امریکہ افغان طالبان مذاکرات ! بھارت کے پیٹ میں مروڑ کیوں؟

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جمعرات کو ہونے والی امن مذاکرات کی میٹنگ حامد کرزئی کے اعتراض کے بعد نہ ہوسکی۔اور بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوگئی۔ فی الوقت طالبان نے دفتر سے ”اسلامی امارات افغانستان“کی تختی بھی ہٹالی ہے۔ ملاقات میں اہم موضوع افغانستان میں امن و امان کی صورت حال اور قیدیوں کے تبادلے، پر تشدد کاروائیوں سے اجتناب ،افغان آئین کا احترام اور بچوں و عورتوں کے حقوق کا احترام کو زیر بحث لایا جانا تھا۔لیکن مذاکرات مشروط وجوہات کی بنا پر آگے نہیں بڑھ سکے تاہم اگلے چند روزمیں دوبارہ سے ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ویسے بھی امریکہ طالبان سے مذاکرات کے مرحلے میں آسان نہیں سمجھ رہا ہے اس میں اسے چاروں اطراف سے مزاحمتوں اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔خود افغانی صدر حامد کرزئی اور ان کی حکومت بھی اسے پسندیدگی سے نہیں دیکھ رہے ہیں وہ پہلے بھی قطر میں طالبان کے دفتر کے کھلنے پر خدشات ظاہر کرچکے ہیں لیکن ان کے روپے میں لچک بھی ہے اور اسکی وجہ غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل ہے جو کہ بالکل قریب ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھی بادل نخواستہ اس کی حمایت بھی کی ہے۔ اور اس امید کااظہار بھی کیا ہے کہ دفتر کے کھلنے سے امن مذاکرت کو آگے بڑھانے میں مثبت انداز میں پیش رفت ہوگی ۔اگر ماضی کو دیکھا جائے تو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہمیشہ اعتماد و یقین کی کمی رہی ہے اور افغان حکومت سے طالبان کبھی بھی مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور ہمیشہ انکو امریکی حکومت کی کٹھ پتلی گردانتے رہے لیکن اب افغان حکومت اسے بھی امریکی بدنیتی پر مبنی قرار دے رہی ہے ۔

دوسری طرف صدر اوبامہ نے کہا کہ مذاکرات کا عمل سست روی سے اپنا سفر جاری رکھے گا اور ہماری کوشش ہوگی کہ اسے آسان اور تیز بنایا جائے اس میںبہت سی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گااور پاکستان کی مدد بھی درکار ہوگی ساتھ ہی انہوں نے حامد کرزئی کو بھی مبارکباد پیش کی کہ مذاکرات کیلئے انہوں نے اپنا وفد قطر بھجوایا۔امریکی اتحادیوں نے بھی اس فیصلے کو سراہا ہے امریکی حکام کے مطابق مذاکرات حوصلہ افزا ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ویسے بھی مذاکرات سے ہمارا براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن ہم مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں ۔

اوپر تحریرکردہ بیانات میں امریکہ یااتحادیوں کا کوئی تعلق ہے یا نہیں مفادات وابستہ ہیں یا نہیں کس کوکتنا فائدہ ہورہا ہے یا ہوگا یہ ایک الگ ایشو ہے ۔لیکن بھارت کے پیٹ میں مروڑ شرع ہو چکا ہے کہ کیوں افغانستان میں امن وامان قائم ہورہا ہے۔ کیوں امریکہ افغان اورطالبان کے درمیان تنازعا ت کو ٹیبل پر حل کرانا چاہ رہا ہے؟کیوں مسلمان آپس میں شیر و شکر ہونے جارہے ہیں؟ بھارت اسے خطے کیلئے پریشانی سے تعبیر کررہا ہے اور عالمی برادری کو خبر دار کررہا ہے کہ بات چیت محتاط انداز میں ہونی چاہئے ۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والی بات چیت میں عالمی برادری کو محتاط طریقے سے تعاون دینا چاہئے یہ امریکہ کا مسئلہ نہیں ہے یہ مسئلہ حکومت اور وہاں کی عوام کے درمیان کا ہے ایسا نہ ہو کہ اس سے طالبان کے فلسفے کو تقویت ملے۔ ہندوستان کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ لینے کا حق دینا چاہئے۔افغان طالبان اورحقانی نیٹ ورک نے ہندوستان کے سفارت خانے کو کابل میں نشانہ بنایا تھا جس میں58 لوگوں کی موت ہوئی امریکہ کے وزیر خارجہ کے اگلے ہفتے ہندوستان کے دورے پر یہ معاملات سرفہرست زیر غور لائے جائیں گے۔

بھارت کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ جب کبھی کہیں پر مذاکرات کی بات ہوئی ہے امن بھائی چارے کے فروغ کو تقویت دی جارہی ہوتی ہے تو اس نے ہمیشہ اپنی ٹانگ اڑانے کی کوشش کی ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ ہو کہ پانیوں کی بات، بابری مسجد کے معاملات ہوں کہ مسلم اقلیتوں کے مفادات ۔بھارت نے ہمیشہ بنئے کے منفی کردار کو فروغ دیا ہے اور مسئلہ کوکبھی بھی حل کی طرف لے جانے کیلئے کوئی مثبت اقدام نہیں کیا اور اب بھی اپنی منفی روایات اورہتھکنڈوں سے مجبور بھارت ناخوش ہے کہ افغان طالبان اور امریکہ کی مدد سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے جارہے ہیں۔ امریکہ اورملا عمر مذاکرات کامیاب ہونے سے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں یقینی حد تک کمی آنے کے امکان کو بھارت ہضم نہیں کرپارہا ۔ پاکستان نے افغان فوج میں شامل نوجوانوں کو تربیت دینے کا عندیہ دے کر بھارت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور پھر جب دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی ہوگی تو اس میں بھی بھارتی حکومت کے بے نقاب ہونے کا سو فیصد تک روشن امکانات ہیں۔مزید یہ کہ بھارت کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ حالانکہ وہ خود انتہا درجے کا معتصب اور انتہا پسند ثابت ہوا ہے ۔ لہذا بھارت کو اپنی روایتی ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہئے اور دنیا میں امن و آشتی کیلئے اپنا حصہ ڈالنا چاہئے یا کم از کم اپنی چونچ بند کرکے اور اپنی ٹانگ کو قابو کرکے مذاکرات میں دخل اندازی سے پرہیز کرنا چاہئے۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 195506 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More