لاہور: درندہ نہ پکڑا جائے تو اچھا ہے

جدہ کی کنگ عبداعزیز یونیورسٹی میں ایک ریسرچ سینٹر ہےجس کا نام "اسلامک اکنامکس ریسرچ سینٹر ہے" میں نے اُس سینٹرمیں کافی عرصہ ملازمت کی ہے، سینٹر میں ڈاکڑز اور باقی اسٹاف کی اکنامکس سدھر رہی تھی۔ سینٹر میں وحید خان نامی ایک ہندوستانی لابریرین ہوا کرتے تھے، ایک دن وہ بہت غصے میں آئے اور پوچھنے لگے کیا اس سینٹر میں کوئی اسلامی کام بھی ہوتا ہے، اس سینٹر میں تو باتھ روم بھی انگریزی طرز کے ہیں۔ جواب میں میں نے اُنکو کہا وحید صاحب جس دن اس سینٹرمیں اسلام آگیا ہم سب اس سینٹر سے باہر کھڑئے ہونگے۔ کچھ یہ ہی حال پاکستان کا ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جس دن اسلام آگیا، اسکے بعد آپکو اس ملک میں کم از کم درندئے نہیں ملینگے۔

اکیسویں صدی کی دنیا میں پاکستان، جہاں ہم رہ رہے ہیں وہ ایک بھیانک اور وحشت ناک جنگل ہے اور اس جنگل کی خاصیت یہ ہے کہ یہ عام جنگلوں سے ہٹ کر ہے کیوں کہ اس میں درندہ صفت جانور نہیں بلکہ درندہ صفت انسانوں کا راج ہے۔اس صدی میں جہاں انسان ترقی یافتہ دور میں داخل ہوچکا ہے ، وہاں یہ جنگل بھی خاطر خواہ ترقی کرتے ہوے اپنے درندہ پن کی وجہ سے گلوبل دنیا میں علیدہ پہچانا جاتا ہے۔ اس جنگل میں دو قسم کی مخلوق بستی ہیں،ایک بےکس اور مجبور عوام اور دوسرئے درندئے۔ درندوں کی کئی اقسام ہیں، ان کی خوراک لوٹ مار، انسان کا خون بہانا اور معصوم عورتوں اور بچیوں کے ساتھ ظلم کرنا ہے۔ یہ درندہ صفت انسانی شکل میں بھیڑیے کسی کے لیے بھی کسی وقت بھی کسی سے بھی بغیر کسی وجہ کے دشمنی کرسکتے ہیں۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنیوالے اسلامی ملک میں درندوں کا وہ راج ہے جو کم ازکم کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ معصوم بچوں اور بچیوں کی ساتھ درندگی کے واقعات آپکے علم میں ہونگے۔لاہور میں ہونے والے واقعہ پر الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا ان واقعات پر نوحہ خانی کر رہاہے، سیاسی و مذہبی قائدین اس واقعہ کی مذمت کر رہے ہیں اور ملزم کی گرفتاری اور اُس کو قرارواقعی سزادینے کے راگ بھی الاپ رہے ہیں،انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں مظاہروں کے ذریعے اس جیسے واقعات کی مذمت کر رہے ہیں۔ پولیس نے بھی اُس درندئے کا اسکیچ جاری کردیا ہے، مگر میں سوچ رہا ہوں کہ درندہ نہ پکڑا جائے تو اچھا ہے، ورنہ درندے کے پکڑے جانے کے بعد آپکو اور بہت سارئے مکرودہ چہرئے بھی دیکھنے پڑینگے، ایک بےغیرت وکیل یہ ثابت کرنے کےلیے تیار ہوجایگا کہ مجرم بےگناہ ہے، اُسکو نفسیاتی مریض اور پاگل ثابت کرنے کےلیے کسی بےضمیر ڈاکٹر کا سرٹیفیکٹ لے آئے گا، آخر سربجیت سنگھ کا بھی بھی تو وکیل تھا۔ پھر ایک عدالت سے دوسری عدالت، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں دس پندرہ سال تو لگ ہی جاینگے، اُس وقت تک کس کو یاد رہے گا کہ کیا ہوا تھا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ حکومت اس کیس کو ایک ایسی عدالت میں لےجاتی ہے جہاں جلد فیصلہ ہوجائے اوراگر کسی بے خوف اور باضمیر جج نے اسکو سزائے موت دئے دی تو پھر انصار برنی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کرتا دھرتوں کے پیٹ میں درد اٹھے گا کہ پھانسی کی سزا تو انسانیت کےخلاف ہے۔ ویسے بھی اس ملک میں درندوں کو کھلی آزادی ہے، چاہے وہ طالبانی دہشت گرد درندئے ہوں، ٹارگیٹ کلر ہوں، اسٹریٹ کریمنلز ہوں، سزا کا خوف کسی کو نہیں اور ہو بھی کیسے، اول تو پکڑئے نہیں جاتے، بس ان کا ایک ہی نام ہے "نامعلوم" اور اگر یہ پکڑئے جایں تو ہماری جیلیں اُن کی آرام گاہیں ہوتی ہیں۔ عوام کے دیے ہوئے ٹیکس کے پیسوں سے مجرم اور درندئے پل رہے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں درندہ صفت انسانوں کا راج ہے۔ وجہ سیدھی سیدھی یہ ہے کہ ملزم اور مجرم میں فرق نہیں ہے، ملزم وہ ہوتا ہے جس پر ایک جرم کا الزام ہوتا ہے، اور مجرم وہ ہوتا ہے جس پر الزام ثابت ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مجرم سزا کے بعد بھی ملزم ہی رہتا ہے۔ سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت جو خود مجرموں کا ایک ٹولہ تھی اُس کے تمام دور میں کسی ایک پھانسی کے مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی بلکہ مجرموں کو ہرطرح بچانے کی کوشش کی گئی۔ نواز شریف حکومت آنے کے بعد کچھ مجرموں کو پھانسی دینے کا اعلان ہوا لیکن دہشت گردوں کی ایک دھمکی کے بعد وہ اعلان واپس لےلیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وجہ یہ بتائی گئی کہ یورپی یونین اس کی مخالف ہے اور اگر ہم نے پھانسی کی سزا پر عمل کیا تو وہ ہمارئے ساتھ تجارت نہیں کرینگے جبکہ یورپی یونین کے آقا امریکہ میں اب بھی پھانسی دی جارہی ہیں، شک تو اب یہ بھی ہے کہ کشکول توڑنے والے کل دوبارہ کشکول لیکر آئی ایم ایف کے پاس جایں تو وہ بھی یہ حکم نامہ جاری نہ کردیں کہ خبردار اگر کسی کو سزا دی تو تمارا کشکول نہیں بھرینگے۔ گذشتہ چند دنوں میں معصوم بچیوں کےساتھ دردنگی کے جو واقعات ہوئے ہیں کم از کم شہباز شریف استعفی تو دور کی بات ہے، وہ کم از کم پنجاب حکومت کی نااہلیت پر ہی شرمندگی کا اظہارکردیتے۔ جس ملک میں مجرم کو اُسکے جرم کی سزا نہ ملتی ہو وہاں اگر لاہور کے واقعے کا درندہ نہ پکڑا جائے تو اچھا ہی ہوگا، ورنہ قوم کو وکیل اور ڈاکٹر کے علاوہ اور بہت ساری مکرودہ شکلیں بھی دیکھنی پڑئے گی جو ابھی تک پردئے میں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو صرف نام کی حد تک ہی "اسلامی جمہوریہ پاکستان" رکھا ہوا ہے، ورنہ اسلام میں تو ہرجرم کی سزا لازم ہے۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 447860 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More