منور حسن کے بیان پر تنقید

(نوٹ: روشنی صرف قرآن اور حدیث میں ملے گی یا پھر ان دونوں کی روشنی سے حاصل ہونے والی حکمت میں ملے گی، باقی سب فکری انتشار ہے، ابہام ہے یا اوہام)

ایک حدیث پاک میں گذشتہ امتوں میں سے ایک امت کے ایک فاسق و فاجر شخص کا واقعہ بیان ہوا ہے، یہ واقعہ دراصل توبہ کی اہمیت اور اللہ کی رحمانیت کو واضح کرتا ہے۔

اس واقعے کا مفہوم یہ ہے، ایک فاسق و فاجر نے ننانوے بے گناہ قتل کر رکھے تھے۔ ایک روز ضمیر نے ملامت پر اس نے توبہ کا ارادہ کیا، لیکن دل میں ڈر بھی تھا کہ اتنے ڈھیر سارے گناہ معاف نہیں ہوں گے۔ اسی الجھن میں ایک خدا رسیدہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا میری بخشش اور مغفرت کا کوئی امکان ہے؟ میں ننانوے قتل کر چکا ہوں۔ اس بزرگ نے انکار کر دیا اور اسے لعن طعن کی۔ فاسق نے اشتعال میں آ کر اسے بھی قتل کر دیا، یوں سو قتل پورے ہو گئے۔ بعد میں پشیمانی ہوئی تو پھر اپنے اُسی سوال کے جواب کے لیے نکلا ’’کیا میری مغفرت ممکن ہے؟‘‘ کسی نے اسے ایک بزرگ کا پتہ بتایا جو دور دراز رہتے تھے۔ سو بے گناہوں کا قاتل انہیں تلاش کرتا ہوا پہنچا۔ اس بزرگ نے اسے مایوس نہیں کیا، اسے بتایا کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے۔ نجات کی صورت یہ ہے کہ توبہ کر کے اپنی بستی سے نکل جا، کہیں اور ٹھکانہ بنا۔ اس شخص نے توبہ کی اور اپنی بستی سے نکل کر کہیں اور جانے کے لیے چلا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ راستے میں موت آ گئی۔ اب اس کی روح کو ٹھکانہ دینے کے لیے عذاب اور ثواب کے فرشتوں میں بحث ہونے لگی۔ عذاب کے فرشتوں کا دعویٰ تھا کہ سو قتل کرنے والا جہنّمی ہے، اسے ہم لے کر جائیں گے۔ ثواب کے فرشتوں کا استدلال تھا کہ یہ تائب ہو گیا تھا، اسے جہنّم میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے پرانی بستی سے لے کر میت تک کے فاصلے، اور میت سے لے کر اس کی نئی منزل تک کے فاصلے کی پیمائش کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم و خبیر ہے۔ ان فاصلوں کی پیمائش سے پتہ چلا کہ میت دونوں بستیوں کے عین وسط میں ہے، البتہ میت کے پاؤں نجات کی بستی سے قریب اور پرانی بستی سے دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ملاحظہ کریں، اُس نے اِس معمولی سے فرق کی بنیاد پر اس قاتل کو بخش دیا اور ثواب کے فرشتے جیت گئے (حدیث کا حوالہ علما سے معلوم کر کے اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے)۔

(نوٹ: اس حدیث سے ابھرنے والے حسنِ ظن کو ہمیں منور حسن صاحب کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے)

بے شک حکیم اللہ محسود ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں ملوث تھا، اس نے توبہ کی تھی یا نہیں، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، البتہ حکیم اللہ علمائے کرام کی اپیل پر امن مذاکرات پر آمادہ ہو کر اپنی سمت بدل چکا تھا اور یہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ امن چاہتا ہے۔ ہم انسان ہیں، بندوں کی نیت نہیں جان سکتے، صرف عمل کو دیکھ سکتے ہیں اور عمل کی بنیاد پر اپنے لیے نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ دوسری بات مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کے نزدیک، پوری زندگی سے بڑھ کر انجام بخیر کی زیادہ اہمیت ہے۔ سیرت نبوی میں ایسے صحابہ کرام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد نہ ایک وقت کی نماز ادا کی، نہ روزہ رکھا، صرف جہاد میں شریک ہوئے، شہادت پائی اور جنت کے مستحق ہوئے۔ یہ ہے انجام بخیر کی ایک مثال۔ اللہ ہمیں بھی اپنی عبادتوں پر زعم اور گھمنڈ سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ فرمائے، آمین۔

حکیم اللہ جس لمحے امن مذاکرات پر آمادہ ہوا وہ اس کی تبدیلی کا نقطۂ آغاز تھا (اور وہ شاید پورے ملک کے لیے بھی مثبت تبدیلی کا آغاز بنتا)۔ پہلے وہ پاکستان کے لیے بوجھ، خسارہ اور فساد تھا، اپنی اس تبدیلی کے بعد وہ پاکستان کے لیے اثاثہ، نفع اور امن کی علامت بننے جا رہا تھا۔ ممکن ہے، مذاکرات کامیاب ہو جاتے۔ بیشتر عوام اور حکومتی حلقے بھی چونکہ امن کے خواہاں تھے اس لیے کامیابی کا امکان زیادہ تھا، لیکن یہاں معاملات میں ایک تیسرا فریق دخل دیتا ہے، حکیم اللہ کو ختم کر کے مذاکرات اور امن کا امکان ہی ختم کر دیتا ہے۔ یہ فریق امریکہ ہے، وہ پاکستان میں امن نہیں مسلسل شورش، بدامنی اور دہشت گردی چاہتا ہے۔ بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے۔
Mansoor Ahmed
About the Author: Mansoor Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.