“ نیپال میں لاپتہ ہونے والے پاکستانی فوج کے سابق افسر جن کی گمشدگی آج بھی ایک معمہ ہے “

سابق لفٹیننٹ کرنل محمد حبیب ظاہر اپریل 2017 کے دوران لاہور سے عمان کے راستے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچے تھے اور تربھوون انٹرنیشل ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ انھیں یہاں سے انڈیا کی سرحد پر واقع لمبینی شہر جانا تھا اور اس کے لیے وہ مقامی ایئرپورٹ گئے جو بین الاقوامی ایئرپورٹ سے تھوڑی مسافت پر واقع ہے۔ لمبینی کا ہوائی اڈہ انڈيا کی سرحد سے پانچ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ کرنل حبیب نے اپنی فیملی سے آخری بار رابطہ اسی ہوائی اڈے سے باہر آنے کے بعد ایک ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے کیا تھا.

نیپال میں کرنل حبیب کی گمشدگی کی ایک خصوصی پینل کے ذریعے تحقیقات کی گئی تھیں لیکن اس کی رپورٹ کبھی عام نہیں کی گئی۔ نوراج سیلوال اس وقت نیپال پولیس کے نائب سربراہ تھے اور اب وہ رُکن پارلیمان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے تو اسے نیا پینل بنا کر اس کی مزید تفتیش کی جانی چاہیے۔ تاہم انھوں نے اس کیس کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کیا۔ نوراج سیلوال کہتے ہیں کہ ’جب تک میں یونیفارم میں تھا میں نے اپنے عہدے کی رازداری کے حلف کے تحت کام کیا تھا۔ اب سیاست میں، میں اُس وقت پیش آنے والے واقعات پر بات نہیں کر سکتا۔ راجن بھٹا رائی سابق وزیر اعظم کے پی اولی کے مشیر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ تفتیش سے یہ معلوم ہوا تھا کہ کرنل حبیب نیپال میں نہیں ہیں۔

حکومت نے اس وقت تفتیش کے لیے ایک پینل تشکیل دیا تھا۔ اس نے گہرائی سے تفتیش کی تھی۔ حکومت کا ماننا تھا کہ کرنل حبیب نیپال سے غائب ہوئے لیکن وہ نیپال میں نہیں ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے کرنل حبیب کی گمشدگی کے بارے میں انڈیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس میں ’ہوسٹائل خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ‘ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ادھر انڈیا کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اس نے نیپال میں پاکستان کے کسی سابق کرنل کی گمشدگی کے بارے میں میڈیا سے سُنا تھا لیکن اسے اس کے بارے میں اس سے زیادہ کوئی علم نہیں ہے۔

نیپال میں انڈیا سمیت کئی ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں بہت سرگرم ہیں۔ نیپال سارک ایسوسی ایشن کا رکن ملک ہے اور اںڈیا اور پاکستان دونوں سے اس کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ یہاں سرکاری حلقوں میں اس بات پر افسوس ضرور پایا جاتا ہے کہ کرنل حبیب نیپال کی دھرتی سے غائب ہوئے۔ لیکن وہ اس معاملے میں انڈیا اور پاکستان کی رقابت میں نہیں پھنسنا چاہتے۔

سابق اعلیٰ پولیس افسر ہیمنت ملا کرنل جیبب کی گمشدگی کے وقت نیپال کے سنٹرل انوسٹیگیشن بیورو (سی آئی بی) کے سربراہ تھے۔ کئی وجوہات کی بنا پر نیپال غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کا محور بنا ہوا ہے۔’ انڈین انٹیلیجنس ایجنسی کی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کی بھی سرگرمی نظر آتی ہے۔ چین بھی کافی سرگرم ہے۔ مغربی ملکوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں. نیپال کبھی کبھی ان کی سرگرمیوں میں پھنس جاتا ہے۔ کئی بار دو ملکوں کے معاملے میں نیپال ایسا پھنس جاتا ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے، کہاں جائے۔ نیپال کی ایجنسیاں پیشہ ورانہ طور پر اتنی ماہر نہیں جس کے سبب کئی بار باہر کی ایجنسیوں کے سبب یہاں مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ کرنل حبیب کی گمشدگی کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ جس طرح وہ غائب ہوئے اس میں کسی خفیہ ایجنسی کا ہی ہاتھ لگتا ہے۔

نیپالی صحافی سروج راج ادھیکاری جنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ صحافت اپنے ملک میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر دو کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے خیال میں نیپال میں انڈین خفیہ ایجنسیوں کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے. وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں کے لوگوں کو لگتا ہے کہ جو اںڈیا کے خلاف جائے گا وہ یہاں نہ سیاست میں ترقی کر سکتا ہے نہ پولیس فورس میں آگے جا سکتا ہے اور نہ ہی بیوروکریسی میں ترقی کر سکتا ہے۔ ’بیوروکریسی کی جو ٹاپ پوزیشن ہے اس کے بارے میں تاثر یہی ہے اگر انڈیا کو خوش نہیں رکھو گے تو وہاں تک نہیں پہنچ پاؤ گے۔ یہاں ہر شعبے میں انڈیا کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔

کرنل حبیب ظاہر نے کھٹمنڈو سے لمبینی کا سفر ایک ڈومسٹک فلائٹ سے کیا تھا۔ اس کے لیے ٹکٹ انھیں کھٹمنڈو میں رسیو کرنے والے شخص نے دی تھی۔ لمبینی کے لیے طیارے پر سوار ہونے سے پہلے کرنل حبیب نے جہاز کے نزدیک اپنی ایک فوٹو کھینچی تھی۔ یہ فوٹو سیلفی نہیں تھی کیونکہ اسے کسی دوسرے شخص نے لیا تھا۔ غالباً یہ شخص کھٹمنڈو سے ان کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ شخص اس کیس کی بہت اہم کڑی ہے۔

کرنل حبیب ظاہر کو اقوام متحدہ کی کسی ملازمت کے انٹرویو کے سلسلے میں لمبینی بلایا گیا تھا۔ بظاہر یہ ایک ٹریپ یا دھوکہ تھا۔ لمبینی نیپال اور انڈیا کے درمیان ایک سرحدی قصبہ ہے۔ یہاں بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی پیدائش ہوئی تھی۔ نیپال اور غیر ممالک سے گوتم بدھ کے پیروکار اور سیاح ہزاروں کی تعداد میں مندروں کو دیکھنے یہاں آتے ہیں۔ یہ ایک خالص مذہبی مقام ہے۔

لمبینی کا ہوائی اڈہ انڈيا کی سرحد سے پانچ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ کرنل حبیب نے اپنی فیملی سے آخری بار رابطہ اسی ہوائی اڈے سے باہر آنے کے بعد ایک ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے کیا تھا۔

نیپال میں جاسوسی کا جال‘ اور ’نیپالی پرچم خفیہ ایجنسیوں کے شکنجے میں‘ کے عنوان کی کتابوں کے مصنف سروج راج ادھیکاری کا خیال ہے کہ کرنل حبیب کو انڈیا کی طرف ہی لے جایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ انھیں سرحد کے جنوب کی جانب (انڈیا) ہی لے جایا گیا ہو گا۔ دیکھیے انڈیا یہاں جو کرتا ہے وہ کچھ نہ کچھ سراغ ضرور چھوڑتا ہے تاکہ وہ یہ بتا سکے کہ اس کا یہاں کتنا اثر و رسوخ ہے۔

،چھ سات برس انتظار کیجیے۔ شاید اکشے کمار کی کوئی فلم آجائے جس میں یہ دکھایا جائے کہ کرنل حبیب کے اغوا کا آپریشن کس طرح انجام دیا گیا تھا۔‘

نیپال حکومت کی تفتیش بھلے ہی کسی نتیجے پر نہ پہنچی ہو لیکن ایک بات واضح ہے کہ لفٹیننٹ کرنل حبیب ظاہر لمبینی ایئرپورٹ، انڈیا کی سرحد اور لمبینی شہر کے درمیان ہی کہیں غائب ہوئے۔ ان کے ساتھ کون سفر کر رہا تھا اور ان کو یہاں رسیو کرنے والے لوگ کون تھے؟ اس سب سوالوں کے بارے میں نیپال میں سکیورٹی کے ادارے خاموش ہیں۔ یوں کرنل حبیب کی گمشدگی پانچ برس بھی پُراسرار بنی ہوئی ہے۔

نہ ہی آج تک پاکستانی گورنمنٹ نے کرنل حبیب پر کُھل کر اپنی عوام کو بتایا اور نہ ہی بتا پائیگی کہ آخر کرنل حبیب کے ساتھ کس نے اور کیوں انہیں غائب کیا.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 93022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.