اے پی سی کا جواب ....ڈرون حملہ

امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پاکستان پر الزامات اور ”ڈومور“ کی رٹ کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا اس پر حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں پارلیمنٹ میں موجود اور اس سے باہر کی اکژسیاسی ومذہبی جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا تاہم بلوچستان کی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت سندھ کی بعض قوم پرست جماعتوں نے بھی قومی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اس کے علاوہ 54 سیاسی رہنماﺅں نے 11 گھنٹے طویل اجلاس میں شرکت کی۔

کانفرنس کے شروع میں وزیراعظم نے تمام شرکاءکو اعتماد میں لیتے ہوئے تمام داخلی و خارجی خطرات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی نے پاکستان کے اندرونی و بیرونی مسائل پر تفصیل سے بات کی جبکہ انہوں نے شرکاءکے سوالات کے جواب بھی دیے۔

تمام رہنماﺅں نے ملکی بقا و سلامتی کو ہر قیمت پر مقدم رکھنے اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتا نہ کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ کانفرنس امریکا کی پاکستان کو دھمکیوں کے جواب میں بلائی گئی تھی لیکن اعلامیے میں امریکا کا کہیں ذکر تک نہیں کیا گیا۔ اجلاس میں ایک متفقہ قرار داد منظور کی گئی جس میں پاکستان پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کردیا گیا۔ کل جماعتی کانفرنس نے قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلح افواج کو اپنی بھر پور حمایت کا یقین بھی دلایا۔ مشترکہ قرار داد میں امن کو پہلی ترجیح قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

امریکا نے ہماری اے پی سی کا جواب ڈرون حملوں کی صورت میں دیا۔ قومی کانفرنس سے ایک دن قبل اور ایک دن بعد امریکی جاسوس طیاروں نے جنوبی وزیرستان میں حملے کرکے ہماری قومی خود مختاری کی دھجیاں اڑادیں۔ نوز شریف نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ امریکی دھمکیوں یا ممکنہ اسٹرائیک سے قومی خودمختاری پامال ہوسکتی ہے تو کیا یہ ڈرون حملوں سے پامال نہیں ہورہی؟ اس پر پاکستان کا رد عمل سخت کیوں نہیں؟ مسلم لیگ ن کے صدر نے حکومت سے امریکا کے ساتھ کیے گئے خفیہ معاہدے بھی پارلیمنٹ میں لانے کا مطالبہ کیا۔

پاکستان کے ایک کروڑ سے زاید قبائلی مشکل وقت پڑنے پر فوج کے شانہ بشانہ لڑنے اور امریکیوں کو عبرتناک شکست دینے کا عزم کررہے ہیں تو کیا حکومت پاکستان اور مسلح افواج کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کانفرنس کے اعلامیے میں تجویز کیا گیا ہے کہ مقامی قبائل سے مفاہمت کی بات کی جائے اور ان سے مذاکرات کرکے ”امن کو موقع“ دیا جائے۔

قبائل سے تو ہماری کوئی لڑائی نہیں، یہاں احتیاطاً عسکریت پسندوں کا نام لینے سے گریز کیا گیا ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران پاکستان نے4o ہزارسے زایدجانوں کی قربانی کے علاوہ بھی اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا اس کے جواب میں امریکا ہم پر الزامات لگاکر کیاچاہتا ہے؟ گزشتہ 10 برسوں کے دوران اپنی پوری طاقت اور تمام وسائل کے ساتھ جنگ لڑنے کے باوجود امریکا جن کو ختم نہیں کرسکا ان کے ساتھ ہمیں لڑنے کو کہا جارہا ہے۔ پاکستان کو استعمال کرکے ایک بار پر خطے میں تنہا کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ عالمی طاقتیں پاک فوج اور قبائل میں تصادم چاہتی ہیں۔ کمانڈر نیک محمد سے امن معاہدہ کیا گیا تو امریکا نے اس معاہدے کے ٹھیک ڈیڑھ ہفتے بعد ڈرون حملہ کرکے اسے موت کی نیند سلادیا۔

لہٰذا ہمیں اپنے ملکی مفاد میں سوچنا اور پھر اس پر عمل کرنا چاہیے۔ صرف اے پی سی کا انعقاد کافی نہیں ۔ اس کی قرار دادپر عمل ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔

فروری 2008ءمیں ہماری پارلیمنٹ نے امریکی ڈرون حملے روکنے کی قرار داد منظور کی، اس کا کیا ہوا؟
ایبٹ آباد میں امریکی کاروائی کے بعد پارلیمنٹ کے ان کیمرا سیشن کے دوران پاس ہونے والی قرار دادکا کیا بنا؟ امن کو ایک موقع ضرور دینا چاہیئے مگر سوال یہ ہے کہ یہ موقع دینے کی ذمہ داری کس پر ہے اور پارلیمنٹ کی مشترکہ قرار دادوں پر عمل کون کیسے اورکب کروائے گا؟ مولانا فضل الرحمن نے بجا کہا کہ اے پی سی کی قرار دادوںپر عمل نہ ہوا تو عوامی طوفان آئے گا۔

دوسری جانب ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں امریکا کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ مظاہرین ”گو امریکا“ کے نعرے لگارہے تھے۔ فرید پراچہ نے کہا وقت آگیا ہے کہ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔ آل پارٹیز کانفرنس کی قرار داد پر مکمل عمل ہونا چاہیے جبکہ کراچی میں بھی مختلف جماعتوں کی جانب سے امریکا مخالف مظاہرے کیے گئے۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان کے خلاف ممکنہ امریکی جارحیت کے خلاف قوم متحد ہوچکی ہے۔

جے یو آئی (ف) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں امریکا مردہ باد ریلی نکالی گئی۔ اس موقع پر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ کانفرنس کی قرار دادوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو خود ملک کے دفاع کے لیے نکل پڑیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آیندہ جمعہ کو ملک بھر میں امریکا کے مخالف ریلیاں نکالی جائیں گی۔ جبکہ سنی وحدت کونسل کے تحت بھی ملک بھر میں یوم ”مذمت امریکا“ منایا گیا۔ اہلسنت و الجماعت کے کارکنوں نے بھی ملک بھر میں ”یوم عزم تحفظ پاکستان“ کے موقع پر احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے۔ علامہ محمد احمد لدھیانوی اور ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں نے مطالبہ کیا کہ اگر امریکا سازشوں سے باز نہ آیا تو نیٹو کی سپلائی لائن فی الفور کاٹ دی جائے۔

ہمیں اس نازک وقت میں اپنے ذاتی، گروہی اور سیاسی اختلافات بھلاکر پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا۔ امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کو باور کرایا جائے کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے لہٰذا سرخ لائن عبور نہ کی جائے۔ علاوہ ازیں ڈرون حملوں پر بھی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا یہ حملے بھی ہماری خود مختاری اور ہمارے ملک میں بیرونی مداخلت کے مترادف ہیں۔ اب اگر قومی کانفرنس کے اعلامیے پر عمل نہ ہوا تو پھر اپوزیشن جماعتوں کو سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ پارلیمنٹ کو پالیسی سازی کا محور تسلیم کیا جائے اور اس کی دیے گئی گائیڈ لائن کی روشنی میں فیصلے کیے جائیں۔نہ صرف فیصلے بلکہ ان پرعمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔ تب ہی ہمارے حالات بدل سکتے ہیں۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.