برما،مسلمانوں کو تحفظ کون دے گا؟

2014کا پہلا مہینہ ہی میانمار کے مسلمانوں کے لیے خونی ثابت ہوا اور ایک بار پھربدھ مذہب کے ماننے والوں اور سیکیورٹی فورسز نے ریاست راکھین میں بسنے والے درجنوں روہنگیا مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا۔برما کے مسلمانوں کا ایک مدت سے استحصال کیا جارہا ہے، مسلمانوں کے خلاف عالمی پروپیگنڈے سے فائدہ اٹھا کر متعصب بدھسٹ برما سے مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں، ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمان اپنی آزادیوں کے لیے جدو جہد کریں گے تو اﷲ تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال ہوگی۔ اسلام کا نظام کسی ساتھ زیادتی یا ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے معاشرے اورحقوق کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ارکان کے مظلوم مسلمانوں کو آزادی دلانے کیلئے پاکستان کی تمام جماعتوں کو متحد کرنا ضروری ہے۔ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، برما میں ہونے والے مظالم پرامت مسلمہ کے دلوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ دنیا میں جو مسلمان اپنی آزادیوں کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان شاء اﷲ ان کو بہت جلد آزادیاں ملیں گی۔ میانمار (برما) میں بدھ مذہب کے پیرو کاروں نے سیکیورٹی فورسز کی سرپرستی میں مسلمانوں کا گاوں جلاڈالا اورچاقووں کے وار کرکے 60 سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا۔شہداء میں تقریباً تمام خواتین ،بچے اور ضعیف افراد ہیں۔فورسز نے 100 سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کرلیا ہے جب کہ سیکڑوں جان بچاکر فرار ہوگئے۔انسانی حقوق کی تنظیم ارکان پروجیکٹ کے کرس لیوا نے بتایا کہ راکھین کے گاوں دچار یارتن میں بدھوں اور فورسز نے مشترکہ طور پر مسلمانوں کے گاوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ فائرنگ، چاقووں اور ڈنڈوں کے وار کرکے مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں کھائی میں پھینک دی گئیں۔آزاد ذرائع کے مطابق شہداء کی تعداد 60 سے زائد ہے جو تقریباً تمام خواتین،بچے یا ضعیف مرد ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق کم از کم 17 خواتین اور 5 بچوں کو شہید کیا گیا ہے۔پولیس نے بلوائیوں کے ساتھ مل کر خواتین ،بچوں اور بزرگوں کو نشانہ بنایا اور لڑکیوں سے زیادتی کی۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سارا معاملہ 8 زیرحراست روہنگیا مسلمانوں میں سے 3 کی لاشیں ملنے سے شروع ہوا۔ روہنگیا مسلمانوں نے لاشوں کی تصاویر بنائیں اور پولیس کے پاس لے کر گئے۔پولیس اور فوج نے الٹا گاوں پر دھاوا بولتے ہوئے موبائل فون قبضے میں لے لیے۔ گزشتہ دو سال کے دوران بدھ بھکشووں کے حملوں میں ہزاروں مسلمان شہید جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ریاست راکھین کے علاقے پوختو میں بھی مسلمان مہاجرین کے 40خیموں کو نذرآتش کردیا گیا۔واضح رہے کہ ریاست راکھین جس کا پرانا نام اراکان ہے،1784ء تک روہنگیامسلمانوں کی آزاد ریاست تھی جس پر برما نے قبضہ کرلیا تھا۔برمی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی قرار دیتے ہوئے انہیں برمی باشندہ تسلیم نہیں کرتی اورعلاقے سے مسلمانوں کے خاتمے کیلئے وقتاً فوقتاًنسل کشی کی مہم چلاتی رہتی ہے۔جون 2012ء میں بھی ایسی مہم کے دوران بدھوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔اقوام متحدہ نے میانمار حکومت کو کہا ہے کہ مسلمانوں اور بدھوں کے مابین تصادم کی تحقیقات کی جائیں۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ماہر ٹومس اوجیا کیونتانہ نے کہا کہ اگر میانمار کی حکومت نے مسلمانوں اور بدھوں کے درمیان تصادم اور اٹھارہ ماہ کے دوران ہونیوالی ایک لاکھ دس ہزار سے زائد اموات کی مؤثر تحقیقات نہ کیں تو میانمار حکومت کو بین الاقوامی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اس کے خلاف غیرجانبدار تحقیقات کی جائیں گی۔1948 سے لے کر اب تک برما میں مسلمانوں کے خلاف ملک کے اندر ایک درجن سے زیادہ بڑے بڑے فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف 1948 میں ہونے والے سب سے پہلے آپریشن B.T.F میں30ہزار سے مسلمانوں کو ظالم بودھسٹوں نے قتل کردیا۔ 2001ء میں ہونے والے آپریشن میں 700مسلمان شہید اور 800 سے زیادہ گرفتار کرکے اغواء کرلیے گئے۔ جن کا آج تک کچھ پتہ نہ چل سکا۔ 1991ء سے 2000ء تک مختلف فوجی آپریشنز میں 18سو سے زیادہ گاوں جلادیے گئے۔ 200 سے زیادہ مساجد گھوڑوں کے اصطبل اور فوجی مراکز میں بدل گئے۔ صرف 2002ء میں 40 مساجد کا خاتمہ کیا گیا۔1984 میں 2سو ایسے خاندان جو ہجرت کے لیے سمندری سفر کررہے تھے فوج نے ان کی کشتیاں الٹ دیں جس سے یہ 200خاندان سب کے سب پانی میں ڈوب گئے۔ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔1978 میں تین ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو بوریوں میں بند کرکے سمندر میں پھینکا گیا۔ مسلمانوں کے 20سربراہوں کو زندہ دفن کردیا گیا۔ اسی سال ایک مسجد میں 120 خواتین کی نعشیں ملیں۔اپریل 1948میں مسلمانوں کے خلاف بودھ عوام نے مظالم کا جو سلسلہ شروع کیا تھا صرف ضلع اکیاب میں بودھسٹوں کے ہاتھوں 8ہزار مسلمان شہید کردیے گئے۔اپریل 1992 میں بودھسٹوں نے مسلمانوں کی مسجد پر حملہ کردیا اور 2سو سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔1950کے فوجی آپریشن میں 30ہزار ، 1956کے آپریشن میں 13ہزار، 1996کے آپریشن میں 25ہزار، 1978کے آپریشن میں 3لاکھ ، 1991کے آپریشن میں 2لاکھ 25ہزار اور 96اور 97کے آپریشنز میں 60ہزار مسلمان بنگلہ دیشن ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سب اعداد وشمار بنگلہ دیش سے شائع ہونے والی سالانہ میگزین دعوۃکے 2006کے شمارے میں شائع ہوئے۔1948سے 1962 تک مسلمانوں پر اگرچہ مظالم ہوتے رہے مگر کاروبار سمیت کئی امور میں انہیں آزادی حاصل رہی۔ 1962ء میں وہاں کی حکومت گراکر فوجی حکومت قائم کی گئی۔ فوج کو اقتدار ملتے ہی مسلمانوں کے خلاف مظالم اور وحشتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوگیا کہ انسانی تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں پر روح فرسا مظالم ڈھائے جارہے ہیں لیکن برما میں ہونے والے مظالم کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ حکومت اور فوج کی سرپرستی میں یہ سب کچھ ہورہاہے۔ عالمی میڈیا ، یو این او سمیت انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بین الاقوامی تنظیمیں جو جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی شور مچاتی ہیں ،اور مسلمان حکمرانو ں نے ان مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔برما کے مسلمانوں کو اسلام کی پاداش میں قتل کیا جا رہا ہے۔ اراکان کے مظلوم مسلمان اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، عالم اسلام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کی طرح اقوام متحدہ اراکان کا مسئلہ بھی حل کرے۔ مسلمانوں کے معاملے میں اقوام متحدہ نے ہمیشہ دوغلا کردار ادا کیا ہے۔ مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔ برما میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم زیادتیوں کا سلسلہ دن بدن شدت اختیارکرتاجارہاہے اور گذشتہ کئی عشروں سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مظالم برما کے مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے ہیں۔ لیکن آج تک دنیا والوں کو برمی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نظر نہیں آئے اور نہ ہی اس کے سدباب کیلئے کچھ کیا گیا۔ مصائب میں گھرے مسلمانوں پر برما میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ برما میں مسلمانوں پر عرصہ دراز سے انتہائی سنگین اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن ساری دنیا ان مظالم پر مکمل خاموش ہے کیونکہ متاثرین مسلمان ہیں۔ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کے معاملے میں عالمی برادری اور مغربی قوتیں مسلسل اسلام دشمنی کاثبوت دے رہی ہیں۔ برما میں بسنے والے مسلمان ہمارے بھائی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو برما میں ہونے والے مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟ مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر برما کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے لیے کردار ادا کریں۔ برمی مسلمان اپنے دفاع کے لیے کھڑے ہوں گے تو پھر مظالم پر گونگی اقوام متحدہ انہیں دہشت گرد قرار دینا شروع کردے گی۔ دنیا میں کسی بھی خطے سے حالات کی ابتری کے باعث کوئی آبادی ترک وطن کرنے پر مجبور ہوجائے تو ان کو پناہ دینا ہر ملک کا فرض ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی قائم ہے لیکن برما کے مظلوم مسلمانوں کو ان کا پڑوسی مسلمان ملک بنگلہ دیش بھی پناہ دینے کو تیار نہیں ہے، حالانکہ ترک وطن کرنے والوں میں غریب، بے کس عورتیں اور فاقہ کش بچے بھی شامل ہیں۔ برما کے مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کو بوسنیا کے واقعات سے مماثلت ہے، جبکہ برما میں قتل عام اور نسل کشی کافی عرصے سے جاری ہے۔ کوئی مسلمان ملک برما کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند نہیں کررہا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی برما کے مسلمانوں کے مسئلے سے صرف نظر کررہی ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں تاکہ برما کے خلاف اقوام متحدہ نوٹس لے۔

Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 178830 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.