ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے

لڑائ شخصی ہو کہ قومی یا پھر ملکی‘ اس کا آغاز گھورنے سے ہوتا ہے۔ گھورتے سمے فریقین کی ناسیں پھیلنا شروع ہوتی ہیں اور پھر یہ بتدریج پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ نہیں پھیلیں گی تو معاشرے میں کٹ جائیں گی۔ ان کا رہنا‘ ان کے پھیلنے سے مشروط ہوتا ہے۔ آنکھوں میں ہوتی شام کی افقی گردش کرنے لگتی ہے۔ گردش دوراں کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائ اور گیرائ میں ہرچند اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان لہو آمیز نینن میں فاتح ہونے کی تمنا مچلنے لگتی ہے۔ کان ناصرف کھڑے ہوتے ہیں مہنگائ کے باوجود ٹماٹری ہو جاتے ہیں۔ ہونٹوں پر حالیہ کشمیری بھوکم کے آثار نمودار ہوتے ہیں اور بظاہر بےمعنی بربڑاہٹ سی سنائ دیتی ہے۔ دریں اثناء اگر کوئ جلنے قریب پر تیل ڈال دیتا ہے تو غیرسرکاری اور غیر سیاسی قسم کے بیانات کا آغاز ہو جاتا ہے بصورت دیگر پہلے ہاتھ میں موجود چیز کا فرش پر کڑاھپ سے مارنا عسکری ضابطہ ٹھہرا ہے۔ چیز کی مالی قدر دو نمبری کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔ گویا جاروب کش کے کام میں بلاقصور اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس ذیل میں یہ بھی نہیں سوچا یا دیکھا جاتا کہ چور چور کر دی جانے والی چیز کا فریقن کی گرمی سے کوئ تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ گرمی کے ساتھ سردی کا اس لیے اندراج نہیں کیا گیا کہ وہ موقع ٹھنڈک سے متعلق نہیں ہوتا۔خدا خدا کرکے ناسیں پھیلانے اور گھورنے کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ یہی لڑائ کے ضمن میں مشکل اور کٹھن گزار موقع ہوتا ہے۔

دل کی بھڑاس ہاتھ میں موجود شے پر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مرحلے پر یہ بات ذہن میں رکھیں شے زمین پر پھینکی جاتی ہے۔ فاءرنگ کا سلسلہ کافی بعد کا کام ہے۔ بہت پہلے سے یہ جنگی اصول مستعمل چلا آتا ہے۔ اس سے انحراف گویا جنگی اصول اور ضابطے کے خلاف ہے۔ ناسیں پھیلانے‘ کان کھڑے کرنے اور آنکھوں میں جنگی عروسی بھرنے کے بعد غرانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ عمل تادیر برقرار نہیں رہتا۔ اس سے تھوڑی دیر بعد تکرار لفظی سننے میں آ جاتی جو درحقیقت شخصی رجز کے مترادف ہوتی ہے۔ ذاتی تعارف میں ماں بہن بیٹی کو بھی لانا ضروری اور جزو جنگ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی شان میں گستاخی کو فریقن اول درجے پر رکھتے ہیں حالانکہ ان کا اس میں سرے سے عمل دخل ہی نہیں ہوتا۔ اگر وہ موقع پر موجود ہوتیں تو مرد لڑاکوں کو کھانسنے کا بھی موقع میسر نہ آتا۔

بول بولارے سے متعلق امور وہ از خود طے کر لیتں اور مرد حضرات سے کہیں بہتر اور اعلی پاءے کے طے کرتیں۔ خواتین کی موجودگی میں یہ معاملہ مردانہ نہیں رہ جاتا۔ مردوں کا آدھا بھار وہ ونڈا دیتی ہیں۔ مرد میدان میں اچھا لگتا ہے۔ میدان کس نے مارا‘ کا اندازہ ایک کے قتل ہو جانے سے ہوتا ہے۔ اطراف میں کسی کی جان نہ جانے کی صورت میں بے ہوش ہو جانے والا پراجت سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا بھی نہ ہو تو چہرے کے آلو‘ جنگ کی اسکورسنگ کا کام دیتے ہیں۔ تاہم جنگ کا حق جان دینے یا لینے کی صورت میں ہی ادا ہوتا ہے۔ اس گیم پر اتنا وقت برباد کرنے کا حقیقی اور حتمی نتیجہ سامنے نہ آنا جنگی اصولوں کے منافی ہوتا ہے۔

جنگ اچھی ہوتی ہے یا بری‘ سردست میرا اس موضؤع سے کوئ تعلق نہیں۔ اس سے امن کا رستہ نکلے گا بدامنی کی راہیں کھلیں گی‘ اس تحریر کا اس سے بھی کوئ لینا دینا نہیں۔ میرا موضوع یہ ہے کہ جنگ کو جنگی اصولوں ضابطوں اور صدیوں سے چلے آتے مراحل سے گزرنا چاہیے۔ اس میں کسی مرحلے کا جلد بازی میں رہ جانا مناسب نہیں اور ناہی وہ لطف رہتا ہے۔ للکار کر آنے اور چوروں کی طرح آنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میدان میں فیصلہ ہونا چاہیے کہ کون جیت کر ہارا اور کون ہار کر جیتا۔

ناسیں پھیلنے کا نظارہ دیکھنے کو نہ ملےاور معاملہ توتکرار کی سرحدوں میں آ گھسے۔ یا دونوں عمل کا تارک ہو کر ماں بہن اور بیٹی کی شان میں گستاخی پر اتر آنا‘ کسی طرح جنگی دیانت میں نہیں آتا۔ کون کس بہادری اور جیداری سے لڑا‘ دیکھنے کا مزا پہلے مراحل کے بغیر نہیں آتا۔غالب سے کلکتہ والوں سمت کئ حلقوں کی جنگیں ہوءیں۔ یہ کوئ نئ جنگیں نہ تھیں۔ پہلے ازیں بعد سیکڑوں قلمی جنگیں ہوئی۔ ان جنگوں میں جنگی اصول وضوابط کے حفظ مراتب ہر سطع پر مدنظر رکھے گیے۔ بعض جنگوں میں بےاصولی بھی ہوئ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔

میں نہیں جانتا ناصر زیدی پرانے یودھا ہو کر بھی ابتدائ دونوں مراحل سے کیوں گزر جاتے ہیں۔ سنتے ہیں پڑھے لکھے بھی ہیں۔ پڑھائ کی ناموس بہرطور برقرار رہنی چاہیے۔ جب اٹھتے ہی ڈگریاں پنتے ہیں تو ان کی ایجوکیشن مشکوک ہو جاتی ہے۔ ایجوکیشن تمیز و امتیاز سکھاتی ہے جبکہ کوالیفیکیشن عملی میدان کے کارناموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اب جب وہ کوالیفیکیشن کو ایجوکیشن پر محمول کریں گے تو ان کی ایجوکیشن پر لامحالہ حرف آئے۔

جب وہ کوالیفیکیشن کو ایجوکیشن اور ایجوکیشن کو کوالیفیکیشن سمجھیں گے تو ان کے کہے کی معنویت باقی نہ رہے گی۔ دوسرا اندھیر یہ کہ اٹھتے ہی ماں بہن کی گستاخی پر اتر آتے ہیں تو ایسے شخص کو جوابا کیا کہا جائے۔ میرے نزدیک ڈگریوں پر انگلی رکھنے سے پہلے ان کی متعلقہ محکمہ سے‘ اصلی یا جعلی کی تصدیق کروا لی جائے تو ہی لو لڑائ لڑی جا سکے گی۔جنگ کے ضوابط اور جنگی سلیقہ ہی دراصل جنگی کیمسڑی ہے۔ کسی بھی چیز یا معاملے کی کیمسٹری سے آگہی ایجوکیشن ہے جبکہ اس کی اپلیکیشن اور رزلٹس کوالیفیکیش ہے۔ باور رہنا چاہیے کہ کسی بھی معاملے کے سلیقے اور اس کی کمسٹری سے آگہی کے ناصرف بہتر نتائج سامنے آتے ہیں بلکہ جنگ میں نقصان بھی کم ہوتا ہے۔

جنگی کیمسٹری کا جانو دشمن کو بھاگا بھاگا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جنگی نغموں کا کام گاءیک حضرات کے ذمے بھی رہا ہے۔ میدان سے باہر کھڑے مبصرین کی کارگزاری بلاشبہ بڑی جان سوزی کا کام ہے۔ اسی طرح اکھاڑے سے باہر کھڑے داؤ و پیچ بتانے والوں کی محنتوں کو جنگی کوالیفیکیشن کا حصہ سمجھا جانا چاہیے تاہم ان پر عمل درامد ضروری نہیں کیونکہ یودھا اپنی حمکت عملی خود سے طے کرتا ہے۔ جنگی نغمے ناصرف جوش پیدا کرتے ہیں بلکہ رجز خوانی اور للکاری بولوں کو بھی نکھارتے ہیں۔

ایجوکیٹڈ‘ کوالیفیکیشن پر عمل درامد بہتر نتائج کا حامل خیال کیا جاتا ہے۔۔ ہمارے ہاں لائف ایکسپریس سے استفادہ کرنے کا رواج مخصوص حلقوں تک محدود ہے۔ طبقہ نوازی ہمیشہ سے چلی آتی ہے۔ یہاں زرہ نوازی کا رواج نہیں۔ ہاں یہ نوازتی طبقے خود کو ذزہ سمجھتے ہیں۔ ان کو نوازنے کے سبب ذرہ نوازی مرکب تاحال اپنے فل بٹا فل بھار کے ساتھ وجود رکھتا ہے۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 177819 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.