا پارلیمنٹ میں جو حشر ہوا ، اس میں بی جے پی نے تو حسب توقع اپنا رول ادا کیا ہی، مگر ملائم سنگھ یادو کی پارٹی سمیت سیکولر کہی جانے والی دوسری پارٹیاں بھی پوری طرح بے نقاب ہوگئیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار نے بھی ووٹ بنک کی سیاست کھیلی ہے۔ مسلم تنظیموں کو تسلی ہوگئی کہ ان کا مطالبہ پورا کرنے کی کوشش تو ہوئی اور فسادات کی سیاست کرنے والے بھی خوش کہ ان کو اپنے اپنے ووٹ بنک میں سرخروئی حاحل ہوگئی۔
اس بل پر انڈین ایکسپریس کی کالم نویس
تولین سنگھ نے گزشتہ اتوار ’’ اے لاء فور اے ووٹ بنک‘‘ عنوان سے سخت تبصرہ کیا ہے ۔ ان کی سبھی باتوں کی تو تائید نہیں کی جاسکتی مگر بعض مشاہدات بڑے چشم کشا ہیں۔مثلاً انہوں نے میرٹھ کے ہاشم پورہ اور ملیانہ کے واقعات کے حوالے سے لکھا ہے:’’ 1987 میں پی اے سی کے وردی پوش ٹھگوں نے میرٹھ کے پاس اپنی تحویل میں ایک ٹرک بھر مسلمانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا مگر کیا کسی کو اس کے لئے سزادی گئی ؟ ہرگز نہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے قانون میں اس جرم کی سزا نہیں یا اس طرح کے واقعات کو روکا نہیں جاسکتا تھا، بلکہ یہ ہے کہ خطاکارافسران کو سیاسی قیادت کی پشت پناہی حاصل تھی اور سیاست داں فسادات اور اجتماعی قتل کی ان وارداتوں کو کمزور طبقوں کو اپنا ووٹ بنک بناکر رکھنے میں حربہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘‘

تولین سنگھ کی بات میں ہم اتنا اضافہ کریں گے کہ مروجہ قوانین کی بدولت ہی گجرات میں مودی کے چٹوں بٹوں کو ، جن میں ان کی سابق وزیر مایابین کوڈنانی بھی شامل ہیں، سزائیں دی جاسکیں، باوجودیکہ ریاستی سرکار پوری طرح خطاکاروں کو بچانے کے درپے رہی۔ لب لباب یہ ہے فسادات کو روکنے اور فسادات کے لئے خطاکاروں کو سزادلانے کے قانون کم نہیں ہیں، کمی اور خامی سیاسی نیت کی ہے۔

اگر اس پشت پناہی کی تفصیل بیان کی جائے، جس کا میرٹھ کے حوالے سے تولین سنگھ نے ذکرکیا ہے، تو بات بہت دور تک جائیگی۔ اس دوران محترمہ محسنہ قدوائی لوک سبھا میں میرٹھ کی نمائندگی کرتی تھیں۔ اسی پارٹی کے ویر بہادر سنگھ یوپی کے وزیراعلا تھے۔ محترمہ قدوائی ایک اعلا ظرف، شریف النفس لیڈر ہیں۔ پارٹی سے ان کی وابستگی گہری ہے۔ کاش وہ اندرونی واقعات کو قلم بند کردیں تاکہ مستقبل کا مورخ حقیقت سے آگاہ ہو سکے ۔میرٹھ کے گیسٹ ہاؤس میں وزیراعلا کی افسران سے میٹنگ کے دوران محترمہ قدوائی کمرے میں آگئیں تو وزیراعلا نے ان کو ٹکنے نہیں دیا۔ آخر وہ کونسی بات تھی جو اس علاقے کے ایم پی سے چھپائی جارہی تھی، جس میں پولیس اور پی اے سی کی سرپرستی میں مسلم کشی ہورہی تھی؟اس دور کے یوپی پولیس کے ایک اعلا افسر سے جب ہم نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا، تو انہوں نے کہا :’’ پولیس اور فوج ڈسپلنڈ فورس ہے۔ اوپر سے اشارے کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔‘ ‘ دراصل یہ اوپر کا اشارہ ہی فساد کی جڑ ہے جو قانون کو نافذ نہیں ہونے دیتا۔
مسلمانوں کا حوصلہ توڑنے کی وہ تدبیرجو میرٹھ میں اختیار کی گئی، الٹی پڑی اورسیٹ پارٹی کے ہاتھ نکل گئی۔ یہی بابری مسجد کے معاملے میں ہوا۔ شلانیاس، مسجد کا انہدام اور اس کے بعد ملک گیر فسادات سے یقینا مسلمانوں نے سبق لیا ہے، مگر ان فسادی حرکتوں کی سرپرستی جنہوں نے کی تھی ان کا حشر بھی خراب ہوا۔ انسداد فسادات بل کے چلتے کچھ اور چہرے بے نقاب ہوگئے۔ بقول خاطرؔ غزنوی-
گو زرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے
اب آنسوؤں کی دھند ہٹ جانی چاہئے تاکہ ہرچہرہ پہچانا جاسکے۔
طالبان سے مذاکرات

پاکستان حکومت تحریک طالبان پاکستان سے امن مذاکرات کررہی ہے۔ ان مذاکرات کے لئے فضا سازی کی خاطر ہی پاکستان نے گزشتہ دنوں کنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا کی، کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت اور رشتہ داروں سے ملاقات کے متمنی کشمیری بھائیوں کے راستوں کو مسدود کیا۔ انہی کی خوشنودی کی خاطر ہند کو تجارت میں’’موسٹ فیورڈ نیشن‘‘ یعنی انتہائی مراعات یافتہ ملک کا درجہ دینے کا اعلان شدہ منصوبہ برف میں لگادینے کا اعلان ہوا۔ اگرچہ خبروں میں ان باتوں کا ذکر نہیں ، مگر ناعاقبت اندیش طالبان کو ہند کے ساتھ پھلتے پھولتے رشتے نہیں بھاتے ۔ اس کے باوجود ہماری خواہش ہے کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ کامیابی سے ہم کنار ہو اور پڑوسی ملک میں قتل وغارت گردی کا سلسلہ جو، خداناشناس عناصر نے چلارکھا ہے، بند ہو۔ مولانا سمیع الحق نے جومذاکرات کی اہم کڑی ہیں اور جن کے مدرسہ حقانیہ میں ملاعمر سمیت متعدد طالبان رہنماؤں نے تعلیم پائی ہے، مذاکرات کے پہلے دور کو مثبت قراردیا ہے اور مذاکرات کی کامیابی کے لئے دعا کی اپیل کی ہے۔ ہم ان کی دعا پر آمین کہتے ہوئے مزید دعا کرتے ہیں کہ اے اﷲ اپنے گم کردہ راہ بندوں کو راہ راست دکھا۔ طالبان کاکہنا بجا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس میں شریعت کا نفاذ ہونا چاہئے۔ مگر کس شریعت کا نفاذ ہو؟ کیا اس شریعت کا جو مسلکی اختلاف کی بنا پر بے قصوروں کے اجتماعی قتل، مسجدوں، قبرگاہوں اور بازاروں میں بم دھماکوں کو روا قرار دیتی ہے؟ اسکولوں کالجوں کو بند کرواتی ہے اور بچوں کو پولیو کی دوا پلانے والوں کو ہلاک کرنے کو جائز قراردیتی ہے؟ یہ تو وہ شریعت نہیں جو محسن انسانیت پیغمرآخرالزماں نے دی تھی، جس میں اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا تھا، جس نے زور زبردستی سے نہیں، احسن طریقہ سے لوگوں کو دعوت دین دینے کی راہ دکھائی تھی۔ پاکستان میں بیشک شریعت کے نفاذ کا مطالبہ حق بجانب ہے مگر اس طالبانی شریعت کا نفاذ نہیں ہونا چاہئے جو شرف انسانیت سے عاری اور انسانوں کے خون کی پیاسی ہے۔جہاں تک جدید تعلیم کا تعلق ہے، جس سے طالبان کو بڑی وحشت ہے، تو ہم یاد دلادیں کہ پاکستان کی بانی محمد علی جناح اور ان کے دست راست لیاقت علی خاں جدید تعلیم یافتہ تھے کسی مدرسے سے فارغ نہیں تھے۔ جو تحریک خود اپنے اقدامات میں شریعت کی حدوقیود کا پاس و لحاظ نہیں رکھتی ، جو پڑوسی ملک افغانستان میں اپنی حکومت اور ملک کی حفاظت نہیں کرسکی،وہ کس منھ سے حکومت پاکستان کو زچ کرتی ہے کہ ملک میں اسی کی حکمت چلے؟ پاکستان کے حکام کو سنبھل کر چلنا ہوگا۔ اﷲ نتیجہ بہتر فرمائے ۔ آمین۔

عرفان ذیشانی کی وفات
سید عرفان علی ذیشانی مظفر نگر کی ایک مقبول سماجی ہستی اور معروف حکیم سید ذیشان علی مرحوم کے لائق فرزند تھے۔ ہمارے دوست بھی تھے اور رشتہ میں بہنوئی بھی تھے۔ گزشتہ جمعرات (6فروری)دہلی کے ایک اسپتال میں عارضہ کینسر سے وفات پائی۔ اپنے آبائی وطن میں اپنی والدہ کے پہلو میں جگہ پائی۔ موسم کی خرابی اور بونداباندی کے باوجودبہت بڑی تعداد میں سوگوار جنازے میں شریک ہوئے۔پسماندگان میں دو صاحبزادے اور اہلیہ ہیں جو ہماری ماموں زاد بہن ہیں۔ اﷲ مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل سے نوازے ۔آمین۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 165217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.