راستہ کٹھن ۔۔۔۔ منزل پر بھی جانا ہے

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ہمارے ضلع میانوالی کے نوجوانوں میں ابھی تک سیاست کی سمجھ بوجھ نہیں پائی جاتی ۔ ایمانداری سے سیاست کے میدان میں نوجوان نسل مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مختلف یوتھ ونگ کے ذریعے اپنی خدمات بغیر کسی لالچ کے ابھی تک نبھا رہے ہیں اور نبھاتے رہیں گے۔لیکن جب الیکشن ہو جائے گا تو ان یوتھ ونگز کو کوئی پوچھنے والا موجود ہوتاہے یا نہیں یہ سوچ کر دکھ اور پریشانی محسوس ہوتی کہ آیا ان نوجوانوں کو نوکریوں اور تعلیم مفت مہیا کرنے والے سیاسی لیڈروں کو ان سے ملنے کا موقعہ بھی ملے گا یا نہیں؟مختلف ادوار میں مختلف سیاسی لیڈروں نے اپنی سیاست کی زندگی میںطلبہ تنظیموں کی بنیادیں رکھیں جو کہ نوجوانوں کے لیے فائدہ مندکم اور نقصان دہ زیادہ ثابت ہوئی ہیں۔طلبہ تنظیمیں ہمیشہ سیاسی طور پر معروض وجودمیں آتی ہیں اور یہی طلبہ غلط طریقوں سے اپنے کالجوں ، یونی ورسٹیوں کے پرنسپلز، اساتذہ اور ملازمین کو تشدد کا نشانہ بناتے اور تعلیمی اداروں میں لڑائی جھگڑے کا موجب بنتے اور بعد میں پتہ چلتا کہ ان کے پیچھے کسی سیاسی جماعت کا تعلق تھا۔نوجوان نسل کسی بھی ملک کا قیمتی تر اثاثہ شمار کیا جاتا ہے اور کسی ملک میں حقیقی تبدیلی صرف نوجوان نسل اور مثبت سوچ سے ہی ممکن ہوتی ہے۔کچھ کرنے کا جذبہ لے کر اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف چیلنجوں کو قبول کرنے والے سادہ لوح نوجوان نسل کو ایک پلیٹ فارم کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بغیر کسی سیاسی پارٹی کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانے، پڑھے خو د یا کسی دوستوں کے کہنے پر سیاسی یوتھ ونگ کو جوائن کرلیتے ہیں۔اور وہ اپنے نیک خیالات و جذبات لے کر جب یوتھ ونگ میں داخل ہوتا ہے تو اس کو سب اونچ نیچ کا پتہ چلتا ہے۔بے شک موجودہ دور میں یوتھ ونگ کا قیام ہر سیاسی پارٹی کے لئے ایک اہم ستون کا مقام رکھتا ہے۔اور اس دفعہ کا الیکشن یوتھ ونگ کو آگے رکھ کر لڑا جائے گا۔ہر عام شہری کو ملکی حالات بہتر بنانے کےلئے کسی نہ کسی طور پر اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے ملک میں تقریبا برادری سسٹم کو ترجیح دی جاتی رہی۔کسی برادری کا ایک فرد بغیر کسی دوسرے سے پوچھے اپنے تما تر ووٹ کسی ایک فرد کے حوالے کر دیتا تھا ۔اور جس کا فائدہ الیکشن جیتنے کے بعد صرف اور صرف وہی برادری کا سربراہ یا اس کے قریبی ہی اٹھاتے تھے۔انہیں برادری سسٹم کی بنیادوں پر ضلع میانوالی میں کئی کئی سالوں سے ہمارے سیاسی لیڈر سیاست کرتے آ رہے ہیں۔اور کامیابیاں ان کا مقدر بنتی آ رہی ہیں۔جبکہ موجودہ حالات میں لوگ برادری سسٹم کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں اور خود اپنے ووٹ کی طاقت سے سیاسی لیڈر سے ملنے اور اپنے تمام تر مسائل کے حل کے لئے آگے آ رہے ہیں۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضلع میانوالی کی تاریخ میں اس دفعہ پرانے سیاسی لیڈروں کےلئے الیکشن میں کامیابی مشکل لگ رہی کیونکہ کہ ضلع میانوالی کی غریب عوام کی فلاح و بہبود سب کے سامنے اور ہر کسی کو نظر آ رہی ہے۔اب ہر کوئی خود سیاسی لیڈر تک جانے اور پہنچانے جانے کو ترجیح دیتا کیونکہ ہر ایک ووٹ کی اپنی طاقت ہوتی ہے اور جو ووٹ دیتا ہے تو وہ یہ بھی جاننا چاہتا کہ آیا جس نمائند ہ کو وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے جیتوا کر اسمبلیوں میں بیٹھنا چاہتے وہ ان کو جانتا بھی ہے کہ نہیں؟اور بدقسمتی سے برادری سسٹم میں سیاسی لیڈر برادری کے سربراہ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا۔بعض اوقات ان جیتے ہوئے سیاسی لیڈروں کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ کسی غریب کی آواز سن سکیں بلکہ سیاسی لیڈر کے قریبی ہی کسی محفل میں غریب کو اس تک نہیں جانے دیتے۔بعض دفعہ لوگ گھنٹوں انتظار کر کر کے تنگ آ جاتے تو پتہ چلتا کہ صاحب تو چلا گیا۔ اور اس وقت ان لوگوں کے منہ سے جو نکلتا وہ میں بھی جانتا اور آپ بخوبی جانتے۔اس کے بعد الیکشن کے دنوں میں روٹھے ہوئے لوگوں کو منانے کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے جس میں ہمارے برادری کے سربراہاں یہ کام بڑے اچھے طریقے سے سرانجام دیتے اور ہر بار کی طرح انہیں لیڈروں کو ووٹ دیتے۔ ضلع میانوالی کا بھی یہی حال ہے یہاں پر بھی کئی کئی سالوں سے حکومتیں کرنے والے ہمارے سیاسی لیڈر اس بار کے الیکشن میں بھی پوری تیاری سے اتریں گے۔لیکن ابھی تک برادری سسٹم پرانے عروج پر ہے۔لیکن ضلع میانوالی میں بھی یو تھ ونگ دوسرے اضلاع کی طرح ابھی تک نیک نیتی کے ساتھ ان سیاسی لیڈروں کا ساتھ دی رہی ہیں۔بھولے بھالے ہمارے سادہ ذہین نوجوانوں نے کبھی بھی نہیں سوچا کہ اب تک یہاں ضلع میانوالی میں معاشرتی برائیوں کا خاتمہ نہیں ہو سکا،پسماندہ علاقوں اور طبقوں کی ترقی نہیں کی جاسکی، شراب، جواءاور عصمت فروشی کا ختم جیسی برائیاں ختم نہیں کی جاسکیں،مزدورں اور کسانوں کی حالت بہتر بنانے کےلئے کیا لائح عمل مراتب کیا،بیماروں،معذروں اور بے آسرا لوگوں کی سرپرستی کیوں نہیں کی جا رہی،انصاف کی آسان فراہمی کب ہوگی اور تھانہ کچہری میں رشوت کا خاتمہ کب ہوگا،سود کا بازار کب بند ہوگا،انڈسٹریز، میڈیکل ، لاءاور انجیئنرنگ اداروں کا کب قیام عمل میں لایا جائے گا،صحت کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے کب جدید ٹیکنالوجی لائی جائے گی،روزگار کےلئے کب پلیٹ فارم مہیا کیا جائے گا۔ یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن کےلئے میرے جیسے اور بھی ضلع میانوالی کے غیور نوجوان نسل اپنے سیاسی لیڈروں جوابات چاہتے۔جس مقصد اور مسائل کے حل کے لیے لوگ ووٹ دے کر ان سیاسی لیڈروں کو قومی و صوبائی اسمبلیوںمیں لے کر جاتے وہ مقاصد کب حل ہوں گے؟وہ وقت ضلع میانوالی میں کب آئے گا جب ایک عام شخص کسی سیاسی سے پوچھے گا کہ ہم نے ووٹ دئیے لیکن آپ نے ہمارے جائزہ حقوق کے لیے کتنی بار اسمبلیوں میں اپنی آوازیں بلند کی؟الیکشن جیتنے کے بعد کتنی دفعہ اپنے حلقوں کے لوگوں سے ملے، کتنے غریبوں کو روزگار مہیاکرنے کے لئے جدوجہد کی۔ کیا روزگار صرف برادری سسٹم تک ہی دینا مقصود تھا؟ہر الیکشن میں چند مفاد پرست ان سیاسی لیڈروں سے صرف اور صرف اپنے کام کرواتے اور یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اس دفعہ ہر سیاسی ا پنی اپنی جان کی پڑی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عوام کے سامنے سرخرو ہوں جاﺅں۔کیوںکہ ضلع میانوالی کی غریب عوام کے لئے کی گئی خدمات سب سیاسی لیڈروں کے سامنے آئینے کی طرح نظر آ رہیں۔اس دفعہ برادری سسٹم نہیں چل سکے گا کیونکہ ضلع میانوالی کے نوجوان نسل اب اپنا مستقبل خود چنے گئیں۔اور ایک فیصلہ دیں گے۔لیکن یہاں پر یوتھ کو چاہیے کہ اس دفعہ کے الیکشن میں سوچ اور سمجھ کر اپنا ووٹ کاسٹ کریں کیونکہ وہ اس ووٹ کی طاقت سے ہی اپنا مستقبل روشن بنا سکتے ہیں۔نوجوان نسل اپنے بزرگوں کی اجازت کے بعد ہی ووٹ دیں کیونکہ اس دفعہ یوتھ کو اپنے ہی بزرگوں سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔آخر پر میں صرف اتنا لکھنا چاہوں گا کہ ضلع کی غریب عوام کی صحیح معائنوں میں خدمت کرنے والا ہی سرخرو ہوگا جس کا ماضی بے داغ ہوگا ۔ جس نے اقتدار میں رہ کر بھی غریب عوام کو نہیں بھولنے کی کوشش کی ہوگی۔جس نے اپنی خدمات بغیر کسی لالچ کے ضلع کی ترقی کےلئے وقف کی ہوں گی،جس نے پسماندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو گی اور ضلع کو خوبصورت بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں ہوں گے ۔اور جو مستقبل میں جیت کر اس ضلع کی غریب عوام کے مسائل اور ان کے حل کے لئے حکومت کے ایوانوں میں اپنی آواز بلند کریں گے۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 91331 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.