ہمیں قائد کا پاکستان چاہیئے

ایم کیو ایم 8نومبر کو ایک ریفرنڈم کروا رہی ہے کہ عوام قائد اعظم کا پاکستان چاہتے ہیں یا طالبان کا پاکستان؟سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ قائد پاکستان کو کس طرح دیکھنا چاہتے تھے،میرے قائد معاملہ فہم اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والے انساں تھے اگر انہیں پاکستان کے لئے مزید کچھ وقت مل جاتا تو آج شہر قائد میں خون اتنا سستا نہ ہوتا،بلوچستان میں لوگ لاپتہ نہ ہوتے،سندھ میں وڈیروں سے چھٹکارا مل چکا ہوتا،خیبر پختونخواہ میں امن و امان قائم ہو چکا ہوتا ،شمالی علاقہ جات میں خون کی ہولی نہ کھیلی جا رہی ہوتی اور میرا کشمیر آج آزاد ہو چکا ہوتا ،ان کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا اور آنے والے حکمرانوں نے پاکستان کو لوٹنے کی کوئی کسرنہ چھوڑی۔کچھ دانشورکہتے ہیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے ،وہ مذہبی انساں نہیں تھے بلکہ وہ پاکستان کو بھی سیکولر بنانا چاہتے تھے مجھے ان دانشوروں سے اختلاف ہے بلکہ ان کی خدمت میں یہی عرض کروں گا کہ انہیں قائد اعظم کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہئے ،2نومبر1940ءکو علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی میں طلباءسے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کہا”اسلام انصاف،مساوات،معقولیت اور رواداری کا حامل ہے بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں ان کے ساتھ فیاضی کو روا رکھتا ہے “،میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ قائد اعظم سیکولر تھے یا نہیں،بلکہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ پاکستان کو کس طرح دیکھنا چاہتے تھے۔کیاوہ واقعی پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے ؟تو اس کا جواب انکار میں ہو گا، 13جولائی 1948ءکو اسلامیہ کالج پشاور میںطلباءسے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میںانہوں نے کہا ”اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں“۔

دوسری طرف ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ طالبان کون ہیں ؟کہاں سے آئے ہیں ؟کس کی ایجاد ہیں ؟اور کیا چاہتے ہیں؟جب سوویت یونین کا طوطی پوری دنیا میں بولتا تھاوہ بدمست ہاتھی کی طرح طاقت کے نشے میں مدہوش جب نہتے افغانوں پر برسا، تو افغانستان کے باسیوں نے امریکہ اور پاکستان کی مدد سے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں بھاگنے پر ہی نہیں بلکہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر مجبور کر دیا ،اس وقت افغانستان میں جو حکومت بنی وہ انہی افغانوں کی حکومت تھی جنہیں دنیا طالبان کے نام سے جانتی ہے ،طالبان کی نشوونما میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔

بنیادی طور پر طالبان دو اہم گروپس میں ہیں جنہیں ہم تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان کے نام سے جانتے ہیں ،تحریک طالبان افغانستان کا پاکستانی طالبان کے ساتھ کوئی لنک نہیں ہے دونوں علیحدہ تحریکیں ہیں ،دونوں میں ایک چیز کی مماثلت ہے کہ دونوں کی پرورش نام نہاد امن کے ٹھیکیدار امریکہ نے کی تھی لیکن دونوں جماعتوں کا منشور بھی ایک دوسرے کے متضاد ہے اگر میں یہ کہوں کہ تحریک طالبان افغانستان ایک مذہبی انتہا پسند لوگوں پر مشتمل ہے تو تحریک طالبان پاکستان ایک دہشت گردوں کا ٹولہ ہے اور اس ٹولے میں 35سے زائد گروہ شامل ہیں جن میں کوئی گروپ بھی ایک دوسرے کی اجارہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ،اور ان سبھی گروپس کو سی۔آئی۔اے،را،بلیک واٹر،خاد،ڈائن کارپ اور موساد کی بالواسطہ معانت بھی حاصل ہے ،تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم طالبان کا یا امریکہ کا پاکستان نہیں چاہتے جو دہشت گردی کو فروغ دے، بلکہ ہمیں قائد کا پاکستان چاہئے جس میں ہم اپنی زندگیاں اسلام کے اصولوں پر آزادانہ طور پر گزار سکیں،ہمیں ایک ایسا ملک چاہئے جس میں بھتہ خوری،ٹارگنگ کلنگ،وڈیرہ شاہی،ظلم و بربریت،اور ناانصافی کاراج نہ ہو بلکہ امن و امان کی فضا قائم ہو
خدا کرے مرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ ءزوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے،وہ کھلا رہے صدیوں
یہاںخزاں کوگزرنے کی بھی مجال نہ ہو
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 187972 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.