سربجیت کی موت کا بزدلانہ انتقام

26اپریل کو کوٹ لکھپت جیل میں د و قیدیوں نے بھارتی دہشت گرد جاسوس سربجیت سنگھ پر حملہ کر کے اسے شدید زخمی کردیا،پاکستانی پولیس نے حملے کے فوری بعد ملزمان سے تحقیقات شروع کیں ، سربجیت سنگھ پر حملے کا مقدمہ تھانہ کوٹ لکھپت میں درج ہوا۔ ایف آئی آر کے مطابق سربجیت سنگھ کوٹ لکھپت جیل کے بلاک 7 ای میں بند تھاجبکہ حملہ کرنے والے سزائے موت کے قیدی عامر بلاک سیون بی اور مدثر سیون اے میں بند تھے۔ ہیڈ وارڈر احسان الحق اور امدادی وارڈر صفدر حسین بلاک 7 کے قیدیوں کو بند کر رہے تھے، اچانک عامر اور مدثر نے سربجیت سنگھ پر حملہ کر دیا۔ وارڈرز نے بچانے کی کوشش کی تو مدثر نے ان پر بھی حملہ کر دیا۔حملہ آور مدثر اور عامر کا کہنا تھا کہ 29اپریل کو بھارتی وفد کی پاکستان آمد اور سربجیت سنگھ کی رہائی کی اطلاعات پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا ہے ۔

ڈسپنسر اور اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے فوری میڈیکل آفیسر جیل کی زیر نگرانی سربجیت کو جناح ہسپتال منتقل کردیا اور اسے طبی امداد دینا شروع کردی، پاکستان نے سر بجیت کے اہل خانہ کو سربجیت سنگھ سے ملنے کے لیے تمام سہولیات فراہم کیں،ڈاکٹرز نے اسے بچانے کی بھرپورکوشش کی لیکن وہ جان کی بازی ہار گیا۔ جونہی بھارت میں سربجیت سنگھ پر قاتلانہ حملے کی خبر پہنچی تو بھارتی سرکار نے اسے حادثہ تسلیم کرنے کی بجائے سفارتی سطح پر حکومت پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا، جبکہ بھارت کے میڈیا نے پاکستان کے خلاف عوام میں اشتعال پیدا کرنا شروع کردیا۔ بھارت کے صحافی اور سابق رکن پارلیمان سنتوش بھاٹیہ نے 4مئی کو وائس آف امریکا کی نشریات میں بڑے غصیلے لب ولہجے میں سربجیت پر قاتلانہ حملے کو حکومت پاکستان کی گھناؤنی سازش قرار دیااور کہا کہ بھارت کی جیلوں میں تو پھانسی یا عمرقید پانے والے قیدی کو دیگر تمام قیدیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ انہیں دوسرے پھانسی یا عمر قید کے سزا یافتہ قیدیوں سے بھی ملنے نہیں دیا جاتا، پاکستان میں یہ کیسا قانون ہے؟سنتوش بھاٹیہ نے اسی پر اکتفاءنہیں کیا بلکہ دعویٰ کیا کہ سربجیت بھارت کا جاسوس ہرگز نہیں تھا، وہ بھٹک کر سرحد پار پاکستان میں داخل ہوگیا تھا، جسے پاکستانی پولیس نے لاہور میں بم دھماکے کی واردات میں پھنسادیا ۔حالانکہ سربجیت کے مقدمے کی ہر مرحلے پر عدالتی کارروائی کی گئی تھی، حتیٰ کہ اسے عدالت عظمیٰ میں اپیل کی اجازت دی گئی لیکن فاضل عدالت نے اس کی سزا برقرار رکھی۔ آخر سنتوش بھاٹیہ اتنی دور بیٹھے ہوئے پاکستان کی عدلیہ کے فیصلے کو کیسے چیلنج کرسکتے ہیں؟ ۔

جب سربجیت سنگھ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کی لاش کو بھارت منتقل کیا گیا تو بھارت نے اسے ایک ہیرو کا درجہ دیا اور 14پاکستانیوں کے قاتل کیلیے سرکاری اعزازکا بھی اہتمام کیا گیا اور ریاستی پولیس فورس نے اسے سلامی دی اور مخصوص سرکاری موسیقی بجائی گئی،حکمراں جماعت کانگریس پارٹی، اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی اور ریاست میں حکمراں جماعت اکالی دل کے سینیئر رہنماؤں نے سربجیت کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ریاست پنجاب کی حکومت نے سربجیت سنگھ کو شہید کا درجہ دیا اور اس کی لاش کو قومی پر چم میں لپیٹ کر آخری رسومات کے لیے جا یا گیا۔ریاستی حکومت نے سرکاری سطح پر تین روز تک سوگ منانے کا بھی اعلان کیا۔مرکزی حکومت نے سربجیت سنگھ کے اہل خانہ کو 25 لاکھ روپے جبکہ ریاستی حکومت نے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ۔بھارت میں کئی حلقوں نے سوال اٹھایا کہ آخر سربجیت کیا تھا جو اس کے لیے سرکاری اعزاز کا اہتمام کیا گیا۔ حکومت کی ان تمام کارروائیوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سربجیت سنگھ ضرور حکومت کی کوئی نہ کوئی ذمے داری نبھا رہا تھا ورنہ جنوری میں جب ایک اور بھارتی قیدی چمیل سنگھ کی لاش پاکستان سے بھارت لائی گئی تھی توحکومت نے اس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

جس وقت پاکستان کے چودہ افراد کی ہلاکت کے جرم میں سز ایافتہ بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی لاش بھارتی پنجاب میں اس کے آبائی علاقے میں جلائی جارہی تھی، اس وقت 3مئی کو مقبوضہ کشمیر کی جیل میں عمرقید کے سزایافتہ پاکستانی قیدی ثناءاللہ پر سزایافتہ بھارتی فوجی نے کلہاڑی سے حملہ کیا، جس کے باعث ثناءاللہ کا مغز باہر نکل آیا۔وہ قومے میں چلا گیا اور بالآخر شہید ہوگیا۔ یہ کم ظرف، بزدل، فرقہ پرست بھارتی حکومت کا بھونڈا انتقام تھا، اگر سربجیت پر قاتلانہ حملے سے قبل سری نگر کی جیل میں ثناءاللہ پر کسی سزایافتہ ہندو فوجی نے کلہاڑی کا وار کیا ہوتا تو اسے جیل کے عملے کی غفلت قرار دیا جاسکتا تھا لیکن سربجیت پر حملے کے فوراً بعد اسی نوعیت کا حملہ ہرگز حادثہ نہیں قراردیا جاسکتا۔ یہ سیدھاسادا بزدلانہ انتقام ہے، جس کی اعلیٰ ترین سرکاری سطح پر منصوبہ بندی کی گئی تھی۔پاکستانی وزیر اطلاعات عارف نظامی نے پریس کانفرنس اس بات کا اظہار کیا ہے کہ سربجیت سنگھ کا واقعہ اتفاقی جبکہ پاکستانی قیدی ثناءاللہ پر حملہ سوچا سمجھا ہے۔ثناءاللہ پر ہونے والا حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے معالجین کے مطابق سر پر کلہاڑیوں کے وار کے باعث ثناءاللہ مسلسل قومہ میں تھے۔ ہفتے کی صبح 3 افراد پر مشتمل پاکستانی سفارت خانے کے اہلکاروں نے چندی گڑھ کے ہسپتال میں زیرعلاج ثناءاللہ کی عیادت کی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ثناءاللہ پر حملہ انتہائی بہیمانہ طریقے سے کیا گیا۔

دوسری جانب پاکستان کے نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ سے رابطہ کرکے ان سے قیدی ثناءاللہ پر تشدد کے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اورکہا کہ بھارت کی جیلوں میں قید دیگر پاکستانی قیدیوں کی حفاظت بھی یقینی بنائی جائے۔ سید علی گیلانی نے پاکستانی قیدی ثناءاللہ پر حملے کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سربجیت سنگھ پر ساتھی قیدیوں کے حملے کے بعد کشمیری اور پاکستانی قیدیوں کی حفاظت بارے بھارتی دعوﺅں کا پول کھل گیا ہے۔اس حملے سے سنتوش بھاٹیہ کے اس دعوے کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ بھارتی قیدخانوں میں سنگین جرائم میں ملوث حساس نوعیت کے قیدیوں کو بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ اگر یہ دعویٰ سچا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ بھارتی حکام نے ثناءاللہ کو قتل کرانے کی سازش کی تھی، اس لیے دوسرے قیدیوں کو ان تک رسائی کے مواقع فراہم کردیے اور عین ممکن ہے کہ مبےنہ سزایافتہ بھارتی فوجی کو حکومت نے ثناءاللہ کوقتل کرنے کے لیے تیار کیا ہو ۔ یوں بھی بادی النظر میں سری نگر جیل میں کی گئی واردات منصوبہ بندی معلوم ہوتی ہے۔جب کم ظرفی، تنگ نظری، تعصب، عداوت پوری قوم میں سرایت کرگئی ہو تو امن کی آشا کیسے کی جاسکتی ہے؟

اس ذہنیت کا موردالزام صرف جنونی بھارتیوں کو ٹھہرانا درست نہیں ہے، کیونکہ جب پاکستان کی مسلم ریاست کا ذکر آتا ہے تو ہر بھارتی ہندو خواہ وہ کانگریسی ہو، سوشلسٹ ہو یا کمیونسٹ جنونی ہوجاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا مشہور قول ہے کہ ہندو کو ذرا خراش لگاؤ تو تم اسے فرقہ پرست پاؤ گے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔جو قوم کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیلوں کے مقابلے میں تعصب، نفرت اور تنگ نظری برتے، اس سے بااعتماد تعلقات کےسے قائم کیے جاسکتے ہیں؟ آخر بابری مسجد کی شہادت میں راجیو گاندھی، نرسمہاراؤ اور ایل کے ایڈوانی سب شریک تھے۔ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی نے 2002ءمیں احمد آباد میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمان آبادی کی تطہیر کا عمل شروع کیا، جس میں دو ہزار بے گناہ مسلمان موت کے گھاٹ اتاردیے گئے۔ ان جنونیوں نے کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان احسان جعفری کو کاٹ کر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور جب ان کی بیوہ بیگم ذکیہ جعفری نے ان کے قتل کا مقدمہ درج کرایا تو انہیں انصاف نہیں ملا۔اسی بھارت سے قطعاً بعید نہیں کہ اس نے اپنے اسی روایتی تعصب کی بنا پر پاکستانی قیدی ثناءاللہ کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا ہو۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.