روداد سفر معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ستائیس رجب سن بارہ نبوی کو معراج کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا تھا اگرچہ واقعہ معراج کی تاریخ مختلف علماء اور فقہاء نے مختلف بیان کی ہیں لیکن ستائیس رجب سب سے زیادہ مشہور ہے اور علامہ زرقانی کی رائے ہے کہ جب کسی قول کو کسی قول پر ترجیح دینے کے لیے کافی دلائل موجود نہ ہوں تو پھر مشہور قول کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔

واقعہ معراج ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ معجزہ عجز سے نکلا ہے۔ معجزہ ایسے خلاف فطرت و محیرل العقل واقعہ کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نبیوں کے ذریعے دنیا کو دکھاتا ہے۔ اور یہ ایسا ہوتا ہے کہ عقل جس کی کوئی توجیہہ نہ پیش کرسکے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پالنے میں کلام کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھیوں کو شفاء دینا، حضرت موسٰٰی علیہ السلام کا عصا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں سے زندہ نکل جانا، اسی طرح اور بہت سے معجزات دنیا میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ بالکل انہی معجزات کی طرح واقعہ معراج بھی ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ معجزہ کسی بھی نبی کا ذاتی فعل نہیں ہوتا بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا نمونہ ہوتا ہے جو کہ وہ اپنے نبی کے ذریعے سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
سُبحٰنَ الَّذِی اَسرٰی بِعَبدِه لَيلًا مِّنَ المَسجِدِ الحَرَامِ اِلَی المَسجِدِ الاَقصَی الَّذِی بَارَکنَاحَولَه لِنُرِيَه مِن اٰيٰاتِنَا اِنَّه هُوَالسَّمِيعُ البَصِيرُ. (بنی اسرائیل : 1)
’’ پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی ایک مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مطالعہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ دیکھنے اور سننے والا‘‘۔

ستائیس رجب بارہ نبوی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چچا زاد بہن ام ہانی کے گھر پر آرام فرما رہے تھے کہ اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفر معراج کے لیے تیاری کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے لیے براق کا انتظام کیا گیا تھا براق سفید رنگ، اور برق کی مانند تیز رفتار جانور ہے اسی خصوصیت کی بناء ہر اسے براق کہا جاتا ہے- یہ گدھے سے کچھ بڑا اور خچر سے کچھ چھوٹا جانور ہے اور اس کا قدم اس کی حد نگاہ پر پڑتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہونے لگے تو وہ چمکا اس پر حضرت جبرائیل نے تھپکی دیکر کہا “ دیکھ کیا کرتا ہے آج تک تجھ پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی شخصیت کا کوئی انسان سوار نہیں ہوا ہے - یہ سن کر وہ شرمندہ ہو کر پسینے پسینے ہوگیا ( مسند احمد، ترمذی، ابنِ جریر ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر پہلے آب زم زم کے پاس لے جایا گیا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ چاک کر کے اس کو زم زم کے پانی سے دھویا گیا اور پھر اسے علم، بردباری، دانائی اور ایمان و یقین سے بھر دیا گیا ( بخاری ،مسلم ،مسند احمد )

سوار ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہل وسلم کی پہلی منزل مدینہ منورہ تھی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی، یہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے یہاں آئیں گے- دوسری منزل طورِ سینا تھی جہاں اللہ رب العالمین حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلا ہوئے تھے۔ تیسری منزل بیت اللحم تھی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔ چوتھی منزل بیت المقدس تھی اور یہاں آکر براق کا سفر ختم ہوا-

بیت المقدس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براق سے اتر گئے اور اسے وہیں باندھ دیا جہاں انبیاء کرام اس کو باندھا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو وہاں تمام انبیاء کرام موجود تھے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کے بعد صف بندی ہوئی اور نماز کی تیاری کی گئی، تمام انبیاء منتظر تھے کہ نماز کی امامت کون کرائے گا، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو امامت کے لیے آگے کیا، اور تمام انبیا کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تین پیالے پیش کیے گئے ایک میں پانی دوسرے میں دودھ اور تیسرے میں شراب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دودھ کو پسند فرمایا، اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مبارکباد دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فطرت کی راہ پا گئے۔

پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا، حضرت جبرائیل نے دروازہ بجایا تو فرشتے نے پوچھا کہ کون آتا ہے؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا ساتھ کون ہے؟ فرمایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں؟ فرمایا کہ ہاں بلائے گئے ہیں۔ اس کے بعد پہلے آسمان کا دروازہ کھلا اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نورانی صورت بزرگ کو دیکھا جن کی بناوٹ، چہرے مہرے میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے دائیں بائیں کچھ لوگ تھے۔ آپ دائیں جانب والوں کو دیکھتے تو مسکراتے اور بائیں جانب والوں کو دیکھتے تو روتے، پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ فرمایا کہ یہ نسل آدم ہے، آدم علیہ ( علیہ السلام ) جب نیک لوگوں کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور برے لوگوں کو دیکھ کر روتے ہیں ( بخاری،مسلم،مسند احمد، )

یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تفصیلی مشاہدہ کرایا گیا، جنت اور دوزخ بھی دکھائی گئی۔ ایک جگہ دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں اور جتنی کاٹ رہے ہیں اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا گیا کہ یہ اللہ کی راھ جہاد کرنے والے ہیں۔ پھر دیکھا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی سر پتھروں سے کچلے جارہے ہیں- پوچھا گیا کہ یہ کون ہیں؟ کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر کی گرانی نماز کے لیے اٹھنے نہ دیتی تھی۔ کچھ اور لوگ دیکھے جن کے کپڑوں میں آگے پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چر رہے تھے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کہا گیا کہ یہ وہ لوگ جو اپنے مال میں سے زکوٰۃ خیرات کچھ نہیں دیتے تھے۔پ ھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جارہے ہیں- پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ کہا گیا کہ یہ غیر ذمہ دار مقرر ہیں جو بے تکلف زبان چلاتے اور فتنہ برپا کرتے تھے۔ ایک اور جگہ دیکھی -ایک پتھر میں زرا سا شگاف ہوا اور اس میں سے ایک بڑا بیل نکلا، پھر وہ بیل دوبارہ اسی شگاف میں جانے کی کوشش کرنے لگا، مگر نہ جاسکا ہوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کہا گیا کہ یہ اس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمہ داری کے ساتھ ایک فتنہ انگیز بات کرجاتا ہے پھر نادم ہوکر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کرسکتا۔ ایک اور مقام پر کچھ لوگ تھے جو اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں ؟ کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر زبان طعن دراز کرتے تھے۔( یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور بھی مشاہدات کرائے گئے مگر ہم نے مضمون کی طوالت کے باعث صرف چند ایک کا ذکر کیا ہے )

انہی مشاہدات کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہایت ترش روئی سے ملا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ اب تک جتنے بھی فرشتے ملے تھے سب نے خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے۔ لیکن ان کی خشک مزاجی کا کیا سبب ہے۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ اس کے پاس ہنسی کا کیا کام، یہ تو دوزخ کا داروغہ ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوزخ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اس نے یکایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کے سامنے سے پردہ اٹھا دیا اور دوزخ اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ نمودار ہوگئی۔( سیرت ابن ہشام )

اس مرحلہ سے گزر کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت یحیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی- تیسرے آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی- چوتھے آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہایت مشابہ تھے تعارف پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ( بخاری،مسلم ،مسند احمد )

پھر مزید آگے بڑھے یہاں تک کہ سدرتہ المنتہیٰ پر پہنچ گئے۔اسی مقام کر قریب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کررکھا ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا نہ کسی ذہن میں اس کا تصور تک آسکتا ہے، یہاں پہنچ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی رک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا اب میں یہاں سے ایک قدم بھی آگے جاؤں گا تو میرے پر جل جائیں گے۔ اس مقام سے آپ اکیلے ہی آگے گئے اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے جلال کا مشاہدہ کیا اور اللہ سے ہم کلامی کا شرف بخشا گیا (بخاری ،مسلم )۔ یہاں کئی باتیں ہوئیں جن میں سے چند یہ ہیں کہ ١) ہر روز پچاس نمازیں فرض ہوئیں ٢) سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں تعلیم فرمائی گئیں ٣) شرک کے سوا دوسرے سب گناہوں کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا ٤) اور بتایا گیا کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کے حق میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں- مگر جو برائی کا اراداہ کرتا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا،جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔( متفق علیہ )

واپسی کے سفر پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی انہوں نے فرمایا کہ مجھے اپنی امت کا تلخ تجربہ ہے اور اسلئے میرا خیال آپ کی امت پچاس نمازوں کی پابندی نہیں کرسکتی اس لیے واپس جاکر اس میں کمی کرائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس گئے اور اللہ نے دس نمازیں کم کردیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی انہوں نے پھر وہی بات کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر واپس گئے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار جاتے رہے اور ہر بار دس نمازیں کم کی جاتی رہیں اور آخر کار پانج نمازیں فرض کی گئیں اور اللہ رب العزت نے ان پانج نمازوں کے بارے میں فرمایا کہ یہی پانج نمازیں پچاس کے برابر ہیں ( متفق علیہ )
و
اپسی کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ بیت المقدس آئے اور یہاں پھر تمام پیغبر موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ ان کو نماز پڑھائی۔ پھر براق پر سوار ہوئے اور مکہ واپس پہنچ گئے ( البدایہ و النہایہ ج ٣ ص ١١٢-١١٣ ) صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی کو یہ واقعہ سنایا، پھر نکل کر حرم کعبہ میں پہنچے تو ابو جہل سے سے آمنا سامنا ہوا -اس نے کہا کوئی تازہ خبر فرمایا کہ ہاں میٰں آج رات بیت المقدس گیا تھا- ابو جہل نے پوچھا بیت المقدس؟؟ راتوں رات ہو آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس نے پوچھا کہ قوم کو جمع کروں ان کے سامنے یہ بات کہو گے؟ فرمایا بے شک۔ابو جہل نے آوازیں دیکر سب کو جمع کرلیا اور کہا اب کہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے سامنے پورا قصہ بیان کیا- لوگوں کو نے مذاق اڑایا، حضرت ابو بکر کو یہ خبر سنا کر کہا کہ نعوذ باللہ تمہارا صاحب تو دیوانہ ہوگیا ہے وہ کہتا ہے کہ ایک ہی رات میں بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کر کے آئے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً اس کی تصدیق کی اور کہا کہ “اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے تو واقعی درست ہوگا۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے میں تو روز سنتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے پیغام آتے ہیں اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ( اسی واقعہ معراج کی صداقت کی تصدیق کرنے پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت سے صدیق کا لقب عطا کیا گیا )

قریش مکہ نے پوچھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی بیت المقدس گئے ہیں تو ہمیں اس کا نقشہ بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالکل ٹھیک ٹھیک ایسے جیسے کوئی نقشہ رکھا ہو ایسی طرح بیت المقدس کا نقشہ بیان کیا۔ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے جو تجارت کے سلسلے میں بیت المقدس جاتے رہتے تھے وہ دل سے قائل ہوگئے کہ نقشہ بالکل درست ہے۔ مزید ثبوت مانگنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں فلاں مقام پر فلاں قافلے کے اوپر سے گزرا تھا جس کے ساتھ یہ یہ سامان تھا۔ قافلے والوں کے اونٹ براق سے بھڑکے،ایک اونٹ فلاں وادی کی طرف بھاگ نکلا، میں نے قافلے والوں کو اس کا پتہ دیا، واپسی پر فلا وادی میں فلاں قافلہ مجھے ملا، وہ سب سو رہے تھے، میں نے ان کے برتن سے پانی پیا اور اس بات کی علامت چھوڑ دی کہ اس میں سے پانی پیا گیا ہے۔ ایسے ہی کوچھ اور نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائیں جن بعد میں آنے والوں نے قافلوں نے تصدیق کی ( بخاری ۔مسلم،مسند احمد،ابن جریر ) اس طرح یہ اعتراضات کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے-
مضمون کا ماخذ سیرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم جلد دوم
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1463734 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More