عزت مآب عتیق خان، باغی نوجوان اب پتھراﺅ کرنے والے ہیں

صدر مسلم کانفرنس وسابق وزیر اعظم عتیق احمد خان 1955ءمیں غازی آباد دھیرکوٹ میں پیدا ہوئے ،بزرگ سیاستدان و سپریم ہیڈ مسلم کانفرنس قیوم خان کے عروج و زوال کے دور کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی،سعودیہ کی مدینہ یونیورسٹی سے 2سالہ عربی کورس بھی مکمل کیا،اردو ،انگریزی اور عربی زبان میں ملکی و غیر ملکی اخبارات میں مذہبی،سیاسی ،سماجی و دیگر موضوعات پر کالم لکھتے رہے ، ستمبر 2006ءمیں او آئی سی کے 57ممبر ممالک کی سالانہ کانفرنس میں جو نیویارک میں ہوئی کشمیر ایشو کے حوالے سے شرکت کی ،دنیا کے نازک معاملات جن میں یواین او ،او آئی سی ،مشرق وسطیٰ ،یورپ،امریکہ ،ایشیا، افریقہ اور دیگر ایشوز پر جب بلائے جاتے ہیں تو اپنی خدمات و ذہانت سے دنیا کو آگاہ کرتے ہیں ،پانچ مرتبہ آزاد کشمیر کی اسمبلی سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ،اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران آزاد کشمیر میں ترقی کیلئے بین الاقوامی این جی اوز کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ صنعتی شعبہ میں پبلک پرائیویٹ اکنامک پارٹنر شپ کو متعارف کروانے کا سہرا بھی خود کو ٹھہرا تے ہیں ۔گلوبل وارمنگ،ماحولیاتی ترقی اور'' سرسبز و ہنر مند کشمیر '' کے پیغام کو عوام میں عام کرنے کیلئے کام کیا ، وزارت عظمیٰ کے دوران عتیق خان سول ملٹری ڈیموکریسی کی حمایت کرتے رہے ہیں انہوں نے نے کشمیر بنک،کشمیر ہائی وے اتھارٹی،کشمیر کلچرل اکیڈمی،سوشل ری ہیبلی ٹیشن ٹرسٹ،کشمیر ٹورازم ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ،سمال ڈیم اتھارٹی و دیگر نئے محکمے تخلیق دیئے ،مخالفین کا ان کے نئے تخلیق کیے جانے والے محکموں پر بھی سخت اختلاف رہا ہے اور یہ باتیں سامنے آتی رہیں کہ اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے حکومتی فنڈ کے بے دریغ استعمال کیلئے یہ محکمے تخلیق کیے گئے ،اپنے 2 سال 5 ماہ کے اپنے پہلے دور اقتدارکے دوران عتیق خان نے 121دن غیر ملکی دوروں پر،151دن مظفر آباد اور 615دن آزاد کشمیر و پاکستان کے دیگر شہروں میں گزارے ، دوسرا دور اقتدار بھی کم و بیش 1سال تک رہا۔

ضلع باغ کی تحصیل دھیر کوٹ کے عباسی خا ندان سے تعلق رکھنے تعلق رکھنے والے عتیق خان نے پہلے اپنے والد محترم بزرگ سیاستدان قیوم خان کے اقتداراور بعد میں اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے سخت جدوجہد کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے ، 1388مربع کلو میٹر پر مشتمل باغ کو 1988ءمیں ضلع پونچھ سے علیحدہ کر کہ ایک نئے ضلع کا درجہ دیا تھا ،ضلع باغ کے شمال کی جانب دارلحکومت مظفر آباد،جنوب کی جانب پونچھ ہے ۔مشرق کی جانب بھارتی مقبوضہ کشمیر کا ضلع پونچھ اور ایبٹ آباد اور شمالی وزیرستان کے علاقے ہیں ۔باغ کو مظفر آباد سے ملانے کیلئے 2سڑکیں سدھن گلی سے مظفر آباد 80کلومیٹر جبکہ کوہالہ سے مظفر آباد 97کلو میٹر ہے ،پونچھ ڈویثرنل ہیڈ کواٹر سے باغ کا فاصلہ 46کلو میٹر ہے ۔5لاکھ سے زائد آبادی والے اس ضلع کی تین تحصیلیں باغ ،ہاڑی گہل اور دھیر کوٹ ہیں۔باغ سے تعلق رکھنے والے نامور سیاستدانوں راجہ ممتاز حسین راٹھور،عبدالقیوم خان کی عملی سیاست کے بعد اب اس وقت جو نامی سیاستدان موجود ہیںجو الیکشن کا حصہ بنتے ہیں ان میں عتیق احمد خان مسلم کانفرنس،رشید ترابی جماعت اسلامی،قمر الزمان پیپلز پارٹی ،میر اکبر خان مسلم کانفرنس ،کرنل (ر)نسیم ،راجہ یسیٰن ، چوہدری یٰسین ،راجہ آصف علی ،سرد ار طاہر،امجد یوسف،و دیگر شامل ہیں ۔

آزاد کشمیر کی تاریخ گواہ رہی ہے کہ یہاں جو بھی عوام کے وﺅٹوں سے حکمران بنا اس نے اپنے علاقے کو جہاں سے اس نے اسمبلی ممبرکی سیٹ جیتی اس حلقے کواسمبلی اعلیٰ مقام ملنے کے بعد یکسر نظر انداز کیا،کچھ ایسا ہی حال صدر مسلم کانفرنس و سابق وزیر اعظم عتیق خان کے ساتھ بھی ہے ، گزشتہ ہفتے ایک پورا دن عتیق خان کے اس حلقے ایل اے 13باغ 1 میں ہی گزرا جہاں سے وہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ،اس حلقے میں ان کے مد مقابل میجر (ر)لطیف خلیق کا تعلق جماعت اسلامی جبکہ راجہ آصف علی کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا ، 12ہزار کے قریب وﺅٹ حاصل کرنے والے پیپلز پارٹی کے راجہ آصف علی کو حکومتی مشیر بنادیا گیا ہے آٹھ یونین کونسلز جن میں رنگلہ،ملوٹ،دھیرکوٹ،ہل سرنگ، چوالا، سالہیاں، مکھیالا،چمیاٹی، و دیگر اہم مقامات شامل ہیں میں سخت مقابلے کے بعد عتیق احمد خان ،جماعت اسلامی کے امیدوارمیجر (ر) لطیف خلیق کو 4ہزار کے قریب وﺅٹوں کی برتری سے شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ، عتیق خان نے 21ہزار ،میجر (ر)لطیف خلیق جو جماعت اسلامی و ن لیگ کے مشترکہ امیدوار تھے انہوں نے 17ہزار وﺅٹ حاصل کیے۔ گزشتہ اسمبلی میں اکیلی راج کرنے والی مسلم کانفرنس عتیق خان کی سیاہ سیاست کاریوں کی وجہ سے کل چار نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی الیکشن میں مجموعی طور پر مسلم کانفرنس کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ہم نے اپنے دورے کے دوران غازی آباد،نیلہ بٹ، چڑالہ ،سوہاوہ،سیسر،پنیالی و دیگر مقامات کا تفصیلی دورہ کیا ، غازی آباد سے چڑالہ کا راستہ 10کلومیٹر سے زائد نہیں ہو گا لیکن یہ سفر ہمیں عشروں سے مرمت نہ کیے جانے کی وجہ سے 1گھنٹہ سے زائد میں طے کرنا پڑا ،اس سڑک کی ھالت اس حد تک خراب ہے کہ خراب موسم میں خد انخواستہ کسی دن کوئی بڑا حا دثہ ہو سکتا ہے۔ چڑالہ سے سیسر و سوہاوہ کیلئے جانے والی سڑکوں کی حالت دیکھ کر ان لوگوں پر ترس آتا ہے جویہاں روزانہ سفر کرتے ہیں ، چڑالہ سے ساہلیاں اور ہل جانے والی سڑکوںکی حالت بھی رو دینے والی ہے ،دھیرکوٹ سے سانگھڑ اور چمیاٹی جانے والی سڑکیں بھی اپنی حالت کو رو رہی ہیں ، سوہاوہ میں تو سول سوسائیٹی کے نمائندگان نے حکومتی مدد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کی مرمت شروع کر رکھی تھی 4کلوٹ تو ہم نے خود ان لوگوں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے دیکھے ہیں ،سوہاوہ میں مسلم کانفرنس کے بزرگ کارکن و رہنماءعبدالخالق سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ماضی سے اب تک کے سیاسی و حکومتی حالات کا رونا رویا اور کسی بھی قسم کے ترقیاتی کام نہ ہونے کا ذمہ دار مسلم کانفرنس سمیت سب کو ٹھہرایا ،وہاں یہ بھی علم ہواکہ گلباز خان پیپلز پارٹی سوہاوہ کمیٹی کے انچارج کو 3لاکھ بیس ہزار روپے ترقیاتی بجٹ میں سے ایم ایل اے فنڈ میں سے دیئے گئے لیکن ان میں سے ایک روپیہ بھی علاقے کیلئے خرچ نہ ہو سکا ، سوہاوہ سے واپسی پر بنیادی مرکز صحت کا دورہ بھی کیا،مرکز صحت کی عمارت جو کسی غیر ملکی ادارے نے بہت خوبصورتی سے بنائی تھی کے باہر سید شجاہ احمد گردیزی ،پی ایچ ڈی ڈاکٹر یاسرعباسی و دیگر معززین جمع تھے نے مزار شریف و دیگر عوامل پر تفصیلی گفتگو کی ،مرکز صحت کے دورے کے دوران ایکاہم انکشاف سامنے آیا کہ اس مرکز صحت میں لیڈی ڈاکٹر بشریٰ رحمان تعینات ہے لیکن آج تک ان کو یہاں کسی نے حاضر نہیں دیکھا جبکہ ان کی تنخواہ ہر ماہ ان کے اکاﺅنٹ میں منتقل کر دی جاتی ہے اس کی تصدیق بہتر طور پر متعلقہ محکمہ کر سکتا ہے ۔

دورے کے دوران سول سوسائیٹی کے نمائندگان نے ہر جگہ خوش آمدید کہا ،علاقے کے مسائل،سیاست و معاشرت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ،عتیق احمد خان کے حوالے سے جب فورم میں موجود لوگوں سے پوچھا کہ وہ اس حلقہ سے منتخب ہوئے تھے اس کے بعد وہ اس عوام کے پاس کتنی مرتبہ تشریف لائے ہیں تو یہی جواب ملا کہ سننے میں آیا ہے کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اس لیے وہ سڑک کے راست باغ تشریف نہیں لاتے کیونکہ سڑکوں کی حالت آپ کے سامنے ہے ،جب انہوں نے آنا ہو تا ہے ہیلی کاپٹر سے آتے ہیں اور ان کی رہائش گاہ پر لوگ ان سے ملنے جاتے ہیں ،جبکہ مسلم کانفرنس کی زیادہ بھاگ دوڑ سنبھالنے والے عتیق خان کے فرزند عثمان عتیق کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کبھی بھی چڑالہ ، سوہاوہ یا دیگر یونین کونسلز کی طرف آنا گوارا نہیں کرتے ۔مسلم کانفرنس کی قیادت کے اس حلقہ میں لوگوں میں نہ آنے کی وجہ یہ بھی معلوم ہوئی کہ وہ اس حلقہ کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں ان کے نزدیک یہاں سب ان کے مزارعے ہیں جو صرف ان کی خدمت مدارت کیلئے تخلیق کیے گئے ہیں ،یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ عرصہ پہلے تک تو ان کے سوا کسی اور کو وﺅٹ دینا گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں میجر (ر) لطیف خلیق جیسے لوگوں نے اپنے بہتر کام کی بنیاد پر عوام میں جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دی ہیں جو مسلم کانفرنس کی اجارہ داری کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں ،چڑالہ بوائز انٹر میڈیٹ گورنمنٹ کالج کی عمارت کو دیکھتے ہوئے خود بھی شرم محسوس ہو رہی تھی ،زلزلہ کے بعد غیر ملکی اداروں کے فنڈ سے تعمیر ہونے والا یہ منصوبہ جس سست رفتاری سے شروع ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صدیوں تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو گا ،دو مزدور پتھر توڑ رہے ہیں اور جو محکمہ اس کو تعمیر کر رہا ہے اس کا نمائندہ نہ ہمیں وہاں تلاش کرنے کے باوجود ملا اور نہ وہاں کی سول سوسائیٹی کو ملتا ہے ،کالج کی عمارت کی چھت ادھوری ہے بارش ہونے کی صورت میں پانی کلاسز کے اندر آ جاتا ہے،جبکہ اس منصوبے کا 70فیصد سے زائد کام ابھی 7سال گزرنے کے بعد بھی باقی ہے اور 150سے زائد کالج کے طلبہ کو بارش کی صورت میں گھروں کو لوٹ جانا پڑتا ہے ،ادارے کے پرنسپل ڈاکٹرمحمد انور و دیگر سٹاف کے مطابق ان کو شدید مسائل کا سامنا ہے کوئی بھی حکومتی اہلکار ان کے پاس ایسا نہیں آتا جو ان مسائل کو دور کرنے کیلئے سنجیدہ ہو ۔کالج انتظامیہ نے ادارہ کے معاملات چلانے کیلئے ساتھ واقع مڈل سکول سے پرنسل آفس( کھوکھے)کی جگہ ادھارپے لے رکھی ہے ۔انٹر کالج کے ساتھ 9thاور 10thکی کلاسز بھی چلانا پڑتی ہیں اس لیے ٹوٹی پھوٹی عمارت میں بچوں کو پڑھانے کیلئے بٹھا دیا جاتا ہے ۔غازی آباد کے قریب موجود بنیادی مرکز صحت کی عمارت تو غیر ملکی اداروں نے اچھی بنائی ہے لیکن اس کے اندر نہ متعلقہ سٹاف ملتا ہے نہ ہی ادویات ،مریضوں کو علاج کیلئے باغ یا مظفر آباد تک جانا پڑتا ہے ۔اس دورے کے دوران حلقہ بھر میں جہاں بھی جاناہواجس بھی جماعت کا ورکر ملا اس نے عتیق خان کوتمام خرابیوں کے ذمہ دار ٹھہرایا لوگوں کا شکوہ جو جائز بھی معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بزرگ سیاستدان قیوم خان جو ساری زندگی اقتدار میں رہے ،ان کے بعد ان کا بیٹا بھی دو عشروں سے سیاست میں بھی ہے اور اقتدار میں بھی رہا ،یا کم سے کم حلقہ کا ایم ایل اے ضرور رہا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس علاقے کو دیکھنا تو دور لوگوں کے درمیان آنا بھی ان لوگوں کو گوارہ نہیں ہے ۔

باغ میں جہاں نامور سیاستدانوں نے جنم لیا وہاں اس اہم ترین مقام پر عتیق خان جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کو سیاست بھی میسر آئی اور اقتدار بھی ملا لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ وہ عوام کو سہولیات دینے میں اور مسائل کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں ، گو کہ اپنے سیاسی کارکنوں کی جائز و ناجائز بہت سی ایڈجسٹ منٹس انہوں نے کیں ہیں۔ عتیق خان اور ان کے بیٹے کی بین الاقوامی سیاست ،دوروں اور معاملات پر توجہ دینے کی اہمیت سے انکار نہیں،یہ بھی سب مانتے ہیں کہ عتیق خان صرف اپنے حلقہ یا ضلع کے سیاست کار نہیں ہیں بلکہ آزاد کشمیر کے سیاست کار ہیں جس کا واضح ثبوت انہوں نے بیٹے کو مظفر آباد شہر جیسی مشکل سیٹ سے ضمنی الیکشن سے الیکشن لڑ وا کر دے دیا ، انہیں محسوس کر لینا چاہیے کہ پورے کشمیر کی سیاست کے چمپیئن بننے کے شوق میں اپنے گھر سے بے دخلی ہو جائے تو بندہ کہیں کا نہیں رہتا ، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ عتیق خان اور ان کافرزند اگر اب بھی اپنے حلقے کے لوگوں کے پاس نہیں جاتے ،ان کے مسائل کوعملی طور پر کم نہیں کرتے تو وہ وقت دور نظر نہیں کہ انہیں گزشتہ الیکشن سے بھی بد تر نتائج کا سامنا کرنا پڑ ے کیونکہ دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ، اب لوگوں کو عتیق خان یا عثمان عتیق کے پڑھے لکھے ہونے سے مطلب نہیں نہ ہی ان کو یہ مطلب ہے کہ ہمارا کوئی اپنا وزارت عظمیٰ میں بیٹھا ہو اب لوگوں کو کارکردگی چاہیے کارکردگی، عوام دن بدن سمجھدار ہوتی جا رہی ہے ،عتیق خان اور ان کے خا ندان کیلئے بزرگی اور حد سے زیادہ احترام کا وقت گزر چکا ہے ،وہاں کے لوگوں کو علم ہو چکا ہے کہ عباسی ہونے کے نام پر الیکشن کے دوران تو یہ وﺅٹ حاصل کر لیتے ہیں لیکن ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک یہ خود کو عباسی تصور بھی نہیں کرتے ، اب اپنے لوگ سوالات بھی پوچھتے ہیں اور جواب بھی مانگتے ہیں ۔جیسے کہ غربی باغ سے تعلق رکھنے والے ایک گریجویٹ نوجوان نے مجھے کہا کہ سر میرا تو اب تک سیاست سے دور کا تعلق بھی نہیں رہا ہے لیکن اب سڑکوں،ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے حالات اس نہج پے پہنچ چکے ہیں کہ ہمارا دل کرتا ہے کہ ان منتخب نمائیندوں کوایک خاص دعوت پر بلایا جائے اور جب یہ نیچے سے گزر رہے ہوں تو ان کی گاڑیوں پر اونچائی سے پتھراﺅ کیا جائے تب ان کے دماغ ٹھکانے آ جائیں اور ان کو احساس ہو کہ کہ باغی(باغ والے) نوجوان جاگ چکے ہیں، عتیق خان سے یہی التماس کرنا ہے کہ عزت مآب آپ ویسے بھی آزاد کشمیر میں ن لیگ کو آنے سے نہ روک سکے پھر مسلم کانفرنس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر وا دیئے، ایک ناکام سیاستدان اور ناکام حکمران اور ناکام مذہبی پیشوا کے طور پر سامنے آ نے کے ساتھ سنگین کرپشن جیسے الزامات کا آپ کو سامنا ہے ۔ آج کل آزاد کشمیر بھر میں اپنی پارٹی کی ساکھ کو بہتر کرنے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ، اس لیے مزید ہوش مندی سے کام لیں اپنے گھر(حلقہ) میں جائیں لوگوں سے معافی مانگیں اور عوامی پتھراﺅ سے بچنے کیلئے مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دیں۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59888 views Columnist/Writer.. View More