حقیقت میلاد النبی - ساتواں حصہ

جملہ مناسکِ حج اَنبیاء علیہم السلام کی یادگار ہیں:-

حج کو شہادت اور نماز کے بعد تیسرے رُکنِ اِسلام کا درجہ حاصل ہے۔ فریضہ حج کی بنیاد اور تمام مناسکِ حج درحقیقت حضرت ابراہیم، حضرت اسمٰعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی زندگی کے عظیم واقعات سے عبارت ہیں۔ انہوں نے صبر و استقامت، اطاعت اور قربانی کے جو نقوش چھوڑے رب کریم نے ان کی یاد منانے کو اُمتِ مسلمہ کے لیے فرض عبادت قرار دے دیا۔ دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ہر سال مکہ مکرمہ جا کر ان کی یاد مناتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس فریضہ سے سرخرو ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے محبوب بندوں نے جو لمحات اپنے معبودِ حقیقی کی محبت و اطاعت اور سوزِ عشق میں گزارے اﷲ نے انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔ وہ قدم جو اس کی یاد میں اٹھے، دوڑے اور تڑپے، اﷲ نے انہیں اپنی نشانیاں قرار دے دیا۔

اللہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی آنکھیں برسات کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں، آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور جذبہ عشق و مستی کی تسکین کا سامان ہونے لگتا ہے۔ خانہ خدا میں قدم رکھتے ہی بندگانِ خدا کعبۃ اﷲ کا طواف شروع کر دیتے ہیں اور حجرِ اَسود کی طرف دیوانہ وار لپکتے ہیں اور دھکم پیل کے باوجود بڑی محنت و جاں فشانی سے اس کے قریب پہنچتے اور اسے بوسہ دیتے ہیں اور پھر صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں۔ نویں ذی الحج آتی ہے تو ہر حاجی بے اختیار میدانِ عرفات کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا کرتا ہے۔ مزدلفہ میں مغرب کے وقت وہ نماز نہیں پڑھتا بلکہ اسے عشاء کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھتا ہے پھر منٰی پہنچ کر رمی کرتا ہے اور قربانی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔

ان تمام اُمور کی کوئی عقلی توجیہ ممکن نہیں۔ سارے معاملات عشق و جنوں کے آئینہ دار ہیں۔ عقل سے لاکھ پوچھا جائے کہ ان سب معمولات کی حقیقت کیا ہے مگر اسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ جب یہی سوال عشق سے پوچھا جاتا ہے تو جواب آتا ہے کہ حج کے ہر عمل کے پیچھے محبت و وارفتگی کی کوئی نہ کوئی ادا چھپی ہوئی ہے۔ اپنے محبوب بندوں کی اداؤں کو اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے اتنا پسند فرمایا کہ انہیں قیامت تک فرض عبادت کا درجہ دے دیا۔ باری تعالیٰ کو ان کی نسبتیں اتنی عزیز ہیں کہ انہی کے رنگ ڈھنگ اور انداز و اطوار کو اپنا لینا عین عبادت قرار پایا۔ حج انہی افعال و اعمال کے دہرائے جانے سے عبارت ہے جن سے اﷲ کے مقبول بندوں کی کوئی نہ کوئی یاد وابستہ ہے۔

حج اُن فرض عبادات میں سے ہے جس کے جملہ مناسک دراصل رب کریم کے برگزیدہ انبیاء کی محبوب عبادات، اداؤں اور معمولات کی یاد منانے پر مشتمل ہیں۔ مناسکِ حج سراسر یاد منانا ہے۔ اللہ کے ایک محبوب بندے نے کوئی عمل کیا اور ایسی کیفیت میں ڈوب کر کیا کہ اللہ رب العزت نے اس کی توقیر کرتے ہوئے اپنے سب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لیے اسے فرض عبادت کا درجہ دے دیا۔ ان افعال کو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے منسوب ہیں، مناسک حج کا حصہ بنا دیا گیا اور ان کا بجا لانا ہم پر لازم ہے۔ 8 ذی الحج سے 13 ذی الحجہ تک ادا کیے جانے والے ان مناسک کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے :

1۔ اِحرام انبیاء کرام علیھم السّلام کے لباسِ حج کی یادگار ہے:-

مناسک و آدابِ حج و عمرہ کی ادائیگی کے حوالے سے ایک قابل ذکر عمل احرام باندھنا ہے جو تمام طواف کرنے والوں کے لیے لازم ہے۔ دو چادروں پر مشتمل یہ وہی لباس ہے جسے دورانِ حج انبیاء کرام علیھم السلام زیب تن فرماتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ کو یہ بہت پسند آیا، اور حجاج کے لیے لازم قرار پایا کہ وہ اپنے علاقائی رواج کے مطابق سلا ہوا لباس اتار پھینکیں اور فقط دو چادریں اوڑھ لیں۔ ان میں سے ایک چادر بطور تہبند استعمال کی جاتی ہے جب کہ دوسری سے جسم ڈھانپا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف کونوں سے آئے ہوئے عازمینِ حج احرام کی چادروں سے جسم ڈھانپ کر سنتِ انبیاء علیہم السلام کی اتباع میں ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ لباس ستر (70) انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں زیب تن کیا، اس کی تصریح درج ذیل روایات سے ہوتی ہے :

1۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لقد مرّ بالصخرة من الروحاء سبعون نبياً، منهم موسي نبي اﷲ، حفاة، عليهم العباء، يؤمون بيت اﷲ العتيق.

’’اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت 70 انبیاء (مکہ اور مدینہ کے درمیان) روحاء کی پتھریلی جگہ سے ننگے پاؤں گزرے ہیں، وہ ایک چادر زیب تن کیے ہوئے بیت اللہ جا رہے تھے۔‘‘

1. أبو يعلي، المسند، 13 : 201، 255، رقم : 7231، 7271

2۔ ابو یعلٰی نے ’’المسند (7 : 262، رقم : 4275)‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت نقل کی ہے۔

3. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 433، رقم : 5328
4. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 1 : 260

5۔ منذری نے ’’الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف (2 : 118، رقم : 1739)‘‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث کی سند پر کوئی اِعتراض نہیں۔

6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 61 : 166
7. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 220

2۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اِحرام بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کأني أنظر إلي موسي بن عمران في هذا الوادي محرماً بين قَطَوانيتين.

’’میں نے اس وادی میں موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دو قطوانی (کوفہ کے علاقہ قطوان سے منسوب سفید) چادروں پر مشتمل اِحرام پہنے دیکھا ہے۔‘‘

1. أبو يعلي، المسند، 9 : 27، رقم : 5093
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 142، رقم : 10255
3. طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 308، رقم : 6487
4. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 4 : 189

5۔ منذری نے ’’الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف (2 : 118، رقم : 1740)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے ابو یعلٰی اور طبرانی نے حسن اِسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (3 : 221)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت ابو یعلٰی اور طبرانی نے بیان کی ہے اور اس کی اسناد حسن ہے۔

3۔ حج کے موقع پر انبیاء کرام کے چادریں اوڑھنے کے اس طریقہ کو حضرت عبد اﷲ بن عباس اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم کے ہونہار شاگرد مجاہد بن جبیر مکی نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حج کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

حج موسي النبي عليه السلام علي جمل أحمر، فمرّ بالروحاء، عليه عباء تان قطوانيتان، متزر بإحداهما مرتدي بالأخري، فطاف بالبيت.

’’اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام حج کے اِرادہ سے سرخ اونٹ پر روانہ ہوئے، وہ روحاء کے مقام سے گزرے۔ ان کے اوپر دو قطوانی (سفید) چادریں تھیں جن میں سے ایک انہوں نے تہبند کے طور پر باندھی ہوئی تھی اور دوسری جسم پر اوڑھ رکھی تھی۔ پس انہوں نے (اسی حالت میں) بیت اللہ کا طواف کیا۔‘‘

أزرقي، أخبار مکة وما جاء فيها من الآثار، 1 : 67

4۔ ایک روایت میں حضرت ہود اور صالح علیہما السلام کا لباس بھی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سفرِ حج کے دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی عسفان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِستفسار فرمایا : ابو بکر! یہ کون سی وادی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : وادئ عسفان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لقد مر به هود وصالح علي بَکَراتٍ حُمْرٍ خُطُمُها اللِّيْفُ، أُزُرُهم العباء، وأردِيَتُهُم النِّمارُ، يُلَبّون يَحُجُّون البيتَ العتيقَ.

’’یہاں سے ہود اور صالح (علیہما السلام) جوان سرخ اونٹنیوں پر گزرے ہیں جن کی مہاریں کھجور کی چھال کی تھیں۔ انہوں نے تہبند سے ستر ڈھانپے ہوئے تھے اور سفید و سیاہ دھاری دار چادریں اوڑھی ہوئی تھیں۔ وہ تلبیہ کہتے ہوئے بیت اللہ کا حج کرنے جا رہے تھے۔‘‘

1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 232

2۔ بیہقی کی ’’شعب الایمان (3 : 440، رقم : 4003)‘‘ میں بیان کردہ روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی ذکر ہے۔

3. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 2 : 117، رقم : 1737

مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام سادہ چادریں اوڑھے حج ادا کرتے۔ وہ حج کی ادائیگی میں فقط رضائے الٰہی پیشِ نظر رکھتے۔ ان کا لباسِ حج دو چادروں پر مشتمل ہوتا : ایک بطور تہبند باندھ لیتے اور دوسری جسم پر اوڑھ لیتے۔

اَنبیاء کرام علیہم السلام کا یہ لباس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اتنا پسند آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لباس کو قیامت تک آنے والے حاجیوں کے لیے لازم قرار دے دیا۔ عام زندگی کے لباس میں باقی جتنے مشمولات اور لوازمات ہوتے ہیں ان سب کو حج کے دوران پہننے سے منع فرما دیا۔ عام حالات میں ننگے سر عبادت کرنا معیوب اور خلافِ سنت تصور کیا جاتا ہے مگر دورانِ حج و عمرہ بیت اﷲ میں ایسا نہیں۔ حالتِ اِحرام میں بیت اللہ میں سب ننگے سر حاضر ہوتے ہیں۔ وہاں سر کا ننگا ہونا اَنبیاء کرام کے لباسِ حج و عمرہ کی نسبت کے سبب عجز و خاک ساری اور فروتنی کی علامت بن گیا ہے اور اللہ رب العزت کے نزدیک غایت درجہ پسندیدہ ہے۔

یہ انبیاء کرام علیہمم السلام کی نسبت اور تعلق ہی کی وجہ ہی ہے کہ اِحرام متعین ہونے کے ساتھ حج کے دوران حاجیوں کو ناخن تراشنے، بال کٹوانے اور مونچھیں کٹوانے جیسے اعمال سے بھی روک دیا گیا (1) تاکہ ظاہری طور پر بھی ہر لحاظ سے حجاج کرام انبیاء علیہم السلام کی پیروی کریں۔

کاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 2 : 198

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93782 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.