سورۂ اعراف کا پیغام انسانیت کے نام

ان الذین اتقوا ذا مسھم طٰئِفٌ من الشیطٰن تذکروا فاذا ھم مبصرون O واخوانھم یمدونھم فی الغی ثم لایقصرونO
( سورۃالاعراف آیت نمبر ٢٠١،٢٠٢ )
ترجمہئ کنزالایمان :- بے شک وہ جو ڈر والے ہیں جب انھیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہوشیار ہوجاتے ہیں اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں شیطان انھیں گمراہی میں کھینچتے ہیں پھر کمی نہیں کرتے ۔

سیاق و سباق کے حوالے سے مفسرین علماء نے آیات بالا میں سے ابتدائی ٢ آیتوں کی تشریح کچھ یوں فرمائی ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں پرہیز گار اور بدکار پرہیز گاروں کا یہ حال ہے کہ ان نیک نہاد اور پرہیز گاروں کو کوئی شیطانی وسوسہ راہ حق سے بھٹکانے لگتا ہے اور اپنے دام فریب میں گرفتار کرنے لگے تو فورا ًانکا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے اور وہ ذکر الہی میں مشغول ہوجاتے ہیں اور توبہ و استغفار شروع کردیتے ہیں جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شکوک و شبہات کی گرد چھٹ جاتی ہے۔ غفلت کی تاریکی کافور ہوجاتی ہے اور شیطان کا ہمرنگ زمین صاف دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ خطرے کے اس مقام سے خیریت سے گذرجاتے ہیں۔ جبکہ لاپرواہ بدکار فساق و فجار و کفار شیطان کے بھائی ہیں شیطان انھیں ہر طرف سے گناہوں میں کھینچے گھسیٹے پھرتے ہیں پھر وہ گمراہ کرنے بہکانے میں کمی نہیں کرتے۔ جبکہ آیت نمبر ٢٠٣ مفسرین نے دو تفسیریں ذکر فرمائی ہیں پہلی تفسیر یہ کہ جب چند روز کیلئے آیات قرآنیہ کے نزول کا سلسلہ رکتتااور نبی مکرم ؐ لوگوں کو کوئی آیت نہیں سناتے تو کفار معاذ اللہ یہ کہتے کہ آپ خاموش کیوں ہیں اپنی طرف سے آیتیں بناکر پیش کیوں نہیں کرتے ۔

اے حبیب ؐ آپ انکے جواب میں تحمل فرماتے ہوئے فرمادیجئیے کہ میں وحی الہی کا متبع ہوں جس آیت کی وحی ہوتی ہے وہ لوگوں کو سنادیتا ہوں ، پہنچادیتا ہوں ، سمجھادیتا ہوں بے عقلو! جتنی آیات تمھیں سنا چکا بتاچکا یہ سب تمھارے لئے تمھارے رب کی طرف سے دل کے چراغ ، دل کی روشنیاں ہیں ۔ اور خاص مومنوں کیلئے ہر طرح کی ھدایت بھی ہیں اور اللہ کی رحمت بھی۔

دوسری تفسیر یہ کہ اے محبوب ؐ کفار بداطوار مذاق و دل لگی آپ ؐ سے معجزات مانگتے رہتے ہیں کہ ہمارے مردوں کو زندہ کرکے اپنی نبوت کی گواہی دلوادو بلکہ پہاڑ سونے کے کرو وغیرہ اور جب آپ انکی یہ فرمائیش ، مطالبات پورے نہیں کرتے تو ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ؐ اپنے رب سے دعا کرکے یہ معجزات کیوں نہیں لاتے ۔ آپ تو بقول آپکے مقبول الدعاء ہو اور رب آپ کی مانتا ہے فرمادو اے محبوب ؐ کہ میں اللہ کے فضل اسکی عطا سے یہ سب کچھ کرسکتا ہوںمگرکرتاوہی ہوں دکھاتا وہ ہی معجزہ ہوں کہ جسکے دکھانے کی مجھے بذریعہ وحی جلی یا وحی خفی میرے رب کی طرف سے اجازت ملی ہو۔ اے بے وقوفوا جتنے معجزے میں نے تم کو دکھائے یہ ہی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں مومنوں کے لئے ھدایت خاصہ بھی ہیں اور رب تعالیٰ کی رحمت۔

مفسرین نے سورہ اعراف کی آیت نمبر ٢٠٤ کے شان نزول میں کئی اقوال بیان فرمائے ہیں جیسا کہ روح المعانی و سنن بیہقی میں ہے کہ ایک بار حضور ؐ نے صحابہ کرام کو باجماعت نماز پڑھائی ایک انصاری نے حضور ؐ کے پیچھے کچھ قراء ت کی تب ہی یہ آیت کریمہ '' واذا قری القران '' نازل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو حضور ؐ کے پیچھے نماز میں قراء ۃ سے یکدم منع فرمادیا گیا۔

نوٹ : خیال رہے کہ شروع اسلام میں نماز میں دنیاوی باتیں بھی کی جاتی تھیں اور امام کے پیچھے قراء ۃ بھی پھر '' وقوموا ﷲ قانتین '' سے نماز میں کلام یعنی باتیں کرنا منسوخ ہوا ( مسلم ) اور پھر اس آیت سے نماز میں امام کے پیچھے قراء ۃ منسوخ ہوئی جیسا کہ ابھی شان نزول سے معلوم ہوا ۔

اس سلسلے میں ایک روایت ابن جریر رضی اللہ عنہ سے بھی ہے کہ آپ نے لوگوں کو نماز باجماعت پڑھائی تو بعض لوگوں نے آپکے پیچھے قراء ۃ قرآن کی آپ نے سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ کیا اب تک تم لوگوں نے یہ آیت نہیں سمجھی '' واذ قری القرآن '' ( روح المعانی )

نیز اس آیت کے شان نزول کے متعلق چار روایتیں اور بھی ہیں مگر وہ قوی نہیں ۔

ان میں سے پہلا قول یہ ہے کہ صحابہ کرام حضور ؐ کے پیچھے نماز میں بلند آواز سے قرات کرتے تھے ان کے اس عمل سے روکنے کیلئے یہ آیت نازل ہوئی مگر یہ قول درست نہیں ۔ اولاً تو اسلئے کہ مقتدیوں کی بلند آواز سے قرات کہیں ثابت نہیں ورنہ مسجد میں شور مچ جایا کرتا ۔ دوسرے اسلئے کہ یہاں حکم ہے '' انصتوا '' خاموش رہو پھر یوں ہوتا کہ '' آہستہ پڑھو '' دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت نماز میں دنیاوی بات چیت منسوخ کرنے کیلئے آئی مگر ہم ابھی بحوالہ مسلم عرض کرچکے کہ نمازمیں کلام '' وقوموا ﷲ قانتین '' سے منسوخ ہوا ۔

تیسرا قول یہ ہے کہ چونکہ کفار قرآن سنکر شور مچاتے تھے فلہذا انہیں اس حرکت سے روکنے کیلئے یہ آیت اتری مگریہ بھی سابقہ اقوال کی طرح درست نہیں کیونکہ کفار احکام شرعیہ کے مکلف نہیں نیز اگر کفار قرآن مجید بغور سن بھی لیا کریں پھر بھی وہ اللہ کریم کے رحم و کرم کے مستحق نہیں کہ اللہ کا رحم و کرم صرف مومنوں ہی پر ہوگا ۔

چوتھا قول یہ ہے کہ یہاں قرآن سے مراد خطبہ جمعہ ہے چونکہ خطبہ میں قرآن مجید کی آیات بھی ہوتی ہیں اسلئے اسے قران فرمایا گیا ۔ مگر یہ بھی درست نہیں کہ یہ آیت مکیہ ہے اور جمعہ اور خطبہ جمعہ بعد ھجرت آئے اور خطبہ میں سکوت و خاموشی حدیث شریف سے واجب ہے۔ کما فی الخازن وغیرہ

غرضیکہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق ابتدائی قول قوی ہے کما ذکرنا ہ ۔ قولِ قوی کے اعتبار سے اسکی تفسیر مفسرین علماء نے یوں فرمائی کہ اے مسلمانوں جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے کہ کوئی مسلمان پڑھے تو تم اسے کان لگا کر سنو اسوقت اپنا دھیان صرف قرآن مجید کی طرف کرلوں کسی اور طرف توجہ نہ کرو۔ اور بالکل خاموش رہوں اس میں قرآن مجید کا ادب ہے تمھیں کیا خبر کہ ہو سکتا ہے اسی ادب کی وجہ سے تم پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے۔

نوٹ : قرا ت خلف الامام کے عدم جواز کے دلائل و براھین کی تفصیل کیلئے علماء اہلسنت کی کتب کا مطالعہ کریں۔

سورہ اعراف کی آخری آیت کا شان نزول روح الیان میں کچھ اسطرح سے بیان کیا گیا ہے کہ کفار مکہ اسلئے بھی اسلام قبول نہ کرتے تھے کہ اسلام میں رب تعالیٰ کو سجدہ کرنا پڑتا ہے اور وہ اسمیں اپنی توہین سمجھتے تھے جیساکہ قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے '' انسجد لما تامرنا وزادھم نفورا '' ان کی تردید میں یہ آیت مبارکہ ان الذین عند ربک الخ نازل ہوئی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ کفار کی یہ نفرت ان کے رب تعالیٰ سے دور ہونے کی وجہ سے ہے جنہیں قرب الہی کی عظیم سعادت میسر ہے وہ اس کی عبادت سے نفرت نہیں کرتے بلکہ وہ تو اس پر فخر کرتے ہیں۔

جبکہ سورہ اعراف کی آخری دونوں آیتوں کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حکیم الامت مفسر شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ تعالیٰ رقمطراز ہیں۔ ''یہاں رب تعالیٰ نے مومنوں کو اپنے ذکر کا حکم دیا پانچ صفات کے ساتھ ' (١ ) ذکر دل میں ہو (٢ ) عاجزی سے ہو ( ٣ ) ڈر اور خوف کے ساتھ ہو ( ٤ ) زیادہ چیخ کر نہ ہو درمیان یآواز سے ہو ۔ صبح شام ہوا کرے چنانچہ ارشاد ہوا کہ اسے مومن اپنے رب کو جس نے تجھ کو قسم قسم کی نعمتوں سے پالا اور پال رہا ہے اور پالے گا اپنے دل میں یاد کیا کر مگر عاجزی زاری کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے کہ میں اپنے رب کو کما حقہ ، نہ تو یاد کرسکتا ہوں نہ اس کی نعمتوں کا شکرہی ادا کرسکتا ہوں۔ میرا ذکر محدود ہے اس کی نعمتیں غیر محدود ہیں وہ رب جلیل ہے میں بندہ ذلیل ہوں وہ کریم ہے میں کمین ہوں۔
تو کریمی من کمینہ بندہ ام ! بر کمینی ہائے خود شرمندہ ام

خوف اور ڈر کے ساتھ گذشتہ کا خوف کہ نہ معلوم میں دوزخیوں کے زمرہ میں لکھا جاچکا ہوں یا جنتیوں کے گروہ میں موجودہ کا خوف کہ نہ معلوم میری عبادات اور ذکر قبول ہے یا نہیں آئندہ کا خوف کہ نہ معلوم میرا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا کفر پر قبر میں کامیاب ہوںگا یا نہیں حشر میں نجات پاؤں گا یا پکڑا جاؤں گا بہت بلند آواز سے ذکر نہ کر جس سے تجھے چیخنے کی تکلیف ہو دوسروں کو تیری چیخ سننے کی شام سویرے میرا ذکر کر کہ ان وقتوں کا ذکر قبول ہے کیونکہ ان دونوں وقتوں میں دن رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے دل کو قدرے فراغت ہوتی ہے دنیا میں انقلاب ہوتا ہے کہ رات جارہی ہے دن آراہا ہے۔ اپنی زندگی غفلت میں نہ گزار بیدار ہو اور ہوش کر پھر یہ وقت نہ ملے گا غور کر کہ مقرب فرشتے جو کبھی گناہ نہیںکرتے جن کو عبادات کا جواب نہیں ملتاان کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنی ذلت نہیں جانتے۔ فخر سے اس کی عبادت کرتے ہمیشہ اس کی تسبیح وتقدیس بیان رتے ہیں ہمیشہ سجدے سجود کرتے رہتے ہیں تو بھی ان کا یہ حال سن کر سجدہ میں گرجاتا کہ ان سے مشابہت حاصل کرے
وتشبھو ان لم تکونوا مثلھم ان التشبہ بالکرام فلاح
اگر اچھے نہ ہو تو اچھوں کی سی شکل بنالو اچھوں کی شکل بنانا بھی کامیابی ہے۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349988 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.