’وقارامت ‘ :بحالی کی جدوجہد

مارچ سنہ۱۹۱۱ء کے اس منظر کا تصور کیجئے جب علامہ اقبال ؒ نے اسلامیہ کالج لاہور میں منعقدہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں اپنی طویل نظم’ شکوہ ‘ پڑھی اور پوری قوم میں ایک ہیجان برپا ہوگیا:
جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اﷲ سے ’خاکم بدہن‘ ہے مجھ کو
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملے حور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
اب وہ الطاف نہیں، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں؟

اقبال ؔ کی اس جرأت پرکئی جبینوں پر شکنیں ابھرآئیں اور کوتاہ فکر علماء نے خوب تھو تھو کی۔مگر سنہ ۱۹۱۳ء میں ’جواب شکوہ‘ منظرعام پرآیا تو عقدہ کھلا کہ اقبال ؔکے پیش نظر قوم کو جھنجوڑ کر وقار رفتہ کی بازیابی کے لئے آمادہ پیکار کرنا تھا۔اور علامہ اقبال ؔ ہی کیا اکبر الہ آبادی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا ظفر علی خاں، علی برادران ، سرسید احمد خان، شیخ الہندمولوی محمود حسن، مولوی الیاس کاندھلوی، مولانا ابوالکلام آزاد ، سید ابوالاعلیٰ مودودی، امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی ، الطاف حسین حالیؔ، سیدابوالحسن علی ندوی (مرحومین ) اور ہندو بیرون ہند میں دیگر عظیم المرتبت مفکر، دانشور ، مذہبی اور سیاسی رہنما اس تگ و دو میں رہے کہ امت مسلمہ کا وقارِرفتہ بحال ہو اور عالم انسانیت کی خدمت میں وہ پھر قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔

دورحاضر میں بھی یہ کاوشیں جاری ہیں ۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی وہ تحریک ہے جو مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ نئی دہلی، اسلامک ڈولپمنٹ بنک ،جدہ کے تعاون سے گزشتہ کئی سال سے ’وقار امت‘ کانفرنسوں، ورک شاپس اور دیگرپروگراموں کے تحت چلائی جارہی ہے۔ ہر سال ایک بڑی کانفرنس علامہ اقبالؔ کے یوم پیدائش ۹؍ نومبر (اردوڈے)اور مولانا آزاد کے یوم پیدائش ۱۱؍ نومبر(قومی یوم تعلیم) کی مناسبت سے منعقد ہوتی ہے۔ اس سال یہ پروقار کانفرنس دہلی میں ہوئی اور اس کالم نویس کو بھی اس کے اکثر اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے دانشوروں اور علماء نے جو مباحث پیش کئے، ان کو سمیٹا جائے تو’ جواب شکوہ‘ کے اسبندسے ان کی ترجمانی ہوجائیگی:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہرو منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دینا بھی نئی دیتے ہیں

پہلی شرط طلب صادق کے ساتھ عزم سفرہے۔ اگر اپنے اندر موجود جوہر کو جلا دی جائے گی تو قدرافزائی فطری نتیجہ ہے۔گھر بیٹھے رہنے سے نہیں، ڈھونڈنے نکلیں گے تبھی نئی دنیا کا سراغ پائیں گے۔ مگر ہمارا حال یہ ہے:
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو؟

وقار امت کی بحالی دانائی کے ساتھ اعلا ہمتی چاہتی ہے جس کا سرچشمہ خود اعتمادی ہے اور خود اعتمادی کے گلشن میں بہار شجرہائے علم کی تنصیب وترویج سے آتی ہے۔مگر افسوس کہ علم سے بے اعتنائی بدستور عام ہے۔ آج جو اقوام ہرمیدان میں چھائی ہوئی ہیں وہ علم وتحقیق کی بدولت ہی ہیں۔ صدیاں گزرگئیں ،عالم اسلام تحقیق و اکتشاف کے میدان میں تہی دست اور تشکیک و تنقیص ا ور تکفیر میں منہمک ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ ترجیحات اور تحفظات ہیں جو علم کی غلط تعبیر کی بدولت درآئی ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے علم کو دینی اور دنیاوی کے خانوں میں تقسیم غلط ہے۔یہ عیسائیت کا نظریہ ہے۔ اﷲ کے رسول صلعم دعافرماتے تھے: ’’ اللھم اسئلک علماً ینتفع بہ‘‘؛ ’’اللھم انی اعوذبک من علمٍ لا ینفع ‘‘ اے اﷲ ہم ایسے علم کے طلب گار ہیں جس سے انسانیت کو نفع پہنچے اور ہم ایسے علم سے آپ کی پناہ چاہتے ہیں جس کا مقصد انسانیت کو نفع پہنچانا نہ ہو۔چنانچہ ہر علم کا حصول، چاہے وہ جدید ہو یا قدیم، اس کا تعلق منقولات سے ہو یا معقولات سے، اگر مقصد انسانیت کی فلاح ہے، توعبادت ہے، دین ہے، ورنہ علم تفسیرو حدیث بھی وبال جان ہے۔ کسب علم میں پوری تندہی اسلام کا تقاضا ہے کہ ہمیں ہر کام کوبہترین طریقے سے انجام دینے کا حکم ہے۔

آپ ؐ پاکیزہ رزق کے لئے بھی دعا فرماتے تھے کہ مفلسی ایسی چیز ہے جو خودداری ، عزت نفس اور قوم کے وقارکو کھا جاتی ہے۔چنانچہ زیر تبصرہ کانفرنس میں معاش کے لئے بہترین تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کے ساتھ خبردار کیا گیا کہ اکتساب زر میں اس طرح مشغول ہوجانا کہ اقدار کو بھی پس پشت ڈال دیا جائے ، شرف انسانیت کے منافی ہے اور وقار امت کے لئے مہلک ہے۔ اﷲ نے زکوٰۃ کو فرض کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے صاحب نصاب ہونااور یہ جدوجہد کرناکہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کرنے والا بن سکے، فلاح دارین کا ذریعہ ہے۔

ہندستان کے پس منظر میں اس پہلو پر بھی توجہ دی گئی کہ اس ملک میں ہماری حیثیت صرف ایک نظریاتی اقلیت کی نہیں بلکہ ہمارے بہت سے مسائل دیگر اقوام کے ساتھ مشترک ہیں اور ان کے حل کے لئے مشترکہ حکمت عملی میں شراکت مطلوب ہے۔ علیحدگی پسندی کا رجحان سنت نبوی کے منافی اورشرف انسانیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ذکر فروعی فقہی اختلافات اور مسلکوں کی بنیاد پر مخالفتوں، حقارتوں اور منافرتوں کے باطل ہونے کا بھی آیا۔

ایک دلچسپ انکشاف یہ ہوا کہ مسلم بچے عموماًذہانت میں دیگراقوام سے کم نہیں، مگر تربیت کا نظم مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیت نکھر نہیں پاتی۔ آئی ڈی بی-ایم ای ٹی کی کاوش یہی ہے کہ ذہین بچے وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیم کے بہترین مواقع سے محروم نہ رہ جائیں ۔ اسی مقصد کے تحت اسکالرشپ اور ورکشاپس وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ کے چیرمین امان اﷲ خاں کے مطابق ان کوششوں کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔

مولانا آزاد کی یاد
۱۱؍ نومبر ، مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش کے موقع پر قوم نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔ خاص بات یہ ہے غیر مسلم دانشور بھی برملا کہہ رہے ہیں کہ مولاناآزاد ملک کی تقسیم سے ہرگز متفق نہیں تھے۔کانگریس کے سربرآوردہ لیڈروں میں سردار پٹیل نے ہندومہاسبھا کے دوقومی نظریہ کو قبول کرنے میں پہل کی اور گاندھی جی کا اپنا ہم نوا بنالیا۔ نہرو نے بھی ہتھیار ڈال دئے، مگر مولانا آزاد اور جمعیۃ علماء ہند کے اکابرین ہرگز متفق نہیں ہوئے اور تاریخ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ نظریہ برصغیر کے لئے مضرت رساں ثابت ہوا اور ترقی کی راہ کی رکاوٹ بنا۔ اگر پٹیل متحدہ قومیت کے نظریہ سے پھر نہ جاتے تو آزادی چاہے کچھ دیر سے ملتی مگر ملک تقسیم نہ ہوتا۔لیکن بہرحال پٹیل اس خو ن خرابے، اقلیت کش فرقہ ورانہ فسادات اور دھرم کے نام پر دہشت گردی کے موئد نہیں تھے ،جو سنگھ کی اساس ہے۔

پٹنہ دھماکے
پٹنہ دھماکوں کے لئے سرمایہ فراہم کرنے کے الزام میں پولیس نے گوپال کمار گوئل، وکاس کمار، پون کمار، گنیش کمار اورراجو ساؤ کو گرفتار کیا ہے ۔ جتیندر، پپو اور بٹو ساؤ فرار ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ ان کا کوئی تعلق انڈین مجاہدین سے نہیں،البتہ آئی ایس آئی سے ممکنہ تعلق کی جانچ ہورہی ہے۔ بظاہر یہ سب مودی نواز ہیں، جیساکی نتیش کمار نے کہا ہے کہ بھاجپا ریلی تو ناکام ہوگئی تھی ، ان دھماکوں سے اس کو سیاسی مدد مل گئی۔ اس کے پیش نظرانصاف کا تقاضا ہے کہ سنگھ پریوار سے بھی ان کے رشتوں کو جانچ کے دائرے میں لایا جائے۔

ایران نیوکلیائی مذاکرات
ایران کے نیوکلیائی پروگرام پر یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرت کا حالیہ دور (اتوار، ۱۰؍ نومبر) نامکمل رہا ۔ اگلی نشست جنیوا میں۲۰؍ نومبر کو ہوگی۔ یورپی ممالک نے جو متفقہ فارمولہ پیش کیا، ایران اس سے غالباً اس لئے متفق نہیں ہوا کہ اس میں یہ اصرار شامل ہے کہ ایران اپنا نیوکلیائی پروگرام قطعی بند کردے۔ امریکی کانگریس میں صہیونی لابی، اسرائیل اور بعض خلیجی ممالک میں ان مذاکرات کے سے اضطراب پایا جاتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے تو قبل اس کے کہ معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچتا، اس کی مخالفت شروع کردی۔ اس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سوال کیاہے کہ معاہدہ کی تفصیلات کا علم ہوئے بغیر مخالفت کیوں؟ مسٹر کیری کے ردعمل پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ مجوزہ معاہدہ کی تفصیلات اسرائیلی ایجنٹوں نے پہلے ہی نیتن یاہوکو مہیا کرادی ہونگی۔ درایں اثنا ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ جنیوا اجلاس کے دوسرے ہی دن ہند، روس اور چین نے ایک مشترکہ بیان میں نیوکلیائی تحقیق کے ایرانی حق کی تائید کی۔ یہ بیان روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی تحریک پر گوڑ گاؤں سے جاری ہوا جہاں روسی اور چینی وزرائے خارجہ یورپی اور ایشیائی ممالک کی کانفرنس میں شریک ہونے آئے ہوئے تھے۔البتہ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ نیوکلیائی تحقیق عالمی ادارہ ’آئی اے ای ایـ ‘ کینگاہوں کے سامنے ہونی چاہئے۔ یعنی ایران کو اپنی تجربہ گاہیں بین اقوامی معائنہ کے لئے کھول دینی چاہئے۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس کاارادہ ایٹمی اسلحہ سازی کا نہیں۔ البتہ اس کا موقف غالباً یہ ہے کہ نیوکلیائی اسلحہ سازی پر ان ممالک کا واویلا حق بجانب نہیں، جنہوں نے خودبڑیمقدار میں نیوکلیائی اسلحہ کا ذخیرہ کررکھا ہے اور جوچوری چھپے بنائے گئے اسرائیل کے ایٹمی اسلحہ پر بھی خاموش ہیں۔ دراصل اس خطے میں کئی جنگوں ، انسانی حقوق کی پامالیوں، دھینگا مشتی اور دنیا بھر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے بہت کچھ اسرائیل ہی ذمہ دار ہے۔ایران کے پیچھے بھی وہی لگا ہوا ہے۔ ایران یقینا سمجھتاہوگا کہ نیوکلیائی اسلحہ سازی قومی وسائل کو ضائع کرنا ہے۔ آج کی دنیا میں ان کا استعمال کون کرسکتا ہے؟ اسرائیل بھی اپنے مخالف پڑوسی پر ایٹمی حملے کی حماقت نہیں کرسکتا۔

عاشورہ محرم
عاشورہ محرم حضرت امام حسین ؓ کی اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے حق کی گواہی میں جام شہادت نوش فرماکردی۔اس سے متصل گزشتہ ماہ ہم نے حضرت ابراہیم ؑ کی ایمان افروز عظمت کو یاد کیا۔ احتساب کرنا چاہئے کہ ان دو بزرگوں سے خود کو وابستہ کرنے والی امت آج خودکس ڈگر پر چل رہی ہےَ؟جھوٹ اور فریب کرداروں میں رچ بس گیا ہے حتٰی کہ علماء تک غیرمحتاط ہوگئے ہیں۔ سیاست کے شوقین عموماً بغیر تحقیق غیروں کے عائد کردہ الزامات کی تکرارکرتے رہتے ہیں ،حالانکہ غیر تحقیق شدہ بات کو دوہرانا بھی جھوٹ کو فروغ دینا ہے۔ بعض علماء تو اپنے گمان کو حقیقت کی طرح بیان کرتے ہیں۔ ان کی یہ روش عوام کے لئے نمونہ بن جاتی ہے اور پھر گناہ میں ان کی شرکت دوامی ہو جاتی ہے۔ اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 165207 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.