اشرف المخلوقات

ابھی تک تو یہی معلوم ہؤاہے کہ کائنات بنانے والے نے اس کرّہِ ارض یعنی زمین پر انسان کو سب سے افضل یعنی بہترین مخلوق بنایا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر اس مخلوق نے اس سیّارے کی خوبصورتی کو برباد کیا شاید ہی کسی اور مخلوق نے کیا ہو ۔ چلیں سیّا رے کی خوبصورتی برباد کرنے کی ہزاروں دلیلیں ہونگی لیکن دُکھ اس بات کا ہے کہ اس اشرف مخلوق نے اپنی ہم جنس مخلوق کو جتنا برباد کیا اُس درجہ کی بربادی کسی اور مخلوق نے کی ہو میرے علم میں نہیں ۔ میرے ذہن میں جب بچپن میں سنا ہؤا مقولہ "بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے" آتا ہے تو اس کو حضرتِ انسان پر منطبق کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ایک کمزور سی دلیل ملتی ہے کہ شاید انسان مچھلی کی نسل سے ہو لیکن ایک دلیل تو فوراً ہی اس کی نفی کر دیتی ہے کہ مچھلی بےچاری پانی سے باہر آتے ہی مر جاتی ہے اس لئے مجبوراً پانی میں ہی رہ کر اپنے زندہ رہنے کا سامان کرناہے لہٰذا اپنی ہم جنس کو نہ کھائے تو کیا کرے؟

انسان جب جنگلوں میں جانوروں کی طرح رہتا تھا تب بھی اپنے ہم جنس کا شکار نہیں کرتا تھا حالانکہ دنیا پہ مکمل حکمرانی کیلئے مطلوبہ تین قوّتوں (جسمانی ، ذہنی اور مالی ) میں سے محض ایک ہی یعنی جسمانی قوّت ہوتی تھی اور معمولی سی ذہنی جس کے بل بوتے پر وُہ زندہ رہنے کیلئے جانوروں کا شکار کیا کرتا تھا ۔ ان ہی دو قوّتوں کے استعمال سے جبلّتی خواہشِ حکمرانی پوری کرنے کیلئے قبیلہ کا سردار بن جاتا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ جنگلی انسان تہذیب یافتہ ہوتا گیا ۔ جسمانی، ذہنی اور مالی قوّت و حیثیت میں اضافہ کرنے کی لگن ہَوِس میں تبدیل ہونے لگی۔ جسمانی و ذہنی قوّتیں تو ایک محدود حد تک بڑھائ جا سکتی تھیں لیکن اِن دونوں کے یکجا استعمال کے ذریعےمالی قوّت میں لامحدود اضافہ کا فَن اس کی سمجھ میں آگیا اور یوں لا محدود مالی قوّت کے جائز و نا جائز استعمال کے ذریعے پورے کرّہِ ارض پر حکمر انی کے شوق نے جنگلی قبیلہ کے سردار سے بھی بد نما انسان بنا دیا بلکہ مندرجہ بالا تینوں طاقتوں سے مزیّن مخلوق انسان کی شکل میں "بے حِس حیوان" بن گئ اور اس حیوان کے کارناموں کی درجِ ذیل مختلف اشکال ہیں:-

1.دنیا کے امیر ترین ایک فیصد افراد کے پاس باقی دنیا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ دولت ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ اسی ماہ یعنی جولائ 2013 کی اقوام متحدہ کی شائع شدہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل رقم مجموعی طور پر 223 کھرب ڈالرز ہے، دنیا کی اکثریت کے پاس اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دلوانے اور ادویات لینے کے بھی پیسے نہیں ہیں جبکہ امیر ترین افراد نے دنیا کی کل رقم کا 43 فیصد دبوچ رکھا ہے، باقی 80 فیصد آبادی کے پاس دنیا کی کل رقم کا صرف 6 فیصد حصہ ہے ۔ یوں دنیا کے 300 افراد کے پاس باقی 3 ارب غریب ترین لوگوں سے بھی زیادہ پیسے ہیں ، دنیا کے امیر ترین ممالک ہر سال غریب ممالک کو 130 ارب ڈالرز امداد کی صورت میں دیتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں بڑی بڑی کمپنیاں غریب ممالک سے 900 بلین ڈالرز مہنگی اشیاء بیچ کر کھینچتی ہیں۔ دوسری جانب غریب ممالک ہر سال 600 ارب ڈالرز لی جانے والی امداد پر سود کی صورت میں امیر ممالک کو دیتے ہیں، کل ملا کر دنیا کے غریب ترین ممالک پہلے سے ہی امیر ممالک کو 2 کھرب ڈالرز ہر سال دیتے ہیں۔ امیر اور ترقی یافتہ ممالک دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غریب ممالک میں ترقی کے خواہشمند ہیں اور اس لئے ان کو ساتھ لے کر چلیں گے لیکن اگر دیکھا جائے تو معاملہ الٹ ہے۔

2.مائیکل اسنائڈر کے انفارمیشن کلیئرنگ ہاؤس کے آرٹیکل بتاریخ 31 جنوری2013 "دنیا کو کون چلا رہا ہے" کے مطابق 1922میں نیو یارک سٹی کے میئر جان۔ایف۔ہائلین نے اپنی تقریر میں کہا تھا:-
" ہماری ری پبلک کے لئے سب سے بڑا خطرہ وہ نہ نظر آنے والی حکومت ہے جو ایک دیو قامت آکٹوپس کی طرح اپنی کیچڑ آلود ٹانگیں بے پرواہی کے ساتھ ہمارے شہروں، ریاستوں اور حتّٰی کہ پوری قوم پر پھیلا رہی ہے۔ اور اس آکٹوپس کا سَر راکفیلر اسٹینڈرڈ آئل اور ایک چھوٹا مگر بہت طاقتور بین الاقوامی بینکنگ گروپ ہے۔ اور یہ گروہ اپنے مفادات کی خاطر عملی طور پر امریکہ کی حکومت چلا رہا ہے۔ درج ذیل نامی گرامی 25 بینک اور کارپوریشنز ہیں جو اس جتھّے میں شامل ہیں :
1. Barclays plc
2. Capital Group Companies Inc
3. FMR Corporation
4. AXA
5. State Street Corporation
6. JP Morgan Chase & Co
7. Legal & General Group plc
8. Vanguard Group Inc
9. UBS AG
10. Merrill Lynch & Co Inc
11. Wellington Management Co LLP
12. Deutsche Bank AG
13. Franklin Resources Inc
14. Credit Suisse Group
15. Walton Enterprises LLC
16. Bank of New York Mellon Corp
17. Natixis
18. Goldman Sachs Group Inc
19. T Rowe Price Group Inc
20. Legg Mason Inc
21. Morgan Stanley
22. Mitsubishi UFJ Financial Group Inc
23. Northern Trust Corporation
24. Société Générale
25. Bank of America Corporation

یہ لا محدود سرمائے کے مالک میرے اور آپکی طرح اپنا سرمایہ مقامی بینکوں میں نہیں رکھتے بلکہ اُن بینکوں میں رکھتے ہیں جہاں اس پر ٹیکس نہیں لگتا مثلاً Cayman Islands۔ پچھلے سال گرمیوں میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس گلوبل اشرافیہ کے 32 ٹریلین ڈالرز دنیا کے مختلف آف شور بینکوں میں محفوظ ہیں۔ اس نئے جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے باقی ہم سب بشمول ہماری حکومتوں کے ان کے مقروض غلام ہیں۔

سیّد مسرّت علی
سینئر انسٹرکٹر ریٹائرڈ
منیجمنٹ ٹریننگ پی آئ آے
22 جولائ 2013

Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 115018 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More