چودہویں قومی اسمبلی کی تقریب حلف برداری

ہفتے کے روز پاکستان کی 14ویں قومی اسمبلیکے 342 میں سے 318 نو منتخب اراکان نے حلف اٹھایا۔ پاکستان کی نئی قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس پارلیمان ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ سابقہ قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پاکستان کی چودھویں قومی اسمبلی کے نو منتخب اراکان سے حلف لے لیا۔اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے خود بھی حلف اٹھایا ۔ تمام ارکان ان کی پیروی میں لفظ بہ لفظ حلف پڑھتے رہے جس میں کہا گیا کہ ”میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ خلوص نیت سے پاکستان کا حامی رہوں گا، بحیثیت رکن قومی اسمبلی اپنے فرائض منصبی ایمانداری، انتہائی ذمہ داری اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین، قانون اور اسمبلی کے قواعد کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری ، سا لمیت ، بہبوداور خوشحالی کی خاطر انجام دیتا رہوںگا ۔ اے اللہ میری رہنمائی فرما“۔ قومی اسمبلی میں تمام منتخب ارکان نے حلف اٹھایا کہ وہ ملک کے وفادار رہیں گے، اس کی بہتری کے لیے انتہائی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے، آئین کا تحفظ کریں گے۔ اسلامی نظریہ برقرار رکھنے کے لیے بھی کوشاں رہیں گے۔

رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد اراکان اسمبلی نے باری باری رجسٹر پر دستخط کیے۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فہمیدہ نے نومنتخب ارکان کو مبارکباد دی۔ افتتاحی اجلاس کے لیے صبح دس بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا، لیکن اجلاس دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔اجلاس کے دوران ن لیگی کارکن بڑی تعداد میں قومی اسمبلی میں حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے جس سے مہمانوں کی گیلریوں میں جگہ کم پڑ گئی تو مہمانوں نے پریس گیلری کا رخ کیا اور صحافیوں کیلئے مختص نشستوں پر براجمان ہوگئے ،اس موقع پر پہلے اسمبلی اجلاس کی کوریج کیلئے صحافیوں کی بھی غیر معمولی تعداد آئی ہوئی تھی جسے انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اڑھائی گھنٹے جاری رہنے والی کارروائی فرش پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر کرنا پڑی، اس موقع پر قومی اسمبلی کے سیکورٹی اہلکار بار بار لیگی متوالوں کو کرسیوں سے اٹھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ ملک کی جمہوری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک جمہوری حکومت سے دوسری حکومت کواقتدارمنتقل ہو رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے 13 سال 8 ماہ بعد بطور رکن قومی اسمبلی حلف اٹھایا ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن، جمشید دستی اور شاہ محمود قریشی افتتاحی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) 186 نشستوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کی نشستوں کی تعداد 39 ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 35 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے۔ چوتھی بڑی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ اس کے قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 23 ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 14 ارکان قومی اسمبلی ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے 6 ارکان، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی کے چار،چار ارکان، مسلم لیگ (ق) لیگ کے صرف دو ارکان قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کی 9 خواتین اور ایک اقلیتی نشست کے امیدوار نوٹیفکیشن نہ ہونے کے باعث حلف نہیں اٹھا سکے۔ عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ (ضیائ)، نیشنل پارٹی، عوامی مسلم لیگ، عوامی جمہوریت اتحاد پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ کی ایک ایک نشست ہے، گیارہ حلقوں میں انتخابات ہوں گے۔ ایک حلقے کے کامیاب امیدوار کو حلف لینے سے روک دیا گیا۔الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 333 ارکان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔

ارکان کو حروف تہجی کے مطابق نشستیں الاٹ کی گئی تھیں اور حروف تہجی کے مطابق ہی ارکان نے رول آف رجسٹر پر دستخط کیے۔ نامزد وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے این اے 120 نشست برقرار رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ حلف اٹھانے والے رہنماﺅں میں جاوید ہاشمی، مخدوم امین فہیم، خورشید شاہ، چودھری نثار علی خان، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیرپاﺅ، اکرم خان درانی، امیر حیدر ہوتی، مولانا خان شیرانی، فریال تالپور، خواجہ سعد رفیق، شیخ رشید احمد، اعجاز الحق، طاہرہ افضل تارڑ، سمیرا ملک، حمزہ شہباز شریف و دیگر شامل ہیں۔ چودھویں قومی اسمبلی میں دو سابق وزرائے اعظم اور پانچ سابق وزرائے اعلیٰ بھی منتخب ہو کر آئے ۔ ان میں نوازشریف، میر ظفراللہ جمالی، پرویز الٰہی، اکرم خان درانی، امیر حیدر خان ہوتی اور علی محمد مہر شامل ہیں۔ نومنتخب ارکان حلف برداری کے لیے خوب تیاری کر کے آئے تھے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں مقروض ملک کے غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے دولتمند ارکان اسمبلی کی لش پش گاڑیوں کی چمک دمک دیدنی تھی۔نو منتخب ارکان بڑی بڑی چمکتی دمکتی گاڑیوں میں اجلاس کے لیے پہنچے، بڑی بڑی گاڑیوں پر نمبر پلیٹ تو چھوٹی تھیں لیکن ان کی جگہ ایم این اے اور ایم پی اے کی نمبر پلیٹ بڑی بڑی تھیں۔کالے شیشوں والی گاڑیوں پر پابندی ہے لیکن نومنتخب ارکان میں سے اکثر اجلاس میں کالے شیشوں والی گاڑیوں میں آئے تھے،جنہیں پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔کئی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ ہی نہ تھی،قانون نافذ کرنے والے بے شمار عہدیداروں کی موجودگی کے باوجودکسی نے بھی ان کو نہیں روکا۔انہی ارکان میں مسلم لیگ کے نو منتخب رکن مولانا غیاث الدین اپنے بیٹے کے ہمراہ موٹرسائکل پر سوار ہوکر تقریب حلف برداری میں تشریف لائے۔ان کا کہنا تھا کہ اس دور میں سادگی کہ انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔اسی طرح ایک رکن اسمبلی رکشے میں بیٹھ کر بھی تشریف لائے، جو غریب عوام کی بالکل درست طریقے سے نمائندگی کررہے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے ارکان پرجوش تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان اداس، اداس نظر آ رہے تھے۔ ماضی کے اتحادی ایک دوسرے کو اجنبیوں کی طرح دیکھ رہے تھے۔مسلم لیگ (ن) کے ارکان سب سے آخر میں قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں آئے۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، (ق) لیگ، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کے ارکان جلد اجلاس میں آ گئے۔ ہفتہ کو چودہ سال بعد پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے بعد پارٹی کے پارلیمانی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور نامزد وزیراعظم میاں نوازشریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ خود کرپشن کروں گا اور نہ ہی کسی کو کرنے دوں گا، ملکی خزانہ لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے گا۔ میاں نوازشریف نے نومنتخب ارکان اسمبلی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ آج ہم واضح اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ آپ سب جان لیں کہ اللہ ہم سے بڑا کام لینا چاہتا ہے، اس لیے قومی مفاد اور عوامی امنگوں پر پورا اترنا ہو گا۔ آج ہمیں معیشت کا عدم استحکام، شدید بحران درپیش ہے، غربت، بےروزگاری اور دہشت گردی سب کی بنیادی وجہ خراب ترین معاشی صورتحال ہے، سمجھوتوں کی سیاست اور سیاست برائے سیاست کی بجائے صاف ستھری سیاست کو فروغ دینا ہو گا، ہم عہدوں کے لالچ میں نہیں پڑیں گے، ہم نے قوم کے اوپر موجود قرضوں اور خساروں کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کرنا ہے، جس ایجنڈے کی تکمیل ہم چاہتے ہیں آج اللہ تعالیٰ نے اس ایجنڈے کی خاطر ہمیں فتح یاب کیا، اللہ کا شکر ہے آج ہم بیساکھیوں سے پاک حکومت قائم کرنے جا رہے ہیں ، آج ہمیں لوڈ شیڈنگ کے بحران کا سامنا ہے جس کے خاتمے کے لیے 550 ارب کی خطیر رقم درکار ہے، مجھے عوام کی تکلیف کا پورا ادراک ہے۔ ہم اس سرکلر ڈیٹ کے خاتمے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ہمیں اربوں روپے کے لائن لاسز کا سامنا ہے، میں لائن لاسز کے خاتمے اور سابقہ بقایاجات کی وصولی کے لیے بہت سختی کرنا ہو گی، صاف ستھری پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی،ہمارے 40 ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہو گئے، اربوں کے نقصان سے دوچار ہوئے، ہمیں اپنی معلومات کی درستگی کے لیے اپنے روئیے میں سنجیدگی لانا ہو گی، ہمارے اقدامات کی وجہ سے عوام کو آئندہ 3 ماہ مں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہوتا نظر آئے گا۔ قومی سوچ والی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے ہمیں کشکول اٹھانے کی بجائے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ ملک میں غربت، بیروزگاری اور دہشت گردی کی وجہ خراب معاشی صورت حال ہے۔ ہم انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے ۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.