مسز ڈاکٹر پیرزادہ کا قتل اور سپیڈی ٹرائل

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن ابی زیدانصاری ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سعد بنت سعد بن ربیع ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ میں حضرت ام عمارہ ؓکے پاس گئی اور میں نے ان سے کہا اے خالہ جان مجھے اپنی بات بتائیں انہوںنے کہا کہ میں دن کے شروع میں صبح صبح نکل کردیکھنے لگی کہ مسلمان کیا کررہے ہیں میرے پاس پانی کا ایک مشکیزہ تھا میں چلتے چلتے حضور ﷺ تک پہنچ گئی آپ ﷺ اپنے صحابہ ؓ کے بیچ میں تھے اُس وقت مسلمان غالب آرہے تھے اور ان کے قدم جمے ہوئے تھے اور جب مسلمانوں کو شکست ہونے لگی تو میں سمٹ کر حضور ﷺ کی پا س آگئی اور ( آپ کے سامنے )کھڑی ہوکر لڑنے لگی اور تلوار کے ذریعہ کافروں کو (حضور ﷺ سے ) دور ہٹانے لگی اور کمان سے تیر بھی چلانے لگی مجھے بھی بہت سے زخم لگے حضرت ام سعد ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پر ایک زخم دیکھا جو اندر سے بہت گہرا تھا میں نے حضرت ام عمارہ ؓ سے پوچھا کہ یہ زخم آپ کو کس نے لگایا تھا انہوںنے کہا ابن قمئہ کافر نے اللہ اسے زلیل کرے اس کی صورت یہ ہوئی کہ جب مسلمان حضور کو چھوڑ کر بھاگنے لگے تو ابن قمئہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ مجھے بتاﺅ کہ محمد ﷺ کہاں ہیں اگر وہ بچ گئے تو پھر میں نہیں بچ سکتاہوں (یعنی یاوہ نہیں یا میں نہیں ) پھر میں اور حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور کچھ اور صحابہ ؓ جو آپ کے ساتھ جمے ہوئے تھے اس کے سامنے آگئے اس وقت اس نے مجھ پر تلوار کا وار کیاتھا جس سے مجھے یہ زخم آگیا تھا میں نے اُس پر تلوار کے کئی وار کیے تھے لیکن اللہ کے دشمن نے دوزرہیں پہنی ہوئی تھیں ۔

حضرت حمزہ بن سعید ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس چند اونی چادریں لائی گئیں ان میں سے ایک بہت عمدہ اور بڑی چادر تھی کسی نے کہا کہ اس کی قیمت تو اتنی ہوگی یعنی بہت زیادہ قیمت بتائی آپ اسے (اپنے بیٹے ) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی بیوی حضرت صفیہ بنت ابی عبید ؓ کے پاس بھیج دیں ان دنوں حضرت صفیہ ؓ نکاح کے بعد حضرت ابن عمر ؓ کے پاس نئی نئی آئی تھیں (یعنی ابھی ابھی رخصتی ہوئی تھی وہ دلہن تھیں ) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ چادر ایسی عورت کے پاس بھیجوں گا جو ابن عمر ؓ کی بیوی سے زیادہ اس کی حقدار ہوں اوروہ ہیں ام عمارہ نسیبہ بنت کعب ؓ ۔میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ( اُحد کے دن ) میں دائیں بائیں جس طرف بھی منہ کرتا مجھے ام عمارہ ؓ بچانے کیلئے اس طرف لڑتی ہوئی نظر آتی۔

قارئین ہم نے آج سے چند روز قبل اپنے اور کشمیری قوم کے سب سے بڑے طبی محسن ڈاکٹر غلام محی الدین پیرزادہ کی اہلیہ محترمہ اور اپنے عزیز دوست ڈاکٹر معید پیرزادہ جو ٹیلی ویژن کے مقبول اور معروف اینکر ہیں ان کی والدہ محترمہ کی اچانک وفات پر دل کا دکھڑا کہہ لیجئے ،مرثیہ کانام دے دیجئے یا نوحہ کہہ دیجئے آپ کی خدمت میں پیش کیاتھا اس کالم کا عنوان ہم نے ”ڈاکٹر پیرزادہ کا غم “رکھا کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات بہت اچھی طرح ہے کہ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ نے جس طریقے سے مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرتے ہوئے سولہ سترہ سال کی عمر میں اپنی زندگی کی جدوجہد شروع کی اور ڈاکٹر بننے تک جن جن کٹھن مراحل سے گزرے اس نے ان کی روح ،دل ،دماغ اور احساسات پر وہ گہرے گھاﺅ ڈالے کہ جو ان کی ذات کا حصہ بن کر تلخیوں کا سبب بن گئے ان کے دل پر کیا کیا گزری یہ اللہ بہتر جانتاہے اور ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ بہتر جانتے ہیں لیکن مسز پیرزادہ جو ہماری آنٹی بھی تھیں اور ہم سے ماں جیسا برتاﺅ رکھتی تھیں انہوں نے ہماری ڈیوٹی لگائی تھی کہ ان کے خیال میں ہم دنیا کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں کہ جن کے ساتھ ڈاکٹر پیرزادہ انتہائی دوستانہ سلوک رکھتے ہیں ،ہمارے ساتھ ہنستے ہیں ،ہمارے ساتھ اپنی یادیں اور باتیں شیئر کرتے ہیں اور اپنے سگریٹ کے پیکٹ میں سے ہمیں ایک لنگوٹیے دوست کی طرح سگریٹ بھی آفر کرتے ہیں اس لیے ہم ڈاکٹر پیرزادہ کی زندگی کے متعلق ایک کتاب تحریر کریں اور ان کی وہ تمام تلخیاں جو انہوں نے اس مقام تک پہنچنے میں برداشت کیں اور جو جدوجہد کسی بھی نوجوان کیلئے ایک سبق کی حیثیت رکھتی ہے اسے قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کرکے پوری دنیا تک پہنچا دیں اور یہ پیغام دنیا کو دے دیں کہ کس طرح ایک بے وسیلہ اور بے سہار انوجوان وہ ڈاکٹر پیرزادہ بنا جو لاکھوں دکھی لوگوں کا مسیحا اور پیر ہے ہم نے آنٹی کے اس حکم کی تعمیل میں کام کرنا شروع کیا اور ڈاکٹرپیرزادہ کے کلینک سے لے کر گھر تک اور گھر سے ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر تک ہر جگہ ان کی یاداشتیں ان سے کریدنا جاری رکھیں کہ اس دوران یہ سانحہ پیش آگیا مسز پیرزادہ کو اچانک وفات کے بعد تین مارچ کو سپرد خاک کردیاگیا ان کی وفات کی خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں کشمیری آباد ہیں بلامبالغہ لاکھوں لوگ زاروقطار روتے رہے کیونکہ یہ ان کے آئیڈیل ،اُن کے پیر ،ان کے محسن ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کا غم تھا کسی کے بھی وہم وگمان میں تھا کہ اصل کہانی کچھ اور ہے اور ان کی وفات طبعی موت نہیں بلکہ ایک قتل ہے راقم تدفین کے بعد اپنے محسن اور دوست ڈاکٹر سی ایم حنیف کے ہمراہ ڈاکٹر معید پیرزادہ سے ملنے ان کے گھر گیا تو ڈاکٹر معید نے انتہائی الجھن کے عالم میں ڈاکٹرسی ایم حنیف سے سوال کیا کہ آپ بھی نشتر میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹر ہیں اور میں بھی آپ کاجونیئر ہوں مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا تجربہ کیا کہتاہے کہ میری والدہ محترمہ کے کولیسٹرول ،شوگر ،بلڈپریشر ،ہارمونز سے لیکر دیگر تمام میڈیکل ٹیسٹ آج سے چند روز قبل بالکل نارمل آئے تھے کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ٹیسٹ نارمل ہونے کے باوجود انہیں جان لیو ا ہارٹ اٹیک ہو اور وہ وفات پاجائیں اس کی سائنسی توجیہہ کیابنتی ہے ڈاکٹر سی ایم حنیف نے تھوڑی دیر اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور پھر کہنے لگے ڈاکٹر معید یہ سب اللہ تعالیٰ کا امر ہوتاہے وجہ خود بخود بن جاتی ہے میری اپنی والدہ محترمہ کو میں آزادکشمیر کے سب سے ماہر اور بڑے ڈاکٹر امجد کے پاس لے کر گیا وہ بالکل نارمل تھیں اور تھوڑی دیر بعد انہی کے ہسپتال میں اچانک وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں اور ڈاکٹر امجد اور مجھ سمیت کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ یہ سب کیا اور کیسے ہوا ہے ۔

قارئین قصہ مختصرقل کی شام اچانک ایک خبر ہم تک پہنچی کہ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کی اہلیہ کو ان کے گھریلو ملازم تنویر نے زیور اور پانچ لاکھ روپے کے لالچ میں قتل کیاہے یقین جانیے ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہم نے فوراً ڈاکٹر معید سے رابطہ کیا اور اس کے بعد پوری کہانی پتہ چلنے پر ایک افسوس ناک صورتحال سامنے آئی واقعہ کے مطابق انتقال کے دن مسز پیرزادہ کے اکاﺅنٹ سے پانچ لاکھ روپے نکلوائے گئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی زیورات بھی غائب تھے ملزم تنویر نے پولیس کو پوری تفصیلات بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ وقوع کے روز آنٹی نے اسے تنخواہ کا چیک دیا اور چیک بک باہر ہی رکھ کر جب کمرے سے نکلیں تو اس نے ایک چیک پھاڑ کر اپنے پاس رکھ لیا اور اس پر ان کے جعلی دستخط کرنے کے بعد بنک سے رقم نکلوانے کی کوشش کی بنک مینجر نے بڑی رقم کا چیک دیکھ کر کہا کہ اتنی بڑی رقم ہم اپنے اکاﺅنٹ ہولڈر سے بات کیے بغیر آپ کو نہیں دے سکتے یہ ملزم اتنا شاطر اورچالاک تھا کہ اس نے گھر سے بینک آنے سے پہلے مسز پیرزادہ کو دودھ میں پندرہ خوا ب آور گولیاں ملا کر پلا دیں جس سے وہ بے ہوش ہوچکی تھیں ملزم نے بنک مینجر کو انتہائی اطمینان سے کہا کہ آپ تصدیق کرلیں بنک مینجر نے گھر فون کیا تو کسی نے بھی لینڈ لائن نمبر اٹینڈنہ کیا وجہ کیاتھی کہ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ فالج کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھے اور ملزم تنویر انہیں کمرے میں بند کرکے آیا تھا جبکہ مسز پیرزادہ جن کے اکاﺅنٹ سے رقم وہ فراڈ کے ذریعے نکلوانے کیلئے آیا تھا انہیں وہ پندرہ خواب آور گولیاں دے کر پہلے ہی بے ہوش کرچکاتھا بنک مینجر نے تنویر سے موبائل نمبر مانگا تو موبائل نمبر دے کر تنویر نامی یہ انتہائی شاطر ملزم بنک سے باہر نکل گیا بنک مینجر نے جب فون ملایا تو وہ فون اسی ملزم کے پاس تھا اس نے عورت کی آواز بناکر یا کسی ساتھی عورت کے ذریعے بنک کے عملے کو اطمینان دلایا کہ میں مسز پیرزادہ بول رہی ہوں اور میں نے ہی اپنے ملازم کو آپ کے پاس بھیجا ہے مجھے رقم کی ضرورت ہے آپ اسے رقم دے دیں بنک سے رقم حاصل کرنے کے بعد یہ ملزم گھر پہنچا اور دیکھا کہ آیا مسز پیرزادہ ابھی تک زندہ ہیں یا نہیں ۔ان کی سانس چل رہی تھی لیکن وہ بے ہوشی کے عالم میں تھیں ملزم کا کہنا ہے کہ گھر کے زیورات وہ پہلے ہی چوری کرچکاتھا اور پانچ لاکھ کی خطیر رقم سمیت سونے کے زیوارت وہ اپنے گھر بن خرماں پہنچا کر اب یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتاتھا کہ مسز پیرزادہ زندہ بچ جائیں اور اس کی چوری پکڑی جائے چنانچہ اس نے مسز پیرزادہ کو انسولین کے ساٹھ یونٹ انجکیشن کے ذریعے دیئے تاکہ بلڈ شوگر کے خطرناک حد تک گرنے سے آنٹی وفات پاجائیں ان سب واقعات کے دوران ایک حیرت انگیز سیریز بھی چل رہی تھی ڈاکٹر پیر زادہ کے تینوں بیٹے اور بیٹی دبئی ،امریکہ اور لاہور سے بار بار گھر فون کررہے تھے اور اپنی ماں سے بات کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن موبائل اس ملزم کے پاس تھا اور وہ بہانے بنا کر پہلو تہی کرتارہا کہ آنٹی سورہی ہیں ،اُن کی طبیعت خراب ہے اور وہ بات نہیں کرسکتیں مسز پیرزادہ کی بیٹی ڈاکٹر انیلہ وہ واحد خوش قسمت اولاد ہیں کہ جو اپنی ماں سے بات کرپائیں اور انہیں یہ پتہ چلا کہ ان کی والدہ کی طبیعت بہت خرا ب ہے اس پر انہوں نے ڈاکٹر معید پیرزادہ اپنے بھائی سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی والدہ کی خرابی صحت سے آگاہ کیا ڈاکٹر معید نے فون کرکے اپنی والد ہ سے بات کرنے کی کوشش کی تو شاطر ملزم نے بتایا کہ ان کی طبیعت بہت خراب ہے بعدازاں ملزم نے جب انسولین کی بھاری مقدار مسز پیرزادہ کے جسم میں منتقل کردی تو اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر تک ان کی موت ہوجائے گی تو اب کیاکیاجائے اس کے شاطر اور مجرمانہ ذہن میں یہ بات آئی کہ وہ یہ ظاہر کرے کہ مسز پیرزادہ کو ہارٹ اٹیک ہوچکاہے اور وہ انہیں علاج کیلئے کہیں لے جارہاہے اس نے ڈاکٹر معید پیرزادہ سے رابطہ کرکے بتایا کہ ان کی والد ہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے اور وہ انہیں علاج کیلئے اسلام آباد لانے کی اجازت چاہتاہے ڈاکٹر معید نے نوکر کو منع کیا اور اسے کہا کہ وہ خاندانی دوست ڈاکٹر زبیر اور ان کی اہلیہ کو گھر بھیج رہے ہیں ڈاکٹر زبیر کی اہلیہ نے گھر فون کرکے نوکرکو کہا کہ وہ پندرہ منٹ کے اندر آرہے ہیں فکر کی بات نہیں لیکن فکر کی بات تو یہیں سے شروع ہوگئی ملزم تنویر نے کہا کہ جب اُس نے دیکھا کہ اگر ڈاکٹر زبیر اور ان کی اہلیہ گھر پہنچ گئے اور مسز پیرزادہ کی زندگی بچ گئی تو اس کی چوریاں اور تمام منصوبہ پکڑا جائے گا تو لالچ میں آکر عجلت میں اُس نے مسز پیرزادہ کے منہ پر تکیہ رکھ کر اُن کی سانس بند کردی اور آٹھ منٹ تک اُن کی سانس روکے رکھی اور بعدازاں کمرے کی تمام چیزیں اور بیڈ نارمل حالت میں کرکے مرحومہ مسز پیرزادہ کے اُوپر سلیقے کے ساتھ کمبل تہہ کرکے رکھ دیا ڈاکٹر زبیر اورانکی اہلیہ مسز قیصرہ زبیر جب گھر پہنچے تو آنٹی کا معائنہ کرنے پر انہیں پتہ چلا کہ وہ تو وفات پاچکی ہیں اس پر مسز قیصرہ زبیر نے فوراً شور مچایا کہ نارمل حالت میں جب کسی بھی انسان کی جان نکلتی ہے تو بستر کی چیزیں اس طرح نہیں ہوتیں جس صفائی اور سلیقے کے ساتھ یہاں دکھائی دے رہی ہیں اور انسان کی ظاہری حالت بھی ایسی نہیں ہوتی جیسی دکھائی دے رہی ہے ملزم تنو یر نے بہانہ بنایا کہ آنٹی کی فوتگی کے بعد میں نے یہ سب چیزیں ترتیب سے رکھی ہیں شک نے یہیں سے جنم لے لیا بعدازاں معید پیرزادہ کے چھوٹے بھائی بصیر پیرزادہ اور ہادی پیرزادہ نے ملزم تنویر سے جب اپنی مرحومہ ماں کی زندگی کے آخری لمحات کے متعلق دریافت کیا تو اس کے دونوں بیانوں میں تضاد تھا اس پر ڈاکٹر معید پیرزادہ ٹھٹک گئے اور انہوں نے تنویر کو علیحدہ بٹھا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب چند سوالات کیے تو اس ملزم کے پسینے چھوٹ گئے اس پر انہوں نے پولیس سے رابطہ کرکے اپنے شبہات کا اظہار کیا آزادکشمیر کے محکمہ پولیس کے سرمایہ افتخار ایڈیشنل ایس پی راجہ عرفان سلیم نے تنویر کو گرفتار کیا تو تمام کہانی منکشف ہوگئی راقم چونکہ ایک ٹیلی ویژن کیلئے بھی کام کرتاہے اس لیے اپنے کیمرہ مین کو لے کر جب راقم پوسٹمارٹم کے روز قبرستان گیا تو وہاں ڈاکٹر معید پیرزادہ ،پوسٹمارٹم ٹیم کے ممبران ،محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید جو فورنزک میڈیسن کے پروفیسر اور پوسٹمارٹم کے حوالے سے پوری دنیا کا ایک مایہ ناز نام ہے ان سے ملاقات ہوئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مسز پیرزادہ کا جبڑا بھی متاثر ہے اور ان کی ناک کی ہڈی بھی فریکچر ہے جو ظاہر کررہی ہے کہ اس سفاک قاتل نے کس بے رحمی کے ساتھ ان کی سانس روکی پوسٹمارٹم رپورٹ بھی جلد ہی آجائے گی ،واقعاتی شہادتیں بھی موجود ہیں ،بینک کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ملزم کو شناخت کرچکی ہے اور اس سے بڑھ کر راقم اپنے کیمرہ مین کامران چوہدری کے ساتھ تھانہ سٹی میرپور میں اس ملزم تنویر کا اقبالی بیان بھی ریکارڈ کرچکاہے جس کے مطابق اس نے بغیر کسی خوف یا دباﺅ کے تمام واقعات بیان کیے ہم نے انتہائی دکھ سے اس ملزم سے پوچھا کہ تم نے اس عظیم خاتون کو آخر کیوں قتل کیا جو گزشتہ سات سالوں سے تمہیں اپنا بیٹا کہتی تھیں اور پہلے بھی جب تمہیں رقم کی ضرورت پڑتی تھی تو وہ تمہاری امداد کیاکرتی تھیں اور جب تمہیں گھر بنانے کیلئے بڑی رقم کی ضرورت پڑی تو انہوں نے تمہیں لاکھوں روپے کی امداد دی تو اس کے جوابات انتہائی متضاد اور عجیب وغریب تھے ملزم نے کیمرہ ریکارڈنگ میں یہ بات کہی کہ وہ لالچ میں آگیا تھا اسے خطرہ تھا کہ اس کی یہ بڑی چوری پکڑی جائے گی اور اسے رقم کی ضرورت تھی ہم نے جرح کی کہ تمہیں رقم کی ضرورت کیوں تھی اس پر اس نے کہا کہ اسے قرض خواہ تنگ کرتے تھے اس پر بہت قرضہ چڑھا ہواتھا ہم نے پوچھا قرضہ کیوں چڑھا تھا توا س پر اس نے بتایا کہ مکان بناتے ہوئے اس نے بھاری رقم مختلف لوگوں سے قرض پر حاصل کی تھی ہم نے اگلا سوال کیا کہ قرض اداکرنے کیلئے یہ رقم تم اپنی ماں جیسی شفیق خاتون مسز پیرزادہ سے مانگ لیتے تو ملزم نے انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ شائد وہ اتنی بڑی رقم مجھے نہ دیتیں اس لیے میں نے انہیں قتل کردیا ہم نے دریافت کیا کہ اب تمہارے کیا جذبات ہیں تو کہنے لگا کہ میں نے کبیرہ گناہ کردیاہے اللہ مجھے معاف کرے ۔

قارئین اس سے اگلے انکشافات ابھی جاری ہیں راقم کو کچھ زرائع سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ یہ ملزم ایک عادی جواری ہے اور مختلف اقسام کے جوئے کھیلتاہے کھوئی رٹہ سے تعلق رکھنے والا یہ ملزم ایک مشکوک خاندانی پس منظر کا حامل ہے اور اس تمام کہانی کے پیچھے اور بھی بہت کچھ ہوسکتاہے ہمیں یقین ہے کہ محکمہ پولیس کے سرکے تاج ایڈیشنل ایس پی راجہ عرفان سلیم اس تمام کہانی کودریافت کرکے دم لیں گے کیونکہ آج سے کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر پیرزادہ کے گھر سے تقریبا ً سولہ لاکھ مالیت کے سونے کے زیورات چوری ہوئے تھے اور راجہ عرفان سلیم نے اس وقت بھی اسی گھریلو ملازم پر شک کا اظہار کیاتھا لیکن مسز پیرزادہ جو اس ملازم کو اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتی تھیں انہوںنے سختی سے اسے ہاتھ لگانے سے بھی منع کردیاتھا اب دوران تفتیش اس ملزم نے اس چوری کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے ۔

قارئین یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر پیرزادہ ،مسز پیرزادہ کے بچوں ،پوری دنیا میں آباد ڈاکٹر پیرزادہ کے لاکھوں مریدوں اور راقم کے دل اور دماغ میں ایک ہی سوال بار بار گردش کررہاہے کہ آیا ہمارے ملک کا عدالتی نظام اتنا فعال ہے کہ سیدھے سادھے قتل کی اس واردات کے مجرم کو جلد از جلد ٹرائل کرتے ہوئے اسلامی قوانین کے مطابق موت کی سزادی جاسکے کیونکہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آزادکشمیر جسٹس ریٹائرڈ ریاض اختر چوہدری اور سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ عبدالمجید ملک راقم کو عدالتی نظام کے حوالے سے ماضی میں دیئے گئے انٹرویوز میں واضح طور پر یہ نشاندہی کرچکے ہیں کہ پاکستان اور آزادکشمیر میں عدالتی نظام میں اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ کئی مقدمات میں نسلیں گزر جاتی ہیں لیکن مقدمے کا نتیجہ سامنے نہیں آتا ہم آزادکشمیر کے صدر سردار یعقوب خان ،وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید ،چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس اعظم خان ،چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس مصطفےٰ مغل اور تمام سوسائٹی سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارا کشمیری قوم کے سب سے بڑے طبی محسن کی اہلیہ کے اس سفاکانہ قتل کو ایک ٹیسٹ کیس بنایا جائے اور سپیڈی ٹرائل کرتے ہوئے اصل مجرم یا پس پردہ جو بھی کوئی مجرم ہے اسے پھانسی کی سزا دی جائے بصورت دیگر یاد رکھیئے گا کہ وہ معاشرے اور ممالک مردہ معاشرے اور ممالک کہلاتے ہیں جہاں محسنوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیاجاتاہے اور انصاف کی فراہمی میں اتنی تاخیر کی جاتی ہے کہ اس کا مقصد ہی فوت ہوجاتاہے ہمیں یقین ہے کہ کشمیری قوم ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے گی ڈاکٹر پیرزادہ پوری کشمیر ی قوم آپ کے اس غم میں برابر کی شریک ہے جتنا درد اور غم آپ کو ہے اتنا نہ سہی لیکن لاکھوں لوگ آنکھوں میں آنسو ، دلوں میں مرحومہ مسز پیرزادہ کیلئے نیک جذبات اور لبوں پر دعائیں رکھتے ہیں اللہ اس غم میں آپ کو صبر دے آمین
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 338884 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More