میاں نواز شریف٬ عمران خان اور دائیں بازو کا اتحاد

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک خچر کی ملاقات ایک اونٹ سے اصطبل میں ہو گئی۔خچر نے اونٹ سے کہا کہ میں اکثر منہ کے بل گر پڑتا ہوں۔ہموار ناہموار راستوں ، ٹیلوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں اکثر اس حادثہ سے دوچار ہو جاتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے۔ جبکہ تجھے میں نے منہ کے بل گرتے کبھی نہیں دیکھا۔میں اس گرنے کی وجہ سے اپنے گھٹنے اور منہ کو زخمی کر لیتا ہوں۔ میرا پالان میرے سر پر آجاتا ہے اور اپنے مالک سے بھی پٹتا ہوں۔ آخر تیرے پاس ایسی کیا خوبی ہے کہ تو منہ کے بل نہیں گرتا اور مالک کی مار سے بھی بچا رہتا ہے۔اونٹ نے جواب دیا اگرچہ نیک بختی منجانب اللہ ہے لیکن تجھ میں اور مجھ میں فرق ہے۔ میرا سر بلند اور میری دونوں آنکھیں بلند ہیں۔بلندی سے دیکھنا تکلیف سے مامون رہنے کا سبب ہے۔میں پہاڑ کی چوٹی سے اُس کی تہہ تک دیکھ لیتا ہوں۔جبکہ تیری نظر کوتاہ ہے تو کوتاہ بین ہے۔ اور یہی بات تجھے بار بار منہ کے بل گراتی رہتی ہے۔ امام رومی ؒ اس حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ ا نسان میں اونٹ کی بلند نظری اور تیز بینی بھی ہے اور خچر جیسی کوتاہ نظری بھی۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اگر تیز نظر سے دیکھے گا تو ہمیشہ نگاہِ بلند اُسے شان میں بلند بنا دے گی۔ اور اگر کوتاہ نظری سے دیکھے گا تو زاغ صفت بن جائے گا۔ اور اُس کا مقام اور مرتبہ بھی اُس کے مطابق ہوگا۔

قارئین! پوری دنیا میںاس وقت شیطانی قوتوں اور نورانی قوتوں کے درمیان ایک جنگ جاری ہے۔ایک جنگ تو وہ ہے جو ظاہری نگاہوں سے دکھائی نہیں دیتی اور روحانی کا علم رکھنے والے لوگ ہی اُس کا ادراک رکھتے ہیں۔کالا علم، جادو، سفلیات، بلیات اور دیگر نہ جانے کتنی قسمیں طاغوتی طاقتوں کی پیروی کرتے ہوئے اہلِ حق کے خلاف اپنا کام کر رہی ہے اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے وہ نیک لوگ کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اُن کی موجودگی کی وجہ سے اس کائنات کا وجود قائم ہے۔وہ لوگ روحانی قوتوں کے ساتھ شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔یہ نظام عام انسانوں کے ادراک سے باہر ہے۔اسی طرح طاغوت اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے درمیان اسباب کی اس دنیا میں ظاہری جنگ بھی جاری ہے۔ اس جنگ کو 9/11کے واقعہ کے بعد امریکی صدر نے اربوں انسانوں کے سامنے الیکٹرانک میڈیا کے سامنے ”Crusades“کا نام دے کر مسلمانوں پر جنگ مسلط کرنے کی بات کی تھی۔وہ دن ہے اور آج کا دن دیکھئے تو سہی”فری میسن اور دجال کے پیروکار“انکل سام نے عراق سے لے کر افغانستان تک اور صومالیہ سے لے کر پاکستان تک کرہِ ارض کو مسلمانوں اور رنگ دار نسلوں کے خون سے رنگین کر دیا ہے۔پوری دنیا میں اس وقت دجال کے اس پیروکار اور اہلِ حق کی لڑائی جاری ہے۔کبھی تو اسامہ بن لادن کا بہانا بنا کر افغانستان پر کارپٹ بمبنگ کی گئی اور کبھی القاعدہ اور طالبان کا کور لے کر امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے اس جھانسے میں ایسا ملوث کیا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق چالیس ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں اور پانچ ہزار کے قریب پاکستانی فوجی شہادت کے رتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔یہ بھی طاغوت اور اہلِ حق کے درمیان ہونے والی اسباب کی دنیا کی جنگ کی ایک جھلک ہے۔دایاں بازو اور بایاں بازو ....یہ اصطلاح قرآنِ پاک میں انتہائی وسیع المعانی اندا ز میں استعمال کی گئی ہے۔اور اُس سبق میں بتایا گیا ہے کہ دائیں بازو والے کون لوگ ہوں گے اور اُن کا انعام کیا ہو گا ۔ اور اسی طرح بائیں بازو والے لوگ کون ہوں گے اور اُن کی سز ا کیا ہو گی۔

قارئین! سیاست کی دنیا میں بھی ایک لمبے عرصے تک روس اور امریکہ کے درمیان چپقلش رہی۔ اختلاف کے اس دور میں بھی Rightest & Leftest کی ٹرم استعمال کی جاتی رہی۔لیکن آج کے موضوع کے حوالے سے ہم پاکستانی حالات کے تناظر میں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا پاکستان کی دائیں بازو کی قوتیں جنہیں مذہبی رجحان رکھنے والی قوتیں کہا جاتا ہے آیا اُن کا اتحاد ممکن ہے یا نہیں۔راقم نے FM93ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام”لائیو ٹاک وِد جنید انصاری “ میں گزشتہ تین ماہ کے دوران چند تاریخی انٹرویو کیئے جو شخصیات براہِ راست نشر ہونے والے اس پروگرام میں شریک ہوئیں اُن میں فخرِ اُمتِ مسلمہ و محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان جوہری سائنسدان، پاکستان میں تعلیمی انقلاب کے بانی ڈاکٹر عطاءالرحمن، تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان، مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے تاحیات رکن لارڈ نذیر احمد، مسلم لیگ (ن) کے رہنما و چیئرمین راجہ ظفر الحق، ترجمان صدیق الفاروق اور ایم این اے احسن اقبال، آزادکشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبد المجید، آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب خان، ممبر قومی اسمبلی ہمایوں سیف اللہ، ایم این اے جنرل عبد القادر بلوچ سمیت ایک طویل فہرست ہے کہ جنہوں نے اپنے خیالات اور تجربات سے ہمیں نوازا۔ ان پروگراموں میں ایکسپرٹ جرنلسٹس کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خان اور عزیزی محمد رفیق مغل نے انجام دیئے۔ہم آج کے موضوع کے حوالے سے وہ بات نقل کرتے چلیں جو تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان اور مسلم لیگ (ن ) کی قیادت نے ہمارے پروگرام میں براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے کی۔عمران خان سے جب راقم نے یہ پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان Hard Linerہے، ڈکٹیٹر ہے، اس کی ہر کسی سے لڑائی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں آپ کی جماعت دائیں بازوکی قوتوں کے ساتھ اتحاد کرے تو عمران خان نے ٹھوس انداز میں کہا کہ تحریکِ انصاف کرپٹ لوگوں کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنانے کے بجائے دیانتداری کے ساتھ خدمات سرانجام دیتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کرے۔بددیانت لوگوں کے علاوہ اگر صاف ستھرے لوگ اتحاد کے لیے ہمارے ساتھ آئے تو اس بات پر سوچا جاسکتا ہے۔اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا یہ کہنا تھا کہ انتخابات جب قریب آئیں گے تو اُس وقت سوچا جائے گا کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں کس سیاسی قوت کے ساتھ اتحاد کیا جاسکتا ہے۔احسن اقبال، راجہ ظفر الحق اور صدیق الفاروق اس بات پر متفق دکھائی دیئے کہ دائیں بازو کی قوتوں کو اتحاد ضرور کرنا چاہے۔یہا ں ہم بقول غالب کہتے چلیں
سادگی پر اُس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے
بس ہجومِ نااُمیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے
ہے دلِ شوریدہِ غالب طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر ، کہ کس مشکل میں ہے

قارئین!ا مریکہ کی ایک پالیسی رہی ہے کہ اُس نے جس بھی علاقے میں قدم رکھا ہے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر جن جن ممالک کو راہداری کے طور پر استعمال کیا ہے اُن ممالک میں اُس نے اپنے نظریات کو سپورٹ کرنے والی حکومتیں بنائی ہیں۔ جو بھی لوگ انکل سام کے مقاصد کی راہ میں آئے اُن کا انجام ذو الفقار علی بھٹو شہید، شاہ فیصل شہید، معمر قذافی اور دیگر لوگوں جیسا ہوا۔یہاںہم انتہائی ذمہ داری سے یہ بات کہتے چلیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی کڑیاں بھی بیرون ممالک کہیں جا کر ملتی ہیں۔کیونکہ دخترِ مشرق نے بھی حرفِ انکار اختیار کیا تھا۔جبکہ میاں محمد نواز شریف جوہری پاکستان کا اعلان کرنے کی پاداش میں کئی برس تک جلاوطنی کی سزا بھگت چکے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر نظریہِ پاکستان ، علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات کے مطابق اور قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے تصورات والا پاکستان معرضِ وجود میں آئے تو یاد رکھئے ”دائیں بازو“ والوں کو اتحاد کرنا ہو گا۔میاں محمد نواز شریف اور عمران خان کی آپس کی اصولی لڑائی کو جو لوگ ”تیل“دے رہے ہیں ان دونوں عقلمند قائدین کو اُن کے مقاصد سمجھنا ہوں گے۔ یہاں ہم صلاح الدین ایوبی ؒ کی وہ بات نقل کرتے چلیں کہ جس کا مفہوم ہے کہ ”میں صلیبیوں کے ساتھ جہاد میں مصروف ہوں اور مجھے اپنے مسلمان بھائی کمزور کر رہے ہیں۔“

قارئین! کچھ ایسا ہی روحانی اور ظاہری سطح پر 14اگست 1947ءسے لے کر آج تک ہوتا چلا آرہا ہے۔دائیں بازو والے یاد رکھیں کہ بائیں بازو والے اُن کی نسبت بہت طاقتور بھی ہیں اور سنجیدہ بھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اہلِ حق بھی گھوڑے تیار کریں اور سنجیدہ ہو جائیں۔

آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
استاد جی نے سکول میں بچوں سے کہا کہ میری نصیحت یاد رکھو تمام انسان برابر ہیں کسی کو بڑا یا چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے۔
ایک شاگرد نے پوچھا اُستاد جی کیا آپ کو بھی بڑا نہ سمجھیں۔
استاد جی نے کہا کہ بالکل مجھے بھی برابر سمجھو۔
شاگر د نے باآوازِ بلند اعلان کیا۔آج سے استاد جی ہمارے ساتھ مل کر کبڈی کھیلیں گے۔

قارئین! ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“کی امریکی کبڈی اخلاقیات اور روایات کے حساب سے کوئی جواز بھی نہیں رکھتی اور کسی گالی سے کم نہیں ہے۔امریکی جنگ سے باہر نکلئے اور امتِ مسلمہ اور پاکستان کا سوچیئے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 341123 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More