جہاد کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ

جہاد کے بارے میں اس وقت مسلمانوں میں کافی افراط و تفریط پر مبنی باتیں پھلائی جارہی ہیں جبکہ یہ بات یقینی ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن اور محکم فریضہ ہے تو لازمی ہے کہ یہ جانا جائے کہ اس کے متعلق درست عقیدہ کیا ہونا چاہیے اور قرآن و سنت میں اس حوالے سے کیا راہنمائی کی گئی ہے ؟ اس سوال کا جواب وقت کی ضرورت بھی ہے اور مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ کیلیے ناگزیر بھی ۔ آئیے ذیل میں اسی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دروس جہاد کے مصنف لکھتے ہیں"

جہاد فی سبیل اﷲ کے بارے میں ایک مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے؟.... اسے اچھی طرح سے سمجھ لیجئے، یاد کرلیجئے، دل میں اتار لیجئے اور پھر.... مسلمانوں کے بچے بچے کو یہ عقیدہ یاد کرا دیجئے.... سب سے پہلے مختصر الفاظ میں اس عقیدے کو بیان کیا جاتا ہے.... اور پھر اس کے مختصر دلائل عرض کیے جائیں گے....

عقیدہ
جہاد یعنی قتال فی سبیل اﷲ.... نماز روزے کی طرح اسلام کے قطعی فرائض میں سے.... ایک فریضہ (یعنی فرض) ہے.... اس فریضے کا انکار کرنا اسی طرح کفر ہے.... جس طرح نماز روزے کا انکار کرنا.... اور جب جہاد فرض عین ہوجائے تو اسے بلا عذر چھوڑنا گناہ ہے.... اور جہاد کے خلاف فضول بحث کرنا گمراہی ہے....

مختصر دلائل
جی ہاں جہاد فی سبیل اﷲ ایک قطعی فریضہ ہے.... اس کی فرضیت قرآن مجید میں کئی آیات سے ثابت ہے.... یہاں صرف ایک آیت مبارکہ بیان کی جاتی ہے....

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
کتب علیکم القتال وہو کرہ لکم وعسیٰ ان تکرہوا شیئا وہو خیر لکم وعسیٰ ان تحبوا شیئا و ہو شرلکم واﷲ یعلم وانتم لا تعلمون۔
(سورة البقرة آیت ۶۱۲)
ترجمہ: ”تم پر (اﷲ کے راستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا اور وہ تم کو (طبعاً) برا لگتاہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور اﷲ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے“

فرضیت جہاد کی تصدیق کئی احادیث سے بھی ہوتی ہے.... ملاحظہ فرمائےے یہ ایک حدیث مبارکہ....
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اﷲ فمن قال لا الہ الا اﷲ عصم منی مالہ و نفسہ الا بحقہ وحسابہ علی اﷲ۔(بخاری ، مسلم)
ترجمہ: ”مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اﷲ کا اقرار کرلیں (یعنی یا تو مسلمان ہوجائیں یا مسلمانوں کی حکومت کو تسلیم کرکے انہیں جزیہ دیں) پس جس نے لا الہ الا اﷲ کہہ دیا اس نے اپنا مال اور جان مجھ سے محفوظ کرلی سوائے اس کے شرعی حق کے اور اس کا حساب اﷲ پر ہے۔“

یہ حدیث شریف جہاد کی فرضیت پر بالکل واضح ہے.... اور اس میں دفاعی نہیں بلکہ اقدامی جہاد کا تذکرہ ہے.... اور اس میں جہاد کو امر یعنی حکم الٰہی قرار دیا گیاہے.... اور جہاد کی منزل ”لاالہ الا اﷲ“ کا غلبہ قرار دی گئی ہے....

اب آئیے عقیدے کے دوسرے جزو کی طرف کہ.... جہاد کا منکر کافر ہے.... یہ بات کسی نے اپنی طرف سے نہیں گھڑی.... بلکہ یہ قانون ہے کہ جو شخص قرآنِ مجید سے ثابت شدہ کسی فرض کا انکار کرتاہے .... وہ کافر ہوجاتا ہے.... جہاد فی سبیل اﷲ کا فریضہ چونکہ قرآنِ مجید کی سینکڑوں آیات سے ثابت ہے.... اس لےے جہاد کا انکار کرنا ان تمام قرآنی آیات کا انکار کرنا ہے....
فتح القدیر ص۹۸۱ج۵ پر ہے:

قال السرخسی فی المحیط الجہاد فریضة محکمة وقضیة محتومة یکفر جاحدہا ویضلل عاندہا وکذا قال صاحب الاختیار الجہاد فریضة محکمة ویکفر جاحدہا ثبت فرضیتہا بالکتاب والسنة واجماع الامة۔

یعنی جہاد ایک محکم اور قطعی فریضہ ہے، اس فریضے کا انکار کفر اور اس کے بارے میں ضد اور عناد رکھنا گمراہی ہے اور جہاد کی فرضیت قرآن، سنت اور امت کے اجماع سے ثابت ہے۔

اب آتے ہیں اپنے دعوے کے تیسرے حصے کی طرف کہ.... جب جہاد فرض عین ہوجائے تو اسے بلا عذر چھوڑنا سخت گناہ ہے.... جہاد کے فرض عین ہونے کی چند صورتیں یہ ہیںمثلاً:
(۱) جب مسلمانوں کا شرعی امیر انہیں جہاد میں نکلنے کا حکم دے دے
(۲) جب مسلمانوں اور کافروں کی صفیں میدان جنگ میں آمنے سامنے آجائیں
(۳)جب کافر مسلمانوں کے کسی علاقے پر قبضہ کرلیں یا قبضے کے لئے پیش قدمی شروع کردیں.... یا کچھ مسلمانوں کو گرفتار کرلیں
(۴) جب شعائر اسلام میں سے کسی پر پابندی لگادی جائے (وغیرہ)

ان تمام صورتوں میں جہاد فرض عین ہوجاتا ہے.... اور عام حالات میں یعنی جب فرض عین نہ ہواہو تب بھی سال میں کم از کم ایک مرتبہ اسلامی لشکر کا جہاد کے لئے نکلنا فرض ہوتا ہے.... بہرحال فرض ہونے کی صورت میں جو بلاعذر کوتاہی کرے گا.... وہ بڑے جرم اور بڑے گناہ کا مرتکب ہوگا.... قرآن مجید کی کئی آیات میں جہاد کو ترک کرنے اور چھوڑنے پر.... شدید وعیدیں آئی ہیں.... مثال کے طور پر سورة توبہ کی ان دو آیات کا ترجمہ.... اور آیت نمبر یاد رکھیں.... اور خود بھی عبرت لیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں....
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
قل ان کان اٰباکم وابناکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومسکن ترضونہا احب الیکم من اﷲ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اﷲ بامرہ واﷲ لا یہدی القوم الفاسقین۔(سورة التوبة آیت ۴۲)
ترجمہ: ”آپ فرمادیجئے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بند ہوجانے کا تم کو ڈر ہے اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اﷲ سے اور اس کے رسول سے اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب وسزا) بھیج دیں اور اﷲ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتے نافرمانوں کو۔“

اور اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یا ایہا الذین آمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اﷲ اثاقلتم الی الارض ارضیتم بالحیوٰة الدنیا من الآخرة فما متاع الحیوٰة الدنیا فی الآخرة الا قلیلo الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما ویستبدل قوما غیرکم ولا تضروہ شیئا واﷲ علی کل شیءقدیر۔ (سورة التوبة ۸۳،۹۳)
ترجمہ: ”اے ایمان والو تم لوگوں کو کیا ہوا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ کے راستے میں (جہاد کےلئے) کوچ کرو تو زمین پر گرے جاتے ہو کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہوچکے ہو دنیاکی زندگی کا نفع اٹھانا تو آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے اگر تم (جہادمیں) نہیں نکلو گے تو اﷲ تعالیٰ تم کو سخت سزا دے گا اور تمہارے بدلے دوسری قوم پیدا کردے گا اور تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے اور اﷲتعالیٰ ہر چیز پر قادرہے۔“

بلا عذرجہاد چھوڑنے پر بہت سی احادیث میں بھی سخت وعیدیں آئی ہیں.... عبرت اور عمل کے لئے یہ حدیث شریف مع ترجمہ وحوالہ یاد رکھیں....
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علیٰ شعبة من النفاق۔(صحیح مسلم)
ترجمہ: ”جو شخص مرگیا اور اس نے جہاد نہ کیا اور نہ جہاد کی نیت اس کے دل میں آئی وہ شخص نفاق کے ایک حصے میں مرے گا۔“

اﷲ تعالیٰ حفاظت فرمائے.... دیکھا آپ نے کہ کتنی سخت وعید ہے؟.... ہم سب کو چاہئے کہ ہم ”نفاق“ سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگیں.... اور اپنے ایمان کو کھوٹ اور نفاق سے بچانے کے لئے جہاد فی سبیل اﷲ میں نکلیں.... قرآن وسنت سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ جہاد.... یعنی قتال فی سبیل اﷲ اسلام کا ایک قطعی اور محکم فریضہ ہے تو یہ بھی.... خود بخود ثابت ہوگیا کہ اس قطعی فریضے میں فضول بحث کرنا، جھگڑے ڈالنا اور طرح طرح کے بہانے تراشنا.... ایک گمراہی ہے.... اﷲ تعالیٰ گمراہی سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے.... ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جہاد کے بارے میں اس عقیدے اورنظرئیے کو مضبوطی سے تھام لے.... اور عملی میدان میں نکلنے کے لئے اﷲ تعالیٰ سے توفیق مانگے.... فکر اور محنت کرے.... اور بھرپور کوشش کرے....
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 45886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.