ادھار لے کر قرض نہ اتاریں

میاں محمد نواز شریف بلاشبہ ایک بڑے اور زیرک سیاستدان ہیں اور سیاست کی باریکیوں اور قلابازیوں سے بھی نہایت حدتک باخبر اور عمل کرنے کی حدتک بھی کمال حاصل ہے۔ ان کا حالیہ بیان اس کا تازہ ترین ثبوت ہے کہ بجلی کے بحران کوختم کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن ہم کوشش کریں گے کہ تیس دن کے اندر اندر عوام تبدیلی کو محسوس کریں گے اور تبدیلی بھی مثبت ہوگی۔ مزید یہ فرمایا کہ قرض بہت زیادہ ہے اور اب قرض اتاریں یا بجلی کے بحران کو حل کریں۔تو میاں صاحب کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں کہ انکی ترقی و خوشحالی کا ماخذ و منبع توانائی کے ذرائع پیدا کرنا اوروافر مقدار میں مہیا کرنا ہے۔ جب توانائی کا بحران نہ ہوگا تو آپ کی معیشت بھی ترقی کریگی عوام میں خوشحالی آئیگی۔ زراعت پھلے پھولے گی انڈسٹری پیداوار دے گی ٹیکس کی ادائیگی ہوگی ریونیو بڑھے گاتو پھر قرض بھی اتر جائیگااور اگر آپ چاہتے ہیں کہ ”قرض اتارو ملک سنوارو“والا معاملہ پھر سے ملک و قوم پر مسلط کردیا جائے تو یہ لاحاصل ہوگا کیونکہ ایک مزدور سے لیکر صنعت کار تک اور سرکاری ملازم سے لیکر جاگیردا ر تک تمام کے تمام بجلی کی چیرہ دستیوں کے شکار نظر آتے ہیںاور اب قرض دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان کی ہڈی بھار(بوجھ)اٹھانے کے قابل نہیں ہے

میاں صاحب! قرض اتارنے کے دوطریقے تو میں بتائے دیتا ہوں اول یہ کہ ان تمام کرپٹ اور ملکی خزانے لوٹنے والے لوگوں سے بلاامتیاز پائی پائی وصول کی جائے ۔ یقینا اس میں بہت سی مشکلات بھی آیں گی اور باتیں بھی سننے کو ملیں گیں بالخصوص ان ہارے ہوئے لوگوں کی جانب سے ہمیں عتاب کا نشانہ بنایا جارہاہے مخالف پارٹی ہونے کی سزادی جارہی ہے لیکن یہ تمام باتیں بھی آپ کو” سیاستدان “بن کر فیس کرنا ہونگی اور عمل اپنی مرضی اور ملک و عوام کی بھلائی کو پیش نظر رکھ کر کرنا ہوگا کسی نہ کسی کو بھی نشان عبرت بنانا ہوگا۔ آپ ادھار لیکر قرض اتارنے والا عمل کرنے سے گریز کریں۔ پی آئی اے ”اڑانے “والے، ریلوے کا پہیہ دھنسانے والے، پاور کو ڈکارنے والے،84 ارب ہڑپ کرنے والے، ای سی ایل بھرنے والے ایفی ڈرین” پینے پلانے “والے سب کے سب کی دم پر پاﺅں وزنی یعنی بھاری پاﺅں رکھنا ہوگا تاکہ بوجھ سے وہ ملکی خزانے کو منہ سے اگل دیں۔

مجھے اپنے سکول کا زمانے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ہم نویں جماعت میں پڑھنا شروع ہوئے۔ بیالوجی اور کیمسٹری مرحوم رشید صاحب پڑھاتے تھے اور بہت ہی عمدہ پڑھاتے تھے خدا انہیں غریق رحمت کرے۔بمشکل ڈیڑھ ماہ گزرا کہ ایک دن ایک کلاس فیلو بار بار منع کرنے کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا تھا رشید صاحب نے اسے بار بار سمجھایا کہ بیٹا پڑھائی پر دھیان دو لیکن وہ اپنی روش سے نہ ہٹا۔آخر کاررشید صاحب کرسی سے اٹھے اور اس گردن سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے ڈیسکوں سے باہر نکالا اور پھر اس کے سرکو اپنی دونوں ٹانگوں میں دبالیا اس کے جسم پر گھونسوں مکوں اور تھپڑوں کی بارش کردی بعد ازاں اسے زمین پر پٹخنیاںدیں۔کلاس میںطالب علم کی چیخیں ہی چیخیں تھیں لیکن رشید صاحب تھے کہ چھوڑنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے اور جب تک تھک نہ گئے نہ چھوڑا۔ ساری کلاس کو سانپ سونگھ گیا ۔مگر اس کے بعد پورا سال نہایت سکون سے اور کام کرتے پڑھتے گزرا۔ same یہی صورت حال دسویں جماعت میں ایک دوسرے طالب علم کے ساتھ ہوا اس طرح دونوں سال دل جمعی کے ساتھ پڑھنے میں گزر گئے اور رزلٹ بھی اچھا آیا۔ تقریبا آٹھ دس سال کے بعد رشید صاحب سے اس بابت دریافت کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے مارنا بالکل بھی پسند نہیں لیکن کسی بھی کام کی بہتری اور تکمیل کیلئے ڈنڈا (بالخصوص پاکستانی عوام) بہت ضروری ہے اور اس مقصد کیلئے کسی نہ کسی کو نشان عبرت بنانا پڑتا ہے اور یہی کچھ دو سالوں میں ان طلبا کے ساتھ ہوا اور پھر آپ نے دیکھا کہ بقیہ عرصہ بہترین انداز میں گزرا

میاں صاحب ! اوپر بیان کردہ واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ ملکی دولت لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنا کربھی بجلی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے اور کسی قرض کی ضرورت نہ پڑے گی صرف ثابت قدم رہنے اور اخلاص برتنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر تاجرکمیونٹی بالخصوص انڈسٹریلسٹ (صنعت کار) سرمایہ دار جاگیردار جوکہ آپ کے دوست اور زیر اثر ہیں ان سے بھی request کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات میںسے ملک و قوم کیلئے donate کریں اورchiarty begins at home کے مصداق آپ کو اپنی جیب خاص سے نہ کہ حکومتی خزانے سے،سب سے بڑھ کر donate کرنا ہوگا یہ قرض اتارو ملک سنوارو کی طرح بالکل نہیں ہونا چاہئے کہ ایک درجہ چہارم کا مالی چپڑاسی بھی donate کرے ۔صرف اور صرف اوپر بیان کردہ لوگوں کو جذبہ حب الوطنی دکھانے کی ضرورت ہے اور اگر آپ خود مخلص ہو کر انہیں کہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ تعاون نہ کریں بشرطیکہ آپ کو پہلا قطرہ بننا ہوگا کیونکہ شہباز شریف کے بقول کہ ترقی اور بجلی کے بحران کے خاتمے کیلئے جانیں لڑادینگے۔ تو محترم جانیں لڑانے کی چنداں ضرورت نہیں صرف پیسہ لگادیں آپ کی جان بھی بچ جائیگی اور گڈ گورننس اور عوام سے محبت کا بھرم بھی رہ جائیگا

رہا مسئلہ لائن لاسسز پرقابو پانے کا تو اگر واپڈا ملازمین کو نتھ اور لگام ڈال لی جائے تو تمام لاسسز پورے کئے جاسکتے ہیں کیونکہ اسی فیصد ملازمین نے اپنے گھروں میںمنی گرڈ سٹیشن بنائے ہوئے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ قرب و جوار کے ہمسایوں کو 1000 سے3000 روپے ماہانہ (منتھلی) پر اپنے گھر کے میٹر سے کنکشن الاٹ کئے ہوئے ہیں جن میں دن رات سردیوں میں ہیٹر گیزر اور بجلی والے چولہے استعمال ہوتے ہیں جبکہ گرمیوں میںاے سی کولر پنکھے چوبیس گھنٹے(بجلی ہونے کی صورت میں) چلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے واپڈا کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے اگر ان ملازمین کے خلاف حقیقی کاروائی عمل میں لائی جائے تو 30 فیصد بحران تو خودبخود ختم ہوجائیگا۔ صرف اور صرف عمل کرنے اور مرتکب افراد کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ جس دن واپڈا ملازم سدھر جائیگا ایماندار ہوجائیگا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بجلی کے بحران کو بہت پیچھے دھکیل دیں گے اور غریب عوام کسان طالب علم دکاندار تاجر صنعت کار مزدور سب کو بجلی ملے گی لہذا دل چھوٹا نہ کریں بلکہ دل بڑا اور کڑا کرکے اس کام کیلئے کمر کس لیں اسی میں سب کی بقااور فلاح ہے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 195494 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More