افسوسناک واقعات اور ہماری بے بسی - جمہوریت زندہ باد

سب بھائیوں کو السلام وعلیکم، بعد از سلام

کچھ دنوں سے دل نہیں چاہ رہا تھا کچھ لکھنے اور پڑھنے کو کہ اچانک ایک خبر پر نظر پڑی اور اس خبر کو پڑھتے ہی ایسا لگا کہ جیسے یہ واقعہ میرے ساتھ ہی ہوا ہو اور جو اس خبر کے مطابق افراد و بچے قتل ہوگئے ان کا خون میں نے اپنے کندھوں پر محسوس کیا اور میں نے یہ بھی محسوس کرنے کی کوشش کی کہ اگر میں حاکم وقت (چاہے صوبے کا ہی) ہوتا تو کیا میں اس جرم کے بارے میں خدا کا جواب دے ہونے کی صلاحیت رکھتا ہوتا چاہے میری مقبولیت گیلپ سروے کے مطابق اسی فیصد ہی کیوں نا ہوتی۔

اگر آپ کے دل میں انسانیت کے جراثیم اب تک زندہ ہیں تو خدارا ان بے گناہ مرنے والوں کا احساس اپنے دل سے محسوس کرنے کی کوشش کیجیے گا اور سوچیے گا کہ کیا مرنے والوں کے گھر جانے فوٹو سیشن کروانے ٹی وی کے سامنے آکر مرنے والوں کے لیے پانچ پانچ یا دس دس لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کرنا کیا انسانیت ہے یا مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچوانا انسانیت ہے۔

خبر کے مطابق

ڈسکہ٬ سیالکوٹ میں جائیداد کے جھگڑے میں ایک شخص نے تیز دھار آلہ سے اپنے سگے (جی ہاں ماں جائے ) چھوٹے بھائی، اپنی سگی بھابی، اپنے ٨ (آٹھ) معصوم بھتیجوں اور بھتیجیوں (یعنی ١٠ افراد) کو موت کے گھاٹ اتارنے اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا (واہ رے واہ فرار ہو گیا کیسے ہو گیا بھی پولیس کی تنخواہیں تو غالباً اب ڈبل کر دی گئیں ہیں اور پولیس والے بڑے نعرے لگاتے اور بڑے جوش جزبے سے بھرپور نظر آرہے تھے پھر بھی ملزم فرار ہو گیا)۔

مزید تفصیلات کے مطابق تھانہ ستراہ کے موضع “جھلکی“ میں چند روز قبل جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے مقتول جاوید اور اس کے بھائی ملزم ظفر میں معمولی تکرار ہوئی جس کا ملزم کو رنچ تھا۔ جمعرات کو علی الصبح جاوید اپنے بیوی فہمیدہ، بیٹوں عاطف، ابراہیم، اسماعیل اور بیٹیوں حنا، رمنا، عائشہ، علیشاہ کے ہمراہ اپنے گھر میں سورہا تھا کہ ملزم ظفر نے گھر میں داخل ہو کر تیز دھار آلہ سے وار کر کے تمام اہل خانہ کو سوتے میں قتل کیا اور اطمینان سے فرار ہو گیا۔ جائے وقوعہ پر دیواروں اور زمین پر خون کے نشانات پڑے ہوئے تھے۔ مرنے والے بچوں کی عمریں چھ ماہ سے دس سال تک کی ہیں۔

اب بتائیے کہ یہ خون ناحق کس کس کے سروں پر ہے کیا ہم اس خون ناحق سے بری الزمہ محسوس کرتے ہیں اپنے آپ کو اگر آپ کرتے ہوں تو آپ کی جرآت کے کیا کہنے میں تو اس جرم میں اس تمام معاشرے بالشمول اپنے آپ کو زمہ دار محسوس کرتا ہوں اور خصوصاً حکومت وقت کو اور بالخصوص پنجاب حکومت کہ جس کی حکومت بڑے آب و تاب اور بڑے دھڑلے اور بڑے زور اور دعووں کے ساتھ چل رہی ہے۔ کیا یہ حکومت کا کام نہیں ہے کہ چلیں ایسے واقعے کو وقوع ہونے سے روک تو نا سکے تو اس کے زمہ داروں کو عبرت کا ایسا نشان بنا دیا جائے کہ جس کی مثال رہتی دنیا تک قائم رہے اور میں پھر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے اعلیٰ ترین جج مسٹر جسٹس افتخار چوہدری سے یہ امید کروں گا کہ اس واقعہ کی صوبائی عدالتوں کے زریعے تحقیقات کرائی جائیں اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار اور الزام ثابت ہونے پر اس کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔

ایک اور ٹی وی خبر میں جناب محترم قبلہ عزت مآب عالی القدر شہباز شریف صاحب حسب معمول ایک واقعے کے وقوع ہونے کے بعد ایک اسپتال میں ایک لڑکی کی عیادت کےسلسلے میں ٹی وی اسکرین پر نظر آئے (میڈیا کوریج کی کیا بات ہے) جہاں وہ ایک مظلوم لڑکی کہ جسکے پیر رشتے کہ تنازعے میں کاٹ دیے گئے تھے کی عیادت کرتے اور یہ بیان کرتے پائے گئے کہ اصل ٹانگیں تو ہم نہیں لوٹا سکتے مگر آرٹیفیشل ٹانگوں کا ہم انتظام کر دیں گے اور اس لڑکی کو جو کہ یتیم بھی ہے ایک چھوٹا سا گھر بھی رہائش کے لیے دیا جائے گا ۔

اس کے علاوہ ایک اور خبر پر نظر پڑی جسکے مطابق صوبہ پنجاب کے ہی (غالباً) ایک علاقے میں ایک لڑکی کے بھائیوں اور باپ کو باندھ کر انسان نما درندوں نے ایک لڑکی کے ساتھ کھلے عام زیادتی کی اور حسب معمول اطمینان کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ روٹی فراہم کرنا اور وہ بھی روپے دو روپے کی تو حکومت کا کام ہے اور لوگوں کی عزت، جان و مال حفاظت نا کرنا کیا کسی اور کا کام ہے اور کیا روپے دو روپے کی روٹی خرید کر غریب مجبور لاچار بے بس انسان اپنی عزتوں اور اپنی جانوں سے یوں ہی ہاتھ دھوتا رہے گا اور کیا ایک غریب انسان روپے دو روپے کی روٹی لیکر اپنی عزت کے لٹ جانے کے بعد بھی نعرے لگاتا رہے گا۔

اب تو الحمداللہ جمہوریت کا دور دورہ ہے عدلیہ بھی آزاد ہے پھر کیا معنی ہے انصاف کی فراہمی اور وہ بھی غریبوں کو جو کہ انصاف کو خرید اور افورڈ نہیں کر سکتے اپنی جیبوں سے۔

اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرما اور ہمیں، بشمول مجھ ناچیز کو، حق بات کہنے حق بات لکھنے اور حق بات کو سمجھنے اور سمجھانے والا بنا دے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 499885 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.