مولانا فضل الرحمان کو راتب مل گیا

مولانا فضل الرحمان انتہائی چالاک اورمعاملہ فہم سیاستدان ہیں، اپنی سیاسی پوزیشن کے بارئے میں بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں، حکومت چاہے ضیاالحق کی ہویا بینظیر بھٹو کی فضل الرحمان کو حکومت سے اپنا حصہ لینا آتا ہے، جس طرح مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہتی اسطرح فضل الرحمان کا بغیر اقتدار گذاراممکن نہیں۔ حکومت چاہے فوجی ہو یا جمہوری مولانا فضل الرحمان آپکو حکومت میں ملینگے، یہ ہی انکی کامیابی ہے۔ جبتک راتب پرویز مشرف کے دربار سے ملتارہا وہ مشرف کے ساتھ تھے۔ 2008ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کاشیرازہ بکھر چکا تھا اورچونکہ 2008ء میں مولانا کی جماعت جمعیت علمائے اسلام ف کو فوجی قیادت کی مدد بھی حاصل نہیں تھی اسلیےمولانا فضل الرحمن کو قومی اسمبلی کی 7 اور صوبائی میں خیبر پختونخواہ میں 14، بلوچستان میں 10 اورپنجاب میں صرف دو نشستیں ملیں۔

دو ہزار آٹھ میں مسلم لیگ ن کی حمایت ختم ہونے کے بعد میں پیپلز پارٹی کو مولانا کی دوستی بہت کام آئی۔ مولانا نہ صرف 2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کے اتحادی بن گے بلکہ کشمیر سے متعلق خصوصی کمیٹی کی چیئرمین شِپ حاصل کی، مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تو وہ کچھ نہ کرسکے لیکن اس چیئرمین شپ کے زریعے اپنے معاشی معاملات بہتر کرتے رہے۔ وہ، اُن کے بھائی اور اُن کی پارٹی کے ممبران حکومت کے اتحادی ہونے کے ناطے تمام مراعات بلکہ کچھ زیادہ ہی حاصل کرتے رہے، بلوچستان کا ہر ممبر تو وزیر تھا لہذا جو حاصل نہ ہوا ہو وہ کم۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی چالوں کا تو ہر کوئی معترف ہے، 2010ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے حصول کیلئے مولانا نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا ڈرامہ رچا کر کامیابی سے مولانا شیرانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلی۔ لیکن پیپلز پارٹی سے گلگت بلتستان کی گورنر شپ کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر حکومت سے علیدہ ہوگے، پیپلز پارٹی کی حکومت کا وقت بھی ختم ہونے والا تھا اور مولانا فضل الرحمن کو پیپلز پارٹی کا آنے والے الیکشن میں انجام بھی صاف نظر آرہا تھا۔ اس پورئے وقت میں جب قوم کو بے روزگاری، مہنگائی اور خونریزی کا سامنا تھا، پیپلز پارٹی کے اتحادی مولانہ فضل الرحمان اور انکے ساتھیوں کا روز گار اپنے عروج پر تھا۔

مئی 2013ء کے الیکشن کے موقعہ پرپہلے تو انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے مردہ گھوڑئے میں جان ڈالنے کی کوشش کی مگر انکے پرانے اتحادی ان کی چال میں نہ آئے۔ مولانا فضل الرحمان ابھی سیاسی ہاتھ پیر ماررہے تھے کہ اچانک دسمبر 2012ء میں علامہ طاہر القادری پاکستان آئے اورپاکستانی سیاست پر چھاگئے اورجب جنوری 2013ء میں علامہ نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال آگیا۔ نوازشریف کو اپنی آتی ہوئی باری دور جاتی نظر آئی تو انہوں نے ایک کانفرنس میں ان جماعتوں کو بلالیاجو یا تو حکومت مخالف تھیں یا پھر وہ علامہ طاہر القادری کے دھرنے کے خلاف تھیں ۔ مولانا فضل الرحمان بھی اس کانفرس میں شامل تھے۔چار دن بعد علامہ طاہر القادری کا دھرنا تو ختم ہوگیا مگر انہوں نے نواز شریف کے دربار میں مستقل دھرنا دیدیا، پہلے تو وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش میں لگے رہے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے نواز شریف کے دربار سے راتب کے حصول کی کوشش شروع کردی۔ مولانا فضل الرحمان نےسب سے پہلی کوشش صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی تھی مگر نواز شریف یا تو اس گندئے کھیل میں اُن کے ساتھ شامل نہیں ہوئے یا پھر اُن میں اتنی ہمت نہ آپائی، لہذا وہ اسلام آباد کی فکر میں زیادہ لگے رہے۔ ماضی میں مولانافضل الرحمن حکومتوں کا حصہ اپنی شرائط پر بنتے تھے تاہم اس مرتبہ صورتحال ذرا مختلف ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پہلے وہ امریکی سفیر سے ملے، بغیر کسی شرط کے قومی اسمبلی میں پہلے اسپیکر اور پھر ڈپٹی اسپیکر کے منصب کے لئے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ، اور وزیراعظم کے لیئے نواز شریف کو ووٹ دیا ، بلوچستان میں مخلوط حکومت کی حمایت کا اعلان بھی کیا ۔ لہذا اس قدر وفاداری کے بعد راتوں رات زرداری کیمپ چھوڑکر نواز شریف کیمپ میں آنے والے مولانافضل الرحمن کو نواز شریف نے اُن کی ایک دو پسندیدہ وزارتوں کو کا دلاسہ دیا تھا۔

ایک طویل عرصے سے اقتدارکے مزےلوٹنے والے مولانا فضل الرحمان اور انکے ساتھی نواز شریف کو مختلف طریقے سے اپنی وفاداری کا یقین دلارہے تھے، نواز شریف کےناکام دورہ امریکہ کو مولانا فضل الرحمان واحد سیاستدان تھے جنہوں نے اُسکو کامیاب قرا ر دیا، نواز شریف کو وہ یہ تاثر دیتے رہے کہ طالبان سے صرف وہی مذکرات کراسکتے ہیں، وہ بہت اضطراب میں تھے کہ کب انکا اور اُنکے ساتھیوں کا وظیفہ جاری ہو۔ وہ میر تقی میر کے ان شعروں کے ماند تھے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے

آخرکارسات ماہ کے طویل انتظار کے بعد نواز شریف نے خانہ خراب کی آوازسن لی اور بالآخر وفاقی کابینہ میں توسیع کر دی اور جے یو آئی (ف) کو کابینہ میں نمائندگی دیدی، اکرم خان درانی اور سینیٹر عبدالغفور حیدری وفاقی کابینہ میں شامل ہوگے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن ایک مرتبہ پھرکشمیر کمیٹی کے چیرمین بن گے ہیں جو ایک وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان اس سے پہلے بھی کشمیر کمیٹی کے چیرمین رہے ہیں لیکن صرف اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ کشمیر کے مسلئے پر نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ اب ہوگا لیکن وفاقی کابینہ میں شامل ہوکر مسلم لیگ ن کی حکومت میں اتحادی ہونے کے بعد اُن کا اگلا مشن تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے اختلافات کو بڑھانا ہوگا اور اپنی سیاسی مہارت کے زریعے وہ یہ کوشش ضرور کرینگے کہ مسلم لیگ ن خیبرپختون خوا کی حکومت کو ختم کرنے پر آمادہ ہوجائے اور یہ نواز شریف کی ایک بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگی۔ فی الحال تو سات ماہ سے جاری مولانا کی مسلسل محنت رنگ لے آئی ہے اور نواز شریف حکومت کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو راتب مل گیا۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 448529 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More