اسلام آباد واقعہ اور میڈیا کی چابکدستی

ملک درحقیقت بھی دہشت گردی کی زد میں ہے اور پھر اس میں کچھ ایسے واقعات بھی ہو جائیں کہ جس پر ڈرامے کا گمان ہو یا اُسے ڈرامہ بنا کر پیش کیا جائے بلکہ اُسے گلیمرائز کیا جائے تو قوم اپنی قومی بے بسی پر مزید نوحہ کناں ہو جاتی ہے ۔ایسا ہی واقعہ 15 اگست کو پیش آیا جب بظاہر ایک عام سے حلیے اور خدوخال والا شخص سکندر اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اسلام آباد کے اہم ترین علاقے جناح ایونیو پر پہنچ گیا اور پولیس کے روکنے پر فائرنگ شروع کردی، اگر چہ سوال تو اٹھتا ہے کہ اتنے ناکے، اتنی پولیس پھر یہ سب کیسے ہو جاتا ہے لیکن یہاں ہماری روایات بھی آڑے آجاتی ہیں کہ بیوی اور بچوں کے ہمراہ شخص کو احتراماََ بھی گزرنے دے دیا جاتا ہے اور شاید یہی کچھ یہاں ہوا ہو گا ۔بہر حال پولیس نے اس موقعے پر کافی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا اور پانچ گھنٹے ایک مسلح شخص کو اس طرح قابو کیے رکھا کہ کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن چونکہ بد قسمتی سے ہماری پولیس نہ صرف یہ کہ نیک نام نہیں بلکہ کچھ لوگوں کی وجہ سے ہی سہی خاصی بدنام ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی اچھی یا معقول کار کردگی کو بھی دشمنا نہ ر ویے کی نظر کر دیا جائے جیسا کہ اس فلم نما واقعہ کے وقت کیا گیا۔ میڈیا گروپس نے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی بھر پور کوشش کی اورایک ایک کیمرہ استعمال کرنے کی بجائے تین تین کیمرے استعمال کیے گئے تاکہ کوئی زاویہ ،نگاہ سے اوجھل نہ رہے۔ براہ راست نشریات کے فوائد تو ہیں لیکن نہ تو یہ کسی کھیل کا کو ئی مقابلہ تھا نہ کوئی سیاسی جلسہ بلکہ اس براہ راست نشر یے نے اس واقعے کو سنجیدگی سے حل ہونے کی بجائے ایک غیر سنجیدہ واقعہ بنا کر رکھ دیا ۔عوام بھی لائیو کوریج کے شوق میں جائے و قوعہ سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور پولیس کے لیے مسلسل مشکلات پیدا کی جا رہی تھی جس کا احساس اس وقت تو بالکل نہیں کیا گیا البتہ بعد میں مختلف اینکرز خود میڈیا کی اس غیر ضروری چا بکدستی کو ہدف تنقید بنا رہے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ پولیس بھی اُن کی دست بردسے محفوظ نہیں تھی۔ دراصل پچھلے کچھ سالوں سے یہ ایک فیشن بن چکا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر تنقید کی جائے اور پچھلے دو چار ماہ سے تو یہ ادارے حکومتی اور میڈیا تنقید کی زد میں ہیں باوجود اس کے کہ یہ ادارے مسلسل اپنے اہلکاروں کی قربانیاں دے رہے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ الزامات دشمن ملک اور طاقتوں کی طرف سے لگائے جاتے تھے مثلاََ وہاں ہونے والے ہر واقعہ کا ذمہ دار آئی ایس آئی تھا لیکن اب یہ سب کچھ کرنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ خود اپنے ہی یہ کام کر لیتے ہیں اور اگر باہر سے الزام لگے تو اُس کو ثابت کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کا میڈیا اور دانشور دور دراز کا سفر کرنے نکل پڑتے ہیں اور حقیقت اور خیال، مستند اور غیر مستند ساری خبریں ملا کر ایک ایسی رپورٹ مرتب کر لیتے ہیں کہ دشمن کو زحمت نہیں کرنا پڑتی اور بین الا قوامی سطح پر اُنکے موقف کی تائید بھی ہو جاتی ہے اور پزیرائی بھی اور اپنے ملک کی بدنامی بھی لیکن رپوٹر ، اینکر اور چینل کی ریٹنگ آسمان کو چھوجاتی ہے منافع بھی مل جاتا ہے اور شہرت بھی۔

اسلام آباد واقعے کو کچھ دیر کے لیے براہ راست نشر کرنا یا وقتاََ فو قتاََ جھلکی دکھا دینا یا خبر دے دینا تو قابل فہم تھا لیکن پانچ گھنٹے کے لیے لمحہ لمحہ کی خبر دینا، پوری قوم کو مفلوج کرکے ٹی وی کے سامنے بٹھا دینا کوئی دانشمندی نہیں تھی اور وہ بھی جب قوم سالہا سال سے ایسے حالات سے گزر رہی ہو کہ کوئی ان کا پر سان حال نہ ہو کوئی حالات کی ذمہ داری نہ لے بلکہ ہر ایک اسے دوسرے پر ڈالتا رہے، حکومت کا بدلنا صرف چہروں کا بدلنا ہو باقی بے فکری کا وہی عالم ہو جو پچھلی حکومتوں کا ہو اور اگلی حکومت پچھلی حکومت کو اور پچھلی، اگلی کو دوش دیتی رہے۔ ساری ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی جاتی رہے اور حکمران بری الذمہ ہوتے رہیں تو حالات بدلنے کی صورت کہاں سے بنے گی اور اس بات کا احساس ہی نہ کیا جائے کہ اگر ایجنسیاں کام نہیں کر رہیں یا پولیس ناکارہ ہے تو کمزوری کہاں ہے حکومت اُن کے سامنے بے بس کیوں ہے کہ اُن کی اتنی سخت شنوائی نہ کر سکے کہ اُنہیں مجبوراََ ہی سہی کام کرنا پڑے۔ کہیں اس سب کچھ سے حکمرانوں کے مفادات تو وابستہ نہیں اور عوام کا یہ گمان درست تو نہیں کہ کرسی اور دولت ان کی واحد ضرورت ہے جسے وہ بڑی سہولت سے پورا کر رہے ہیں۔

یہ وقت سنجیدگی دکھانے کا ہے سکندر کے نام کا فائدہ اٹھا کر اُسے مقدر کا سکندر اور سکندر اعظم جیسے طنز یہ ہی سہی خطابات دینے کا نہیں۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اس واقعے کو اتنی کوریج نہ دی جاتی تو اِسے بہت جلد ختم کیا جا سکتا تھا ۔ یہ سچ ہے کہ میڈیا نے آج کے معاشروں کا رخ بدل دیا ہے اور یوں ریاستی ادارے بلکہ ریاستی ستون کی حیثیت حاصل کرلی ہے تو اُسے اس ذمہ داری کا احساس بھی کرنا ہوگا ۔سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے والے اینکرز جب واقعے کے بعد لائیوکوریج کو میڈیا کی غلطی قرار دے رہے تھے تو اُنہوں نے یہ مشورہ پہلے ہی اپنے مالکان کو کیوں نہیں دیا تا کہ معاملہ اتنا طول ہی نہ پکڑتااور پوری دنیا میں ملک کی سبکی نہ ہوتی۔ یہ منصوبہ بندی اگر پہلے ہی کردی جائے کہ کس معاملے کو کتنی اہمیت دی جائے اور آیا اُسے براہ راست دکھایا جائے یا بعد میں رپورٹ دکھائی جائی اور ایک ضابطہئ اخلاق بھی مرتب کیا جائے جس میں میڈیا کو پابند کیا جائے کہ ریاستی اداروں پر تنقید کو قومی سلامتی پر حملے کی حد تک نہ لے جایا جائے ۔میرا یہ کہنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ انہیں تنقید سے مبرائ قرار دیا جائے ،تنقید ہو اور ضرور ہو تاکہ یہ ادارے بھی شتر بے مہارنہ بنیں لیکن ان کی اچھی کار کردگی پر انہیں سر اہنا بھی ضروری ہے تا کہ اِن کا بھی حوصلہ بڑھے اور اپنی کارکردگی اور مہارت کو بہتر بنا سکیں اور دنیا بھر میں ملک کی جو پہلے ہی بدنامی ہو رہی ہے اس میں خود ہماری ہی وجہ سے اضافہ نہ ہو۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ملک کی ساکھ کو دائو پر لگانا کسی بھی طرح ملک دوستی اور دانشمندی نہیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 514567 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.