خواب دکھانے والے خود جاگیں

پانچ اسمبلیوں کے لئے حالیہ انتخابات میں کم از کم دو ریاستوں کے نتائج انتہائی غیر متوقع ہیں۔ راجستھان میں اچھے کام کے باوجود اشوک گہلوت کی سرکارکی اور دہلی کو بجلی کی آنکھ مچولی، سڑکوں کی بدحالی، پبلک ٹرانسپورٹ کی خستہ حالی جیسی بیشمار مصیبتوں سے نجات دلاکر شہر کا رنگ روپ بدل دینے والی شیلادیکشت سرکار کی شکست چونکا دینے والی ہے۔مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی واپسی کی تو امید تھی کہ ان کی سرکار نے ریاست کی سبھی طبقوں میں کام کیا۔ مگرجس طرح ریاست میں اپوزیشن کانگریس کا صفایا ہوا، وہ حیران کن ہے۔ ان نتائج کی نہ جیتنے والوں کوامید تھی اور نہ ہارجانے والوں کواندیشہ تھا۔پانچ میں تین اہم ریاستوں مدھیہ پردیش،راجستھان اور دہلی میں کانگریس کوشدید ہزیمت اٹھانی پڑی۔ چھتیس گڑھ میں مقابلہ برابر کا رہا۔ وہاں کانگریس کی واپسی کی امید پر خود کانگریسیوں نے پانی پھیر دیا۔ پارٹی کے ریاستی صدر چرنداس مہنت کا بیان ہے کہ کم از کم دس سینئر لیڈر خود اندرونی مخالفت کی وجہ سے ہارے۔ دہلی کی وزیر اعلا کو بھی پارٹی سے کوئی مدد نہیں ملی۔ پارٹی قیادت بے فکر تھی کہ پچھلے تین مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی اکیلی شیلا دیکشت پالا مارلیں گیں۔ چنانچہ زمینی حقائق سے بے خبر یہ لیڈر اپنے گھروں سے نکلے ہی نہیں۔ میزورم کے نتائج بعد میں آئے جہاں 39میں سے 33سیٹوں پر کانگریس امیدوار جیتے۔ یہ تعداد سابق سے دو زیادہ ہے۔میزورم دور مشرقی ریاست ہے ۔ اس کا سیاسی منظرنامہ مختلف ہے۔

ہرچند کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھاجپا کو غیر معمولی جیت ملی ۔ مگر دہلی میں مودی نے چھ پرہجوم ریلیاں کیں۔ سابق صدر گڈکری، سشما سوراج ، ارن جیٹلی، راجناتھ اورشاہ نواز سمیت پوری پارٹی قیادت نے اپنی طاقت دہلی میں جھونک دی، مگر وائے ناکامی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی۔ کئی ایسے حلقوں میں بھاجپا امیدوار ہارگئے جن میں مودی کی ریلیاں ہوئیں۔ اس لئے ’مودی لہر‘یا ’بھاجپا لہر‘ کا دعوا باطل ہے۔ہاں کانگریس مخالف لہر ضرور تھی۔

دہلی میں اس لہر کا فائدہ ’عام آدمی پارٹی‘ کے حصے میں گیا جبکہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے سارا فائدہ بھاجپا کو پہنچ گیا۔ دہلی میں نئی نویلی ’’عام آدمی پارٹی ‘‘کے سامنے بھاجپا منھ تاکتی رہ گئی ۔ عام آدمی پارٹی کے امیدوار 28سیٹوں پر کامیاب ہوئے اور20پر دوسری پوزیشن پر رہے۔جبکہ بھاجپا کے ، جو جمی جمائی پارٹی ہے 32پر اٹک گئی۔ عام آدمی پارٹی مستقبل میں قومی سطح پر بھاجپا اور کانگریس دونوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے اورمودی نوازوں کی امیدوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔
یہ نتائج بتارہے ہیں کہ یو پی اے کے خلاف سنگھ پریوار نے بے بنیاد الزامات کو بڑھا چڑھا کر جو مہم چلارکھی تھی ، یو پی اے اس کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔یہ تنظیمی کمزوری کی طرف اشارہ ہے جس کی قیادت راہل گاندھی کے ہاتھوں میں ہے۔ اب پارٹی اپنی سیاسی حکمت عملی تصوراتی بنیادوں کمپیوٹر لیب میں بناتی ہے۔ عوام کے مفاد کی جن اسکیموں کو بہت دھوم دھڑلے سے لایا گیا ان کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچا۔ مثال کے طور ’حق تعلیم ایکٹ‘ کی نامعقولیت سے تعلیمی شعبہ میں سخت بددلی ہے۔ عوام کے لئے غذائی تحفظ بل محض ایک خبر ہے۔ دہلی میں جو چمک دمک شیلا کے دور میں پیداہوئی اس پر کچن کی ضروریات بھاری پڑ گئیں۔ چینی پچاس روپیہ اور آٹا پندرہ روپیہ کلو فروخت ہو رہا ہے۔ دال اور چاول کی گرانی بھی کچھ کم نہیں۔ ملک میں نہ چینی کی کمی ہے اور نہ گندم کی۔گندم سرکاری گوداموں میں پڑا سڑ رہا ہے مگر مارکیٹ میں نہیں پہنچتا۔ رسوئی گیس کی عدم دستیابی نے بھی خاتون خانہ کو سرکار سے بددل کردیا۔ پیاز ، ٹماٹر اور سبزیاں تو خیرموسمی اشیاء ہیں۔ ان کے نرخ گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ مگر بھاجپا نے پیاز کے نرخ سو روپیہ تک پہنچ جانے کا جو شور مچایا تھا، وہ نرخ 30-25روپیہ آجانے کے باوجود دبا نہیں اور کانگریس پارٹی تماشائی بنی رہی۔

بدعنوانی کے حوالے سے بھاجپا پچھلے چار سال سے جو مہم چلارہی ہے اس کا بھی موثرجواب نہیں دیا جا سکا۔ بدعنوانی کے داغ جتنے کانگریس کی دامن ہیں ، بھاجپا کے ماتھے پر اس سے کم نہیں ہیں۔ مگر اناہزارے کو مہرہ بناکر سنگھ نے اس موضوع کو چناؤ کا مدعابنادیا اور پھر اس کو یو پی اے کے خلاف ہواباندھنے میں استعمال کیا۔ اس کا جواب دیا جاسکتا تھا اگر یوپی اے لوک پال بل منظور کرانے میں بھی و ہی مستعدی دکھاتی جو نام نہاد فوڈ سیکیورٹی بل منظور کرانے میں دکھائی ہے۔

ان انتخابات نے کانگریس کے ان لیڈروں کی بھی بولتی بند کردی ہے جو راہل کو پی ایم بنانے کی ہوا باندھ رہے تھے۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے راہل ایک متین ، مہذب اور سنجیدہ فرد ہیں۔ مگر انہوں نے اس دوران جو جارحانہ انداز اختیارکیا ،وہ ہندستان کے مزاج کے منافی ہے۔عوام کو وہ سادگی پسند ہے جو ’عام آدمی پارٹی‘ نے اختیار کی ہے۔ ایک مرحلہ پر انہوں نے خود اپنی پارٹی کی قیادت اور سرکار کے اہم فیصلے کی برسرِ عام جس طرح دھجیاں اڑائیں ، وہ صریحاً غیر شائستہ اور غیر دانشمندانہ تھا۔ آپ نے سرکار کے ایک فیصلے کو چاک کرکے کوڑے دان میں ڈالنے کے لائق قراردیا، چنانچہ عوام نے دوقدم آگے بڑھ کر پوری پارٹی اور سرکار کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔راہل نے جس طرح پارٹی قیادت کی تحقیر کی اس سے یوپی اے پر کرپشن کی پشت پناہی کے الزام کو تقویت حاصل ہوئی۔

ان نتائج کا تجزیہ صحافی کررہے ہیں اور ہوتا رہے گا۔ مگر ایک بات واضح ہے۔ نہ یہ یو پی اے کی پالیسیوں کے خلاف مینڈیٹ ہے اور نہ ہندستان بھگوا ہوا ہے۔ یہ کانگریس کی تنظیمی ناکامی ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ انتخابی میدان سے کانگریس کی تنظیم کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہے۔ کانگریس کی تنظیم 10 -جن پتھ، 24-اکبرروڈاور 12-تغلق لین میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ایک زمانہ تھا جب گاؤں گاؤں اس کی شاخیں اور سرگرم کارکن ہوا کرتے تھے۔عوام کو لیڈر وں سے ملنے میں ہٹو بچو سے نہیں گرزنا پڑتا تھا۔ منی شنکر ایر نے (انڈین ایکسپریس 10دسمبر) بجا لکھا ہے کہ پارٹی کو اپنے تنظیمی ڈھانچے کو زمین سے کھڑاکرنا ہوگا ۔ ضلعی، علاقائی، ریاستی یونٹوں کا فیصلہ دہلی میں نہیں، مقامی کارکنوں کی پسند سے ہونا چاہئے۔یہ جو رسم چلی ہے کہ ہر فیصلہ پارٹی صدر پر چھوڑ دیا جائے جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔

عام آدمی پارٹی کی اہمیت
اس نوخیز پارٹی کی غیرمتوقع کامیابی نے ذات، برادری، رنگ، نسل اور علاقائیت کے ساری عفریتوں کو دھتا بتادی ہے۔ اس کے امیدواروں کو ہر طبقہ کی تائید وحمایت ملی ہے۔ اگر پارٹی نے اناہزارے کے زیراثر سنگھیوں سے رسم وراہ نہیں بڑھائی تو امید کی جانی چاہئے کہ وہ مسلم رائے دہندگان کی بھی پہلی پسند ہوگی، خاص طور سے یوپی جیسی ریاستوں میں جہاں کے عوام فرقہ پرستی، ذات پرستی ، غنڈہ گردی اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست سے عاجز ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ لوک سبھا الیکشن میں اروند کیجریوال سیکولر سونیا گاندھی کے خلاف میدان میں اترتے ہیں یاسیکولرسیاست کے اشدترین مخالف نریندر مودی کے خلاف ۔

مسلم نمائندگی
چارریاستوں میں منتخب 589ممبران اسمبلی میں صرف 8 مسلمان ہیں۔سابق میں یہ تعداد 29تھی۔ ان ریاستوں میں مسلم آبادی7.03فیصد ہے اور نمائندگی صرف 1.35 فیصد۔ نومنتخب مسلم ممبران میں 5دہلی سے چنے گئے ہیں۔ان میں چار کانگریس کے ہیں۔ راجستھان میں یہ مسلم ممبران کی تعداد 12سے گھٹ کر 2رہ گئی ۔ دیدوانا سے یونس خان اور ناگور سے حبیب الرحمٰن ، دونوں بھاجپا کی ٹکٹ پر جیتے ہیں۔ کانگریس نے 16مسلمانوں کو ٹکٹ دئے مگر سب ہار گئے۔مدھیہ پردیش میں کامیاب ہونے والے واحد مسلم امیدوار عارف عقیل ہیں جو نارتھ بھوپال سے کانگریس کے کے ٹکٹ پر چوتھی مرتبہ چنے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کام کرتے ہیں۔

مظفرنگر کے مظلوم
مظفرنگر میں یادو سرکار کی ناعاقبت اندیشی، شدید نااہلی اور لاپروائی کے نتیجہ میں فساد کے مارے خاندانوں پر اب سردی کی مار پڑ رہی ہے۔ اطلاع یہ ہے کیمپوں میں اب تک تیس سے زیادہ بچّے سردی سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ خبریں بھی آرہی ہے کہ عوام نے رلیف کے لئے جو چندے دئے ان میں خورد برد بھی ہوئی۔ سرکار کو ان مظلوموں کی سدھ لینے کی فکر نہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی ہندنے ایک پہل کی ہے۔ گجرات کے کارکن جناب محمد شفیع مدنی کی سربراہی میں وفود گاؤں گاؤں جاکر مقامی باشندوں سے مل رہے ہیں اور گھروں سے اجڑے ہوئے لوگوں کی واپسی کا ماحول بنانے میں کوشاں ہیں۔کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ مدنی صاحب پرامید ہیں کہ حالات رفتہ رفتہ بدل جائیں گے۔ کچھ دیگر جماعتیں بھی مکان وغیرہ بنارہی ہیں مگر ساتھ ہی مختلف عنوانوں سے یادو سرکار کا ڈنکا بھی پیٹ رہی ہیں۔

ہم جنس پرستی غیرقانونی
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ہم جنسی غیر قانونی ہے، اخلاقی اور مذہبی اقدار کے پاسداروں کو بڑی راحت ملی ہے۔عدالت عالیہ نے دہلی ہائی کورٹ کے 2009کے فیصلے کو کالعدم کردیا ہے اور کہا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377جائز اور ملک کی اقدار کے مطابق ہے۔اس کو بدلنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غیرشادی شدہ جوڑوں کے ایک ساتھ رہنے (Live-in relationship) کے معاملے میں بھی یہی نظریہ اختیار کیا جانا چاہئے کہ کوئی قانون اس فحاشی کی پشت پناہی نہیں کرتا،نیز یہ روش ہماری اخلاقی و مذہبی اقدار اور رسم و رواج کے بھی منافی ہے۔

نیلسن منڈیلا کی وفات
جنوبی افریقہ کو سفید فام جابر سرکار سے نجات دلانے والے لیڈر نیلسن منڈیلا کی وفات پر پوری دنیا نے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ نسل پرستی کے خلاف ان کی خدمات یقینا قابل ستائش ہیں۔ ان کو 27سال تک قید و بند کی مصیبت جھیلنی پڑی۔ہم ان کی قربانی اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ان کے خاندان اور سوگواروں کی خدمت تعزیت پیش کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک درس ہم محمدصلعم کے نام لیواؤں کے لئے بھی ہے۔

منڈیلا نے جنوبی افریقہ کی سیاہ فام اکثریت کو، جس کے وہ خود ایک فرد تھے، ایک غیر ملکی سفید فام اقلیت کی نسل پرستانہ پالیسیوں نجات دلائی۔ ان کی یہ جدوجہد قومیت اور وطنیت کے جذبات سے سرشار تھی۔ جبکہ ان سے چودہ سال قبل نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عربوں کی غالب اکثریت میں دبی کچلی ایک معمولی سی اقلیت کے خلاف نسلی تفاخر کا قلع قمع کرنے کا کارنامہ انجام دیا ، حالانکہ آپ خودمعزر عرب خاندان سے تھے۔ آپ ﷺ نے غیر عربوں غلاموں اور عورت ذات کو بھی تحقیر و امتیاز سے نجات دلوائی اور حقیقی معنوں میں شرف انسانیت کا پرچم بلند کیا۔ قرآن میں اﷲ تعالی کا اعلان ہے ہم نے سارے انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور پھر ان کے جوڑے بنائے۔ اسلام نے نسلی تفریق کو بھی مٹایا اور جنسی امتیاز کو بھی ختم کیا ہے اور اعلان کیا فضیلت صرف اچھے عمل کرنے والے کے لئے ہے۔

ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں کے ہم نسلی ہی نہیں مسلکی امتیازوں اور تفاخر کی کیسی دلدلوں میں پھنس گئے ہیں۔ اگر پیغام محمد ﷺسے وفا کی ہوتی تو آج یہ دنیا ہم کو یوں حقیر نہ کرتی جیسی کررہی ہے۔ مومن کے لئے اﷲ نے استغفار کا دروزہ کھلا رکھا ہے۔ استغفار زبان سے چند الفاظ دہراتے رہنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی روش میں درستگی کا نام ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 165186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.