میرے لیے بولنے والا کوئی نہیں بچا تھا

بھائیوں آئیے اللہ سے عہد کریں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد یگانگیت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے دوسرے بھائیوں کو سمجھانے کے لیے ہر ممکن طور کوشش کریں اور اگر کوئی ہماری باتوں کو ہماری کمزوری سمجھتا ہے تو ہمیں یہ بتا دینا چاہے ہیں کہ شریعت محمدی اور دین حق اسلام کے ہم سچے سپاہی ہیں اور چاہے پاکستان کی دوسری جماعتیں مصلحتاً اگر خاموش بھی رہیں اور دل میں دوسری رائے رکھتی رہیں ہیں تو ہم تو جو ہمارے دل میں ہے وہی ہماری زبان پر بھی ہوگا اور ہم چند حکومتی سیٹوں اور حکومتی مزوں کی خاطر عوام کو استحصال و ظلم و بربریت کا شکار نا ہونے دیں گے۔

یاد رکھنے والی بات جناب رؤف کلاسرہ نے کچھ دنوں پہلے اپنے ایک کالم میں سوات کے واقعہ کے حوالے سے لکھی ہے فرماتے ہیں کہ

“اخبارات میں ان کے حق میں ایسے ایسے کالم چھپوائے گئے کہ اگر کسی دوسرے آدمی نے ان سے اختلاف کرنے کی کوشش بھی کی تو ایسے لگا جیسے وہ ملک دشمن ہو۔ وہ ملک جہاں ستر فیصد لوگ غریب اور ان پڑھ ہوں وہ دنیا میں تباہی تو لا سکتے ہیں۔ ان سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہماری اسٹیبلیشمنٹ اور ان کے ساتھ ملے میرے جیسے دانشور آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان پاکستان کا اسٹریجک اثاثہ ہیں اور ان کا ہر نخرہ برداشت کرنا قومی مفاد میں ہے۔ آج افغانستان میں کسی عورت کو سرعام کوڑے یا مجمع کے سامنے گولی نہیں ماری جاتی کیونکہ خیر سے یہ کام ہمارے لوگ اب سوات میں کر رہے ہیں۔ ہمارے دانشوروں نے اب ہمیں ایک نئی گولی دینا شروع کردی ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست ہو رہی تھی لہذا یہ چند دنوں کی بات ہے جب طالبان پھر افغانستان پر قبضہ جمالیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید رقم کرتے تحریر فرماتے ہیں امریکیوں نے خود یہ شور مچانا شروع کیا کہ افغانسان میں انہیں شکست ہو رہی تھی اور کانگریس سے سترہ ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی منظوری لے لی اور اپنے بجٹ میں مزید اضافہ کرالیا۔

جماعت اسلامی کے نئے منتخب امیر منور حسن جن سے سب کو بڑی امیدیں تھیں ان سے زیادہ اچھی بات تو صوفی محمد کی تحریک کے ترجمان عزت خان نے کی ہے جس نے لڑکی کو کوڑے مارنے کی شدید مذمت کی۔ منور حسن الٹا یہ طعنے دیتے پائے گئے کہ ڈروں حملوں پر اتنا شور کیا نہیں مچایا جاتا۔ لگتا ہے موصوف نہ اخبار پڑھتے ہیں نہ کوئی ٹیلیویژن چینل دیکھتے ہیں۔ اسلیے شاید انہیں کوئی علم نہیں کہ ان ڈروں حملوں کے خلاف کتنا احتجاج کیا جاتا ہے۔

آگے رؤف کلاسرہ صاحب مزید لکھتے ہیں “ میں طالبان سے بڑھ کر اس ملک کے صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی اور اے این پی کے اسفندیار اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اس لڑکی کی پشت پر لگنے والے کوڑوں کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ جنہوں نے بڑی آسانی کے ساتھ ایک پوری ریاست ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی ہے جو کسی دوسرے کی ماں بہن پر کوئی بھی جھوٹا الزام لگا کر اسے سرعام کوڑے مارتے ہیں۔ مجھے اب بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ اسی اخبار کے انہی صفحات پر بہت سارے ایسے کالم پڑھیں گے جو کسی شخص کی بیٹی کی پشت پر سرعام لگنے والے کوڑوں کی ایسی ایسی وضاحتیں پیش کریں گے کہ ہم سب کا جی چاہے گا کہ اب سوات کے بعد دیر، بنوں، کوہات اور پھر بشاور اور آخر میں اسلام آباد ان کے حوالے کردیں۔ ہم ایک ایسی ریاست اور معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں جو مسلسل “حالت انکار“ میں ہے۔ ہم کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری ایجنسیاں اور ان کے لاڈلے مل کر کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کھیل وہ کھیلتے ہیں اور ان کی کاروائیوں کی وضاحتیں ہم کرتے ہیں۔ ہم ساری دنیا کو جھوٹا اور اپنے لاڈلوں کو سچا سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ لاڈلے افغانستان میں یہ سب کچھ کرتے تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ کام ہمارے ہاں کبھی نہیں ہوگا۔ اب یہ کام سوات میں ہو رہا ہے تو ہم سمجھتے ہیں یہ کوڑے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی عورتوں کی پشت پر نہیں لگیں گے۔

ایک شخص نے بڑی مشہور نظم جنگ عظیم دوم میں لکھی تھی کہ کیسے نازی فوجی آئے اور میرے ساتھ والے ہمسائے کو اٹھا کر لے گئے۔ میں چپ رہا، کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ میری باری کبھی نہیں آئے گی۔ اگلے دن وہ ایک اور ہمسائے کو اٹھا کر لے گئے تو بھی میں چپ رہا، ایک دن وہ سارے یہودیوں کو اٹھا کر لے گئے تو بھی میں چپ رہا۔ ایک صبح وہ مجھے اٹھانے آئے تو میں نے خوف کے مارے ادھر ادھر دیکھا تو میرے لیے بولنے والا کوئی نہیں بچا تھا!!!! “ بلاشبہ رؤف کلاسرہ صاحب آپ نے مرض کی بالکل صحیح تشخیص کی کچھ لوگ ہو سکتا ہے آپ کے نقطہ نظر سے خوش نا ہوں مگر آپ حق کے راستے پر چلتے رہیں اور بلا خوف و خطر اپنے قلم کی نوک سے قوم کی بیماری کی اسباب اور انکے حل بتاتے رہیں اللہ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علم و عمل میں قوت عطا فرمائے آمین۔

اللہ ہمارے ملک اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرما اور ہم پر ایسا بوجھ مت ڈالیو مالک کہ جسے ہم برداشت نا کرپائیں۔ آمین۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 499889 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.