غریب کے غریب خواب

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ملک و قوم کی ہمت دیکھو کہ اتنے ظلم ہونے کے باوجود بھی ہر وقت انجان واقعوں کو سہانے کی ہمت رکھتے ہیں، پاکستان اور قوم دونوں ہی دنیا میں اپنا مقام کھو چکے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کے چکر میں پاکستانی غریب عوام نیم پاگل ہو چکی ہے۔ منہگائی نے غریب کو سوچنے اور سمجھنے کی طاقت سے محروم کر دیا ہے، کسی بھی بات کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے، روزگار سے رہی سہی برکت اٹھتی جارہی ہے۔ مایوسی اور پریشانیوں نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔ دو وقت کی روٹی اب کمانا بھی غریب کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے۔ پاکستان میں امیر، مزید امیر تر ہوتا جا رہاہے اور غریب ، مزید غریب تر ہوتا جا رہا ہے جیسا حال ہو گیا ہے۔دہشت گردی کے نام پر ملک پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔پاکستان کے ہر صوبہ میں بد امنی، دہشت گردی، قتل وغارت سب عروج پر ہے۔غریب عوام کے پاس صرف دکھ درد کی کہانیاں رہ گئی ہیں۔ملک کی موجودہ صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ لیکن جو بھی حکومت رہی ہے سب نے ہی ہمیشہ غریب کو بطور ایندھن استعمال کیا ہے۔پاکستان کی حکومت وہ ٹرین ہے جس کا ایندھن صرف اور صرف غریب عوام ہیں۔ یہ غریب عوام جتنے تیزی سے جلتے ہیں حکومتی گاڑی اتنی تیزی سے چلتی ہے۔ملک میں معاشی نظام کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے، بڑے بڑے سرمایہ دار جو کہ ملک کی معاشی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کر رہے تھے گیس و بجلی کی بے تحاشہ لوڈشیڈنگ نے ان سرمایہ داروں کو ملک چھوڑنے اور اپنے کاروباروں کو بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ایک ایک کر کے فیکٹریوں کے بند ہونے سے ہزاروں مزدور بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔سرمایہ دار تو کسی اور ملک میں بھی اپنا کاروبار چلا سکتا ہے لیکن جو آدمی بڑی مشکل سے نوکری پر لگا تھا اس کو کون سہارا دے گا؟ وہ گھریلو زندگی کیسے رواں دواں رکھ سکے گا؟بے روزگاری، گیس و بجلی لوڈشیڈنگ، چوری و لوٹ مار ،بھتہ خوری، قتل و غارت جیسے واقعات کے علاوہ غریب عوام اب خود کشی کرنے لگی ہے۔آخر ملک چل کیسے رہ ہے؟اس کی لگام کس کے پاس ہے؟نئے نئے ادارے اور وزارتیں بڑھتی جا رہے ہیں۔ لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں مانند پڑ گئی ہیں۔ تعلیمی میدانوں میں طالبعلموں کی دلچسپی نہیں رہی۔طالبعلموں کو اور استادوں کو ہڑتالوں پر حکومت نے لگا دیا ہے۔کسی ادارے کے طالبعلموں کے نتائج غلط آتے ہیں یا کبھی لیکچراروں کو ریگولر نہیں کیا جاتا۔ہسپتالوں میں مریض سسک سسک کر مر رہے ہیں۔لیکن ڈاکٹر ز موجود ہی نہیں ہوتے ، ڈاکٹر ز موجود کیوں ہوں کیوں کہ حکومت نے ان کو بھی ہڑتالوں پر لگا دیا ہے۔کوئی قانون نہیں، اس ملک میں غریب اور امیر کے لئے الگ الگ قانون ہے۔ملک میں افراتفری اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ہر کوئی غربت کو مٹانے کے لئے کرپشن کرنے پر مجبور ہے۔صبر و شکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت دینی پڑ رہی ہے۔ملک میں رواج بن گیا ہے کہ جب تک رشوت نہ دی جائے کوئی کام نہیں ہوتا۔ملک میں لاقانونیت نے ملکی جڑیں کمزور کر دی ہیں۔عدالتوں پر سے غریب عوام کا اعتبار کم ہوتا جا رہاہے۔انصاف کا حصول اتنا مہنگا ہے کہ غریب اپنے ساتھ ہوتے ظلم کو روکنے کے لئے پولیس اور عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر مر جاتا ہے لیکن تاریخ پر تاریخ جیسا معاملہ ہوتا ہے۔حکومتی ہو یا اپوزیشن ارکان ہر ایک اپنے کام پر توجہ دینے کی بجائے دوسروں کے کاموں میں دخل دینے پر زور اور توجہ دیتا ہے۔ جبکہ اگر نیک نیتی سے کام کیا جائے تو ملک پاکستان میں اتنے معاشی وسائل ہیں کہ ہم خود کو چند سالوں میں اعلیٰ ترین ملک بنا سکتے ہیں۔بے شک رابطے ہر ملک سے رکھیں لیکن اپنے ملک او ر سلامتی پر کسی سے ایسا معاہد ہ نہ کریں جو ملک کی خودمختاری کے لئے خطرہ ہو، اپنی قومی اور ملکی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی جڑیں مضبوط کرنا ہو ں گی۔کہنے کو تو ہم نے کشکول توڑ دیا لیکن ملک کو آگے بڑھانے کے لئے کیا کیا ؟کیوں روز برروز نوجوان طبقہ بے روزگار ہوتا جا رہاہے، کیوں روز برروز ڈکیتی، قتل وغارت اور لاقانونیت ہر طرف پھیلتی جا رہی ہے۔کیوں ناقص بلڈنگ بنائی جا رہی ہیں روز روز عمارتوں کے گرنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔عمارتیں اور سڑکیں جتنی جلدی جلدی بنائی جا رہی ہیںاتنی ہی جلدی سے ٹوٹ پھوٹ اورگر رہی ہیں۔ناقص دوائیوں کا مارکیٹوں میں بھر مار سے مریضوں کا جسم کا ایک حصہ ٹھیک ہوتا ہے کہ ساتھ ہی دوسرا حصہ خراب ہو جاتا ہے۔کیوں ڈاکٹرز سرکاری اداروں میں ٹھیک چیک اپ کرنے کی بجائے پرائیوٹ اداروں میں دلچسپی سے کام کرتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں نے ملکی اثاثوں کو صحیح طور پر استعمال میں لانے کی بجائے،پچھلی حکومتوں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔اگر ایک دن بندہ اپنے گھر پر بھی توجہ نہ دے تو دوسرے دن گھر کے حالات اور گھریلو زندگی خراب لگنے لگتی ہے۔اور یہ تو ملک کی بات ہے تھوڑی سی غفلت سے اربوں روپوں کا خسارہ آ جاتا ہے۔لیکن حکومت پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔خداراہ دوسری چیزوں پر توجہ دینے اور دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنے کی بجائے اپنے اپنے کاموں پر توجہ دیں۔نئے نئے لوگوں کو ملکی بھاگ دوڑ میں شامل کرنے کو ترجیح دی جائے۔تعلیمی معیار پر توجہ دی جائے نہ کہ نئے نئے اداروں بنائیں جائیں۔پہلے سے موجود سرکاری سکولوں اور کالجوں پر توجہ دی جائے۔لوگوں کو بنیادی ضررویات چاہیں نہ کہ ملک کی سیاست چاہیے۔دو وقت کی روٹی اور روزگاری ہی اب ایک غریب کا خواب ہے اس غریب کو کوئی غرض نہیں جو بھی حکمران آئے۔لوگوں کو آسائش دی جائیں نہ کہ موجود ہ بنیادی آسائشوںسے ہی محروم کر دیا جائے۔قانون کی سختی صرف غریب پر ہی نہیں لگائی جائے ۔حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔حکمران تبدیل ہوتے ہتے ہیں۔ اداروں کے سربراہان تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن ملک و قوم کی ترقی کے لئے کسی قسم کی سود بازی نہ کی جائے۔ذاتی مفادات کونظر انداز کر کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ووٹوں سے جیتنا اتنی بات نہیں بلک اصل حقیقت تو لوگوں کے دلوں پر راج کرکے جیتنا ہے۔تھانہ کلچرکو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے پولیس اہلکاروں کی اعلیٰ تربیت، غریب عوام کے ساتھ حسنِ سلوک اہم عمل ہے۔لوگوں کو دردر کے چکر لگانے کی بجائے ایک دفعہ ہی ان کے جائز مقدمات پر عمل کیا جائے۔لوگوںکے مسائل اسمبلیوں میں صر ف پیش ہی نہ کئے جائیں بلکہ ان پر عمل بھی کیا جائے۔اس ملک کے غریب لوگوں کو موجودہ حالات میں حکومت سے یہی عرض ہے کہ خداراہ حکومت جس کی بھی ہو، نہ ہمیں گاڑیوں اور نہ ہی محلوں کی ضرورت ہے،ہمیں دو وقت کی روٹی،بجلی، گیس اور آسان روزگار درکار ہے۔چاہیے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ یا پاکستان تحریک انصاف یا جو بھی آئے ان کو صرف قائداعظم اور علام اقبال کے پاکستان کی سربلندی اور قوم کے وقار کا خیال رکھنا چاہیے۔پاکستان میں جلسے جلوسوں کسی بھی غریب کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دے سکتے۔جتنا خرچہ ان جلسے جلوسوں پر ہوتا ہے اگر اس ہی جگہ کے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیے جائیں تو کوئی شک نہیں کہ غریب عوام میں ان لوگوں کی عزت اور بھی بڑھ جائے۔قائداعظم اور علامہ اقبال کے اصولوں پر چل کر اگر ملک بچ سکتا ہے تو اس دورمیں میں ممکن نہیں۔جہاں ذاتی مفادات کوپہلے اور ملک کو پیچھے رکھا جائے۔غریب لوگوں کے ووٹوں کی بدولت اسمبلیوں میں آنے والے لوگوں کو سوچنا ہو گا کہ اب مزید غریب عوام ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔لوگوں کا حکومت اور حکومتی اداروں اور ارکانوں سے اعتبار اٹھا گیا ہے۔جتنے لیپ ٹاپ طالبعلموں میں تقسیم ہو رہے ہیں اگر ان روپوں سے قائم شدہ سرکاری سکولوں و کالجوں پر توجہ دی جائے تو مزید طالبعلم تعلیم حاصل کر سکتے۔وہ طالبعلم لیپ ٹاپ کا اچارڈالے گا جس کے پاس تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار ہی نہ ہو اور نہ ہی دو وقت کی روٹی کمانے کا ذریعہ ہو۔اگر ان روپوں سے پنجاب میں مزید سرکاری یونی ورسٹیاں قائم کی جاتی یا سرکاری طور پرانڈسٹریاں قائم کی جائیں تو انہیں طالبعلموں کے روشن مستقبل کے لئے بہت اچھا اقدام ہوں گے۔تمام سیاسی لوگوں کوملک کو بچانے کے ساتھ ساتھ ان غریب لوگوں کے مستقبل پر بھی توجہ دینا ہو گی جن کے پاس نہ تو سر چھپانے لے لئے چھت ہے ، نہ کھاناکھانے کے لئے دو وقت کی روٹی، نہ بجلی اور نہ ہی گیس۔یہ سوچنے والی بات ہے کہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر غریب ان آنے والے الیکشن میں کس پر اعتبار کریں اور کس پر نہ کریں۔کیوں کہ غریب کے پاس صرف ووٹ کی طاقت ہی ہے جس سے یہ لوگ اسمبلیوں میں جا سکتے ہیں اور یہ سیاسی لوگ غریب کو اتنا ضرورزندہ رکھیں گے کہ وہ ووٹ ڈال سکے۔ایک غریب کا اس دور میں حکومت اور سیاسی جلسے جلوس کرنے والوں سے یہی سوال ہے کہ مجھ کو دو وقت کی روٹی، بجلی، گیس،پانی کی آسان سہولت کب ملے گی۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کوسیاست کرنے کی بجائے صحیح طور پرلوگوں پر توجہ دینے کی جرات دے۔ آمین
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 91343 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.