بے نظیر قتل رپورٹ، جیالوں کو مطمئن کرنے کی کوشش ؟

کیا پیپلزپارٹی ایک بار پھر سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے معاملے کو کیش کرانا چاہتی ہے؟ کیا وہ انتخابی معرکہ لڑنے کے لیے تیار ہے؟ اور کیا سندھ اسمبلی میں وزیر داخلہ کی بریفنگ مشتعل جیالوں کو مطمئین کرنے کی کوشش تھی؟

بظاہر لگتا تو یہی ہے کیوں کہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ءکو راولپنڈی میں قتل ہوئیں، اس کے صرف 3 ماہ بعد پی پی کی اپنی حکومت قائم ہوگئی،اپنی قائد کی موت کے سوا چار سال بعد حکومت نے 21 فروری 2012ءمنگل کے روز اس کیس کی تحقیقات کی تفصیلات پہلی بار باضابطہ طورپر جاری کردیں، وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے ایف آئی اے کے تحقیقات کاروں کے ساتھ سندھ اسمبلی میں بریفنگ دی جس کا لب لباب حسب ذیل ہے۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں القاعدہ، طالبان، پیپلزپارٹی کے مخالف گروپ اور سابق صدر پرویز مشرف ملوث ہیں، بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کے لیے 27 دہشت گرد گروپ منظم ہوئے تھے، بریفنگ کے مطابق قتل کا منصوبہ القاعدہ کے رہنما ابو عبیدہ المصری نے تیار کیا، جس پر بیت اللہ محسود نے حقانی نیٹ ورک کے ذریعے عمل درآمد کیا۔ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے کمرہ نمبر 96 میں اس منصوبے کو حتمی شکل دی گی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بریفنگ قومی اسمبلی میں کیوں نہیں دی اور اس کے لیے سندھ اسمبلی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ صوبائی مقننہ نے ایک قرارداد کے ذریعے وفاق سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے تحقیقات منظر عام پر لائے، لیکن اس کے باوجود محسوس یہ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ کارڈ استعمال کرکے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے، اس موقع پر سندھ اسمبلی کے اجلاس میں 164 میں سے صرف 80 ارکان شریک تھے۔بریفنگ کے وقت صوبائی وزیر داخلہ منظور و سان، صوبائی وزیر خوراک نادر مگسی، صوبائی وزیر مظفر علی شجرہ، سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن سمیت دیگر اہم وزراءغائب رہے۔

جہاں تک پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی بات ہے تو یہ کوئی راز نہیں کہ موجودہ حکومت نے ڈیل کے تحت سابق صدر کوعزت و احترام کے ساتھ گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا تھا، اگر وہ اس قتل کے ذمہ دار ہیں تو پھر انھیں باہر جانے کی اجازت کیوں دی گی؟ انسداد دہشت گردی کی عدالت پرویز مشرف کے خلاف جون 2011ءمیں وارنٹ جاری کر چکی ہے جبکہ انہیں اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے۔ لیکن وزیر داخلہ نے اب تک ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیوں نہیں کیے؟ سوا چار سال بعد ہی یہ خیال کیوں آیا؟ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں منظر عام پر لائی گئی تحقیقاتی رپورٹ اپنی نوعیت کی پانچویں رپورٹ ہے۔ اس سے قبل پنجاب حکومت، مختلف تحقیقاتی اداروں، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں۔ اس رپورٹ سے صاف ظاہر ہوگیا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا معاملہ اسی مقام پرہے، جہاں آج سے سوا چار سال قبل تھا۔

سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ حکومت 12 اکتوبر 2007ءکو کراچی میں رونما ہونے والے سانحہ کار ساز کی تحقیقات کا مطالبہ کررہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اتنے طویل عرصے کے بعد یہ مطالبہ کس سے کررہی ہے جب کہ اسے تمام تر اختیارات حاصل ہیں۔ قوم حکومت سے پوچھے گی کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کوبے نقاب کیوں نہیں کیا گیا؟ سانحہ کار ساز کے ماسٹر مائنڈ کون ہیں؟ اس معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ صدر زرداری بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو جاننے کا دعویٰ کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کی ہچکچاہٹ سمجھ سے بالاتر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت خود بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے میں سنجیدہ نہیں، ورنہ وہ اب تک یہ معرکہ سرکرچکی ہوتی۔

اب حکمران بے نظیر قتل کیس میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ مدارس پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ نے اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کا الزام دارالعلوم حقانیہ پر لگایا، جب کہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران دوسروں کے اشاروں پر اور انہیں خوش کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں،دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین ہیں، وہ اس پلیٹ فارم پر پوری قوم کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کونسل کی سرگرمیوں پر امریکا کو بھی بہت تکلیف ہورہی ہے اور وہ کئی دفعہ اس پر اظہار تشویش کرچکا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ اس قسم کے بیان دے کر انہیں خوف زدہ کیا جائے تاکہ امریکی عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے۔

وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک روز اول سے ہی دینی مدارس، مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں کے بارے میں شر انگیزی پر مبنی بیانات دیتے چلے آرہے ہیں۔ اس سے قبل عبدالرحمن ملک نے تبلیغی مرکز رائے ونڈ کودہشت گردی کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انتہا پسندی کی پرورش گاہ ہے۔ کیا کبھی موصوف نے ملک میں جاری قتل و غارت کی لہر کے ”اصل کھلاڑیوں“ کو بھی دہشت گرد کہنے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کی جرات کی ہے؟ اس لیے حکمرانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اصل مسائل سے قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت بے نظیر بھٹو کے قتل کے معاملے پر بھی سیاسی پوائنٹ اسکور کرنا چاہتی ہے۔ اپنی پارٹی کی سابق چیئرپرسن کی لاش کی اس سے بڑھ کر بے حرمتی اور کیا ہوسکتی ہے؟

ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اس صورت حال پر ہمیں افسوس ہے اور اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو بہت جلد اپنے کیے کا حساب دینا پڑے گا، تب ان کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوگا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.