اِبلاغیات کا اسلامی تصور

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

اِبلاغیات اردو زبان کی جدید اصطلا حات میں سے ہے جس کا مفہوم یہ ہے، لوگوں تک خبریں، باتیں اور معلومات وغیرہ پہنچانا۔ یہ انگریزی زبان کے لفظ (Communications)کا اردو ترجمہ ہے ۔ یہ لفظ اِبلاغ سے بنائی ہوئی اصطلاح ہے جو اصل میں عربی کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے پہنچانا۔ عربی زبان کا لفظ تبلیغ بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اِبلاغ اور تبلیغ دونوں الفاظ اردو میں بھی اسی معنی میں مستعمل ہیں اسی سے اردو میں ذرائع ابلاغ کی ترکیب بنی ہے جوMeans of Communicationکے معنی میں ہے۔ قدیم زمانے میں بڑے ذرائع دو تھے، زبان اور قلم ۔ لوگ زبان سے بول کر دوسروں تک معلومات اور خبریں وغیرہ پہنچاتے تھے یا لکھ کر زبانی روایت کا رواج زیادہ تھا کیونکہ لکھنا بہت کم لوگوں کو آتا تھا۔ سائنسی ایجادات کی وجہ سے عصر حاضر میں بے شمار ذرائع ابلاغ وجود میں آگئے ہیں جو نہایت موثر اور وسعت والے ہیں۔ جدید ذرائع ابلاغ میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اول الذکر کے تحت کتابیں، رسالے، اخبارات، پوسٹر وغیرہ شامل ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں ریڈیو اور ٹیلی ویثرن کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ریڈیو پر ملکی و غیر ملکی بہت سے سٹیشن میسر ہیں۔ اسی طرح ٹیلی ویثرن پر بھی کئی ملکی و مقامی چینلز اور ڈش اور کیبل کے ذریعے بہت سے غیر ملکی چینل دستیاب ہیں انہی ذرائع میں اب انٹرنیٹ کا ذریعہ بھی شامل ہو گیا ہے جس کا رواج آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔اِبلاغیات کے ضمن میں ہمیں اسلام سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے اس میں لوگوں تک دین حق یعنی اسلام کا پیغام پہنچانا امت مسلمہ پر فرض کفایہ ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے۔ترجمہ:اور چاہیے کہ تم سے ایک جماعت ہو جو بھلائی کی طرف بلاتے ہوں اور نیکی کی تلقین کرتے ہوں اور برائی سے منع کرتے ہوں اور وہی فلاح پانے والے ہوں گے(آل عمران)۔ اس میں غیر مسلموں کو دعوتِ اسلام دینا اور مسلم معاشرے میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنا دونوں کا م شامل ہیں۔ یہ کام لوگ، بالخصوص علمائے کرام اور حکومت دونوں کو انجام دینا چاہیے اور اس کے لئے تمام دستیاب ذرائع ابلاغ استعمال کرنے چاہیں۔ تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ دین حق کی دعوت دینے اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا بہترین طریقہ سیرت و کردار کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا ہے لوگ وعظ و نصیحت اور باتوں سے اتنا متاثر نہیں ہوتے جتنا عملی نمونے سے ہوتے ہیں۔اہل علم و دانش پر لازم ہے کہ لوگوں تک بھلی اور نفع بخش باتیں، خبریں اور معلومات پہنچائیں تاکہ لوگوں کا علم بڑھے، ان کی مفید معلومات میں اضافہ ہو اور وہ حالات سے آگاہ رہیں۔ اس سے ان کی عقل و شعور میں اضافہ ہوگا۔اسلام نے طلب علم و آگہی کی سخت تاکید کی ہے،علم کی روشنی پھیلانے اور جہالت کی تاریکی کو دور کرنے کے لئے تمام دستیاب ذرائع ابلاغ استعمال کرنے چاہئیں۔ہم اس پیغمبر اعظمﷺ کی امت ہیں جنہوں نے تئیس سال کے مختصر عرصے میں تبلیغ و ترتیب سے ہزاروں لوگوں کو نفوس قدسیہ بنا دیا۔ آپﷺ کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے علماءاور دنشواروں کو چاہیے کہ تمام ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لا کر لوگوں کی اخلاقی تربیت کریں اور اس مقصد کے لئے موثر ترین طریقے استعمال کریں۔لوگوں میں علمی باتیں اور حقائق پہنچائے جائیں اور اوھام و توہمات، خرافات افسانوی وطلسماتی باتیں، بے بنیاد باتیں، بے علمی و بے شعوری کی باتیں جاہلانہ رسوم و عادات اور طور طریقوں سے متعلق باتیں، جھوٹے قصے کہانیاں وغیرہ نہ بتائی جائیں۔ان کو حقائق سے آگاہ کرناچاہیے تاکہ ان کے اندر صحیح شعور پیدا ہو اور اس شعور کے ساتھ وہ زندگی کے لئے صحیح جدوجہد کریں۔غیر علمی اور غیر حقیقی باتوں سے ان میں جدوجہد کا جذبہ سرد پڑجائے گا اور ان کی جہالت اور پسماندگی میں اضافہ ہوگا۔لوگوں تک تحقیق شدہ اور مصدقہ خبریں پہنچانی چاہئیں تاکہ مختلف امور و مسائل اور شخصیات کے بارے میں وہ صحیح رائے قائم کرسکیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی میں کسی قوم کوضرر پہنچا بیٹھو۔ پھر تم اپنے کئے پر پچھتانے لگو۔(الحجرات)۔ اِبلاغیات کے ضمن میں اسلام کا اہم ترین ضابطہ یہ ہے کہ فحش کی اشاعت نہ کی جائے۔معاشرے میں ایسی چیزوں کا سدباب کرناچاہیے جو لوگوں کو بدکاری پر اکسائیں۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کوئی ایسی چیز پیش کرے جو ہیجان انگیز ہو اور جس سے لوگوں کی جنسی خواہش قابو سے باہر ہو جائے۔ایسی چیزلوگوں میں یقینا مقبول ہو گی اور اس کے پیش کرنے والے کو اس سے بہت مالی فائد ہ پہنچے گا لیکن ایسا کرنا سخت گناہ کا کام ہے۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اخلاق سوز باتیں کریں یا جنسی جرائم کی ایسے دلکش انداز میں رپورٹنگ کریں کہ لوگوں میں اس کی رغبت پیدا ہو۔ ایسا کرنا فحش اور بے حیائی کو پھیلانا ہے۔ جس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دنیا اورآخرت دونوں جہانوں میں درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے جو اشاعت فحش کو پسند کرتے ہیں اور اشاعت فحش کا ارتکاب کرنے والے تو اور بھی اس عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔یقینا اشاعت فحش سے افراد اور معاشرے کو شدید نقصانات پہنچتے ہیں، تبھی اس گناہ پر ایسی وعید سنائی گئی ہے۔ انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اس کا دھیان جس کام کی طرف کر دو اس طرف لگا رہے گا باقی سب جاندار اپنی اپنی جبلتوں کے مطابق زندگی گزارتے اور افعال و اعمال کرتے ہیں لیکن انسان کی کوئی جبلت نہیں۔ تعلیم و تربیت اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے اسے جس رنگ اور صورت میں ڈھالنا چاہو ڈھال لو اس کا ذہن جس طرح کا بنا نا چاہو بنا لو۔نفسیاتی بھی اور بقائے نسل کے لئے بھی لیکن اس عمل میں کثرت اس کے لئے تباہ کن ہے۔معاشرے میں بے حیائی پھیلنے سے لوگوں کا دھیان جنسی عمل کی طرف بے حد بڑھ جائے گا جس سے ان کی صحت بگڑے گی، اعصاب کمزور ہوں گے اور وہ دیگر کام کاج کے قابل نہ رہیں گے۔بے حیائی کے پھیلنے سے خاندانی نظام کو سخت نقصان پہنچتا ہے، طلاق و خلع کے واقعات بکثرت ہونے لگتے ہیں اور خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں بچوں کی تربیت کے مسائل الگ سے پیدا ہوتے ہیں اشاعت فحش لوگوں کے مابین جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے اور نوبت قتل تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ابلاغ میں مذاق اڑانے کے پیچھے اپنی بڑائی و برتری جتانے اور بالخصوص دوسرے کی تحقیر کرنے کا جذبہ کا فرما ہوتا ہے اور مسلمانوں پر یہ دونوں برائیاں حرام ہیں۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 91054 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.