شروٹ نالے میں مسلسل دہشتگردی؟

ملک کے دیگر حصوں میں جس انداز سے شیعہ آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے بالکل اسی انداز سے گلگت بلتستان میں بھی شیعہ آبادی کو نہ صرف ٹارگٹ کیا جارہا ہے بلکہ دوران سفر بھی انہیں قتل کرکے اپنے مذہبی فریضے کو پورا کرنے میں وقت کے مسلماں اپنا ثانی نہیں رکتھے ہیں۔چونکہ ان کے عقیدے کے مطابق لوٹ مار، مساجد، امام بارگاہوں کو بم سے اُڑانا،معصوم انسانوں کو بے دریغ قتل کرنا،راہ چلتے مسافروں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو پاما ل کرنا، ملک کے تمام حساس اداروں پر حملہ کرنا، فورس کے جوانوں کو شہید کرنا کسی طرح بھی اسلام اور ملک کو نقصان پہنچانا اور زمین پر فساد پھیلانا جائز اور کار ثواب میں شامل ہے۔چونکہ ان کے مروج شدہ اسلام میں یہ عظیم امور اور نیکی تصور کی جارہی ہے۔سانحہ کوہستان،سانحہ لولوسر،سانحہ چلاس میں اہل تشیع کو شناخت کرکے چن چن کر قتل کیا گیا۔ان مقتولین میں گلگت بلتستان کے ہر علاقے کے لوگ شامل تھے۔جبکہ میناور میں مسافر گاڑی پر بم پھینکا گیا، تو کہیں وزیرستان میں جہاد کی تربیت حاصل کرکے آنے والوں کی نشاندہی بھی کی گئی،ساتھ یہ بھی یہاں کی انتظامیہ نے واضح کیا کہ ان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ گلگت میں مسلکی فسادات مذید پھیل جائیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ اتحاد چوک میں انہیں طرز کے لوگوں نے گرنیڈ پھینکا تھا چونکہ فساد فی الارض ان کا بنیادی مقصد ہے۔اسی طرح شروٹ اور بارگو کے لوگوں کو بھی موقع مناسبت سے قتل در قتل کیا جارہا ہے۔شروٹ بارگو سے گلگت آتے ہوئے متعدد بار راستے میں گھات لگاکر مسافروں کو شہید کیاگیا تو کسی کو زخمی، ان میں ایک پرائمری کلاس کی لڑکی بھی شامل تھی ۔سرحد کی ملالہ تو برطانیہ کی شہریت حاصل کرچکی ہے مگر ہماری ملالہ قبر میں ہمیشہ کے لئے سوچکی ہے۔شروٹ کے جنگل میں1992ء میں دہشتگردوں نے حملہ کرکے ایک ہی گھر کے 2جوانوں کو شہید کر ڈالا اور کافی تعداد میں مویشی بھی اپنے ساتھ لے گئے۔گاؤں میں کہرام برپا ہوا مگر قاتلوں کو کچھ پتہ نہیں چلا۔اس واقعہ کے کئی سال بعد ایک اور واقعہ شروٹ کے جنگل میں رونما ہوا،اس واردات میں بھی اہل تشیع لقمہ اجل بنے اور ان کے مویشی بھی لے گئے۔شروٹ کے جنگل میں ایک بڑی واردات کی غرض سے آنے والے دہشتگردوں کو وہاں ڈیوٹی پر موجود شرورٹ کے جوانوں نے انہیں ناکام بنادیا،اس کے بعد پھر ایک دفعہ دہشت گرد وارد ہوئے اور مشتاق نامی جوان کو زشہید کر ڈالا اور شکور جان کو زخمی کیا اپنے ساتھ مویشی بھی لے کر گئے۔شروٹ کے لوگوں کو راستے میں بھی ٹارگٹ اور اپنے جنگل میں اپنی چراگاہ میں مال مویشی رکھنے والوں کو بھی مسلسل ٹارگٹ بنایا جارہا ہے اور اب تک کوئی قاتل نہیں پکڑا گیا ہے۔ماضی کی دردناک وارداتوں کی یاد بھولے نہ پائے تھے کہ گزشتہ دنوں ایک اور واردات شروٹ کے جنگل میں ہوا۔رحمان شاہ بھائی جو اپنی پوری زندگی مویشی کے پیچھے جنگل میں گزاری اور وہ کبھی کبار ہی گاؤں آیا کرتا تھا،جو ایک پرانا چرواہا اور ایک بے ضرر انسان تھے، انہیں دہشتگروں نے اغوا کرکے ذبح کر ڈالا اور وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے۔معلومات کے مطابق شروٹ جنگل میں 5سے6پولیس اہلکار موجود رہتے ہیں ان کی موجودگی میں بھی یہ دہشتگرد کامیاب ہوئے۔وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک اور پولیس کا کہنا ہے کہ مجھے جنگل کے درخت کے ساتھ بھاندا گیا تھا۔خدا بہتر جانتا ہے یہ ڈرامہ ہے۔ملی بھگت ہے یا واقعی حقیقت ہے۔ایک پولیس والے کو دہشت گرد اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں جب تک وہ بازیاب نہیں ہوتا تب تک حقیقت سامنے نہیں آسکتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ اغوا شدہ پولیس بازیاب ہونے پر دہشتگردوں کی پہچان ہوسکتی ہے۔اب تک شروٹ جنگل میں5 مرتبہ وارداتیں ہوئیں ہیں مگر کسی ایک دہشتگرد کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔لگتا ایسا ہے شروٹ کو خالی کرانے کی ایک سازش چل رہی ہے۔شروٹ کے معززین کاکہنا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنا جنگل خالی نہیں چھوڑیں گے اب ہم مذید مال مویشی کریں گے اور چرواہوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ہمیں یوں محسوس ہورہا ہے کہ اگر ہمارا جنگل خالی ہوا تو1988ء کی طرح یا ،رات کی تاریکی میں شروٹ پر یلغار ہوسکتا ہے اور ہم اس بات کو پہلے سے ہی بھانپ گئے ہیں چونکہ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارا تعلق شیعہ مکتب سے ہے۔رحمان شاہ شہید کی میت کو جب جنگل سے گاؤں میں لایا گیا تو ایک کہرام مچ گیا ہر آنکھ اشک بار تھی کی ایک ایسا بے ضرر انسان جو جنگل کا باشندہ بنا تھا ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی بس وہ اپنے مویشیوں سے ہی پیار کرتا تھا اور مال مویشی کو اپنی اولاد کی طرح چاہتا اور دیکھ بھال کرتا تھا۔رحمان شاہ شہید کے اپنے بیٹے بھی پولیس فورس میں ہیں ویعنی پولیس فورس کا گھر بھی محفوظ نہ رہا؟شروٹ کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اب بھی ہم گلگت جاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں اور یہ روڈ ہمارے لئے محفوظ نہیں ہے۔جبکہ شروٹ کے جنگل میں جب بھی دہشت گردی ہوئی ہے اس کا سرا دیامر سے ہی جاملتا ہے،اب غیرملکیوں پر حملے اور پاک آرمی اور پولیس فورس پر حملے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مقامی طالبان سرگرم عمل ہیں جو گلگت کے باسی جو صدیوں سے رہ رہے ہیں آپس میں رشتے ناطے ہیں ہیں اور ہم سب کے مشترکہ مفادات اور نقصانات بھی ایک ہیں۔یہ دہشتگرد ہمارے درمیان نفرتوں کو تقویت دے کر یہاں سامراجی طاقتوں کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔اگر اس مرتبہ بھی دہشتگت گردوں کو نہیں پکڑا گیا تودہشت گرد وں کو مذید حوصلہ ملے گا اور وہ پھر کسی اہل تشیع کی جان لینے پر آمادہ ہونگیں۔شہید رحمان شاہ کے اہل خانہ عزیز ،اقارب اور شروٹ کے عوام کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ جلد از جلد دہشتگردوں کو گر فتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے اور شروٹ جنگل میں پولیس کے بجائے گلگت اسکاؤٹس کی چوکی بنائی جائے۔جبکہ ماضی میں شروٹ جنگل میں ہونے والے واقعات میں ملوث دہشتگردوں کو قانون کے شکنجے میں لاکر سزا دی جائے۔شروٹ کے اہل تشیع نہ جنگل میں محفوظ ہیں اور نہ گلگت آتے ہوئے محفوظ ہیں،ساتھ حکومت کی بے حسی کی وجہ سے مایوس بھی ہوچکے ہیں۔اگر شروٹ کے عوام کے گہرے زخموں پر مرحم رکھنا ہے تو جلد از جلد قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اگرحکومت وہاں پر اکاؤٹس کی چوکی نہیں بنا سکتی ہے تو ہمارے بیروزگار10جوانوں کو مپکی ملازمت دیں اور وہ تاکہ وہ دلجمعی سے اپنا فریضہ ادا کریں گے۔ آئیں دعا کریں کہ شہید رحمان شاہ کو خدا وند تبارک اپنی رحمت کی چھاؤں میں جگہ عطا فرمائے اور لوحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے(آمین)

Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 3 Articles with 3027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.