فرشتے اب بھی آئیں گے!

ہمارے ملتانی مردحر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست اور جدوجہد کرنا آسان نہیں ،جیلوں میں ہمارے پاس فرشتے آتے تھے اور ہمیں دعوت دیتے تھے کہ ہم بامشرف ہو جائیں تو اقتدار کی ضمانت مل جائے گی ،اچھا ہوا کہ شاہ عبدالقادر جیلانی خانوادے کے فرد بامشرف نہ ہوئے ورنہ آج انہیں وزیر اعظم بننے کی بجائے مشرف کی طرح طرح در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتیں ،لیکن غور طلب بات ہے کہ دور مشرف میں پابندسلاسل رہنے والے گیلانی( جنہوں نے اس عرصے میں ”چاہ یوسف سے صدا“ نامی کتاب بھی لکھ ڈالی) اندر سے اتنے مضبوط تھے کہ وہ دنیاوی فرشتوں کی باتوں اور دعوت اقتدار میں نہ آئے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ وہ ساڑھے تین سال سے وزیر اعظم ہیں لیکن تمام تر طاقت کا سرچشمہ ہونے کے باوجود وہ اندر سے کمزور ہو چکے ہیں اور دنیاوی فرشتوں کی باتوں میں آنے لگے ہیں مثلاً یہ فرشتے انہیں کہتے ہیں کہ عدلیہ سے محاذ آرائی کرو، پارلیمنٹ کی بے توقیری کرو، ملک کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کو گروی رکھ دو، فوج اور آئی ایس آئی کو آلودہ کرتے رہو ،عوام کے دکھوں کامداوا کرنے کا باالکل مت سوچو، کرپشن پر آنکھیں بد کرلو ، قومی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دو اور اس پر اگر سپریم کورٹ یہ کہے کہ وزیراعظم بادی النظر میں ایما ندار نہیں رہے تو ناراضی کا اظہار کیا جا تا ہے ۔بابر اعوان جنہیں اب کوئی سنجیدہ شخص سنجیدہ نہیں لیتا کا فرمان ہے کہ وزیر اعظم گیلانی جو 18 کروڑ پاکستانیوں کے منتخب کردہ ہیں جن کے اہلخانہ منتخب عوامی نمائندے ہیں جن کے بزرگان دین کاا ہم مقام ہے وہ شخص بھلاکیسے بے ایمان اور بددیانت ہو سکتا ہے اور اس کے خلاف آرٹیکل 62 کے تحت کیسے کارروائی ہو سکتی ہے ۔

یہاں معاملہ صرف وزیر اعظم کانہیں بلکہ ریاست کے سربراہ یعنی صدر مملکت آصف علی زرداری پر بھی آئین سے وفاداری نہ کرنے کے الزامات ہیں اور یہ الزامات سپریم کورٹ کے اس 5 رکنی بینچ نے لگائے ہیں جس نے این آر او عملدرآمد کیس کے سلسلے میں حکومت کو 6 آپشن کی صورت میں دیئے ہیں ۔یہ آپشن سپریم کورٹ کے گزشتہ دوسال کے صبر اور برداشت کا اظہار ہے اور ایسی مثال ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے عدالتی نظام میں عموماً دیکھنے کونہیں ملتی ہے اس کے باوجود کہ بعض ناقدین اسے نظریہ ضرورت کا دوسرا جنم قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کی فعالیت کے بعد ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی انتہائی اقدام بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے ،معاملہ کوپھونک پھونک کر دیکھنا پڑ رہا ہے ،16 دسمبر2009 سے 16 جنوری 2012 تک کا عرصہ مختصر نہیں ، حکومت اگر مخلص ہوتی تو وہ ان دو سالوں میں این آر او فیصلے پر عملدرآمد کروا لیتی لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ رہا اور مجبوراً فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے حوالے سے عدالتی عظمیٰ میں ایک نئی پٹیشن داخل کرنا پڑی ۔

10 جنوری2012 کا فیصلہ ا ور حکومت کو 6 دنوں میں 6 آپشنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا یقینا سنجیدہ معاملہ ہے بصورت دیگر سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کا فیصلہ حکومت ،وزیراعظم اور صدر زرداری کی سیاسی شہادت کے بجائے سیاسی ہلاکت کا باعث بنے گا ۔اتحادی حکومت اس بات کا توقع نہ کرے کہ اتحادی انکے ساتھ ہمیشہ رہیں گے ، مسلم لیگ ق کی قیادت نے تو پیپلز پارٹی کو مشوردہ دیا ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لے اور سنجیدہ رویئے اختیار کرے ۔ جبکہ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی روایتی پشتون مزاج کے تحت صدر زرداری حکومت کو ”زبان“ دے چکنے کا کہہ چکے ہیں اور رہ ہر حال میں پی پی حکومت کا حصہ دینے کو تیار ہیں ۔ لیکن انکا یہ کہنا کہ ادارے اگر اپنی آئینی حدود سے تجاوز کریں گے تو ا نہیں روکیں گے درست ہے لیکن کیا وہ وزیراعظم اور صدر مملکت کو بھی اس دائرے میں لانا پسند کریں گے ۔یہ عجب انداز جمہوریت ہے کہ جس میں جمہور کی وقت کی آواز کو نہیں سنا اور سمجھا جاتا بلکہ صرف اقتدار سے چمٹے رہنے کا روےہ اپنایا جاتا ہے۔

ملک اس وقت چہ مگوئیوں میں گھرا ہوا ہے ،، افواہیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ رونما ہو رہا ہے، کچھ ہمارے اجتماعی اعمال کی وجہ سے اور بہت زیادہ حکمرانوں کی بداعمالیوں کے باعث،، جس نے ہماری زندگیوں میں سے برکت کوختم کر دیا ہے ۔بے یقینی ماضی میں بھی تھی لیکن اب تو انتہا ہو گئی ،کہا جاتا ہے کہ مارشل لاء نہیں لگے گا فوج نہیں آئیگی ،اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول نہیں ۔وزیر اعظم جو آج کل ضرورت سے زیادہ بول رہے ہیں انکی حکومت خود ایسا ماحول تیار کر رہی ہے جس میں ادارے بدنام اور بے توقیر ہو تے ہیں ،یہ بات اب زبان زدوعام ہے کہ پی پی کی موجودہ حکومت نے جتنا فوج اور آئی ایس آئی کو رسوا کیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور دستور و آئین کی محافظ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا جتنا مذاق اس حکومت نے اڑایا اتنا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ کھیل تماشہ اور اس کے کندھوں پر بندوق چلانے والے اب اس بات کے لئے بھی تیار ہو جا ئیں کہ انہی کندھوں کو کوئی توپ چلانے کےلئے بھی استعمال کر سکتا ہے لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ عدلیہ کو آزاد حیثیت سے کام کرنے دیا جائے ، اسے ایک بار پھر جس طرح دھمکیاں مل رہی ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہے ۔

فوج نے وزیراعظم کے اس بیان کو انتہائی سنجیدہ لیا ہے جس میں چیف ایگزیکٹیو نے کہا ہے کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے بیان حلفی غیر قانونی ہیں ، جس پر” فیس سیونگ “ کے لئے حکومت نے سیکرٹری دفاع نعیم خالد لودھی کو عہدے سے اچانک برخاست کر دیا دوسری جانب صدر زرداری کا اچانک دبئی جانا بھی یاران نقطہ دان کے لئے خاصا مشکوک ہے لیکن اس سب کے باوجود فرشتے اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اب بھی ملتانی سید زادے نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ دنیاوی فرشتوں کے کہنے پر چلیں گے یا آئین و دستور کو اپنا راہبر و رہنما بنانا پسند کریں گے۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 44136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.